تقسیم کی کہانی مائونٹ بیٹن کے پریس سیکرٹری کی زبانی

یہ ’’بڑے فیصلے‘‘ کہاں ہوئے تھے؟ فسادات کو روکا جا سکتا تھا مگر ایسا کیوں نہ ہوا؟


Aamir Riaz August 13, 2012
تقسیم کی کہانی، مائونٹ بیٹن کے پریس سیکرٹری کی زبانی (فوٹو ایکسپریس)

قوم پرستی میں الجھی تاریخ میں تصویر کا ایک ہی رخ دکھایا جاتا ہے ، اس لیے متبادل نقطۂ نظر جاننے کے لیے اخبارات، رسائل، ذاتی ڈائریاں، سوانح اور دیگر کتب خاصی اہمیت اختیار کر جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کتاب ایلن کیمبل جانسن نے 1951 میں تحریر کی ، جواس کی ذاتی ڈائریوں پر مشتمل تھی۔

کتاب کا نام ہے، ''مائونٹ بیٹن کے ساتھ ایک مشن۔'' 1913 میں پیدا ہونے والے جانسن، مائونٹ بیٹن کے ساتھ جنوب مشرقی ایشیا میں خدمات سرانجام دے چکے تھے جہاں مائونٹ بیٹن سلطنت برطانیہ کی افواج کے سربراہ تھے۔ دسمبر 1946ء میں انہیں مائونٹ بیٹن کا پریس سیکرٹری بنا کر بھیجا گیا تھا۔ جانسن کی یہ ڈائری 19 دسمبر 1946 سے شروع ہوتی ہے۔

پہلے ہی صفحہ پر جانسن لکھتے ہیں ''جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو مائونٹ بیٹن نے گاڑی کی کھڑکیوں کے تمام شیشے اوپر کر کے مجھے سرگوشی میں کہا، جو بات میں تمہیں بتانے جا رہا ہوں، اس بارے میں میرے خاندان کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں۔ کل شام مجھے مسٹر ایٹلی (وزیراعظم برطانیہ) نے کھانے پر بلایا اور لارڈ ویول کی جگہ انڈیا کے وائسرائے کا عہدہ سنبھالنے کی دعوت دی۔''

15 جنوری 1947 تک مائونٹ بیٹن اس ذمہ داری کو نبھانے کی ہامی بھر چکا تھا ۔ مائونٹ بیٹن کو اس بات کا علم ہوچکا تھا کہ اسے جون 1948 تک اپنا کام مکمل کرنا ہے۔ اسے ہدایت مل چکی تھی کہ اگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچا تو اسے اختیارات کو انڈیا کی صوبائی حکومتوں کو منتقل کرنا ہو گا۔ تاہم جب وہ انڈیا پہنچا تو اسے کہا گیا کہ یہ کام اسے جون 1948ء سے بھی پہلے کرنا ہوگا۔

وزیراعظم ایٹلی نے مائونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے بنانے کا اعلان 20فروری 1947ء کو برٹش اسمبلی میں کرنا تھا۔ ابھی تک اس خبر کے بارے چند افراد ہی کو علم تھا۔ وزیراعظم کے برطانوی اسمبلی میں اعلان سے 24 گھنٹے قبل یہ خبر امریکی اخبارات میں شہ سرخیوں سے شائع ہوگئی۔ جانسن حیران تھا کہ یہ رازداری کیسے پامال ہوئی؟ مگر مائونٹ بیٹن کے چیف آف سٹاف لارڈ اسمے نے اسے بتایا کہ ہمیں قبل از وقت ہر فیصلہ سے امریکا کو مطلع کرنا ہوتا ہے۔

امریکا تاج برطانیہ کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ اسی لیے یہ خبر امریکی میڈیا کے ذریعے قبل ازوقت مشتہر کر ا دی گئی۔ بے چارے جانسن کو کیا معلوم تھا کہ 14اگست 1941 کے معاہدہ اٹلانٹک پر دستخط کے بعد امریکی صدر کے حکم پر ہی فرانس اور برطانیہ نوآبادیات کو بتدریج خالی کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا تھے۔ کرپس مشن (1942) ہو یا کابینہ مشن (1946) یا پھر 3جون کا منصوبہ، اس سب کے پیچھے بنیادی محرک وہی دبائو تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مائونٹ بیٹن کو جون 1948 کی ڈیڈلائن بھی دے دی گئی تھی کہ امریکیوں کا صبر کا پیمانہ چھلک ہی نہ جائے۔

5 مارچ 1947 کی ڈائری میں جانسن نے برطانوی پارلیمنٹ میں ہونے والی اس بحث کا احوال لکھا ہے، جووزیراعظم اٹیلی کے 20 فروری والے بیان کے بعد جاری تھی۔ سرجان اینڈرسن جیسے ممبران اسمبلی چاہتے تھے کہ برطانیہ نے انڈیا چھوڑنے کا اعلان تو کر دیا مگر اس کے لیے حتمی تاریخ نہیں دینی چاہیے۔ مگر شاید انہیں اس دبائو کا اندازہ ہی نہیں تھا جس کا سامنا برطانیہ کی ریاست کو گذشتہ چھ سال سے تھا۔

اسی اجلاس میں برطانوی اسمبلی کے سوشلسٹ رکن زیلاکس ( Ziliacu )کی بازگشت بھی سنی گئی، جس نے سوویت یونین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسے سوویت یونین میں رہنے کے باوجود یوکرائن کو اقوام متحدہ میں الگ نشست دی گئی ہے ویسے ہی انڈین مسلمانوں کو بھی خصوصی آئینی حیثیت دے دی جائے۔

21 فروری کی ڈائری میں جانسن نے لارڈ اسمے کے خوف کاذکر کیا۔ لارڈ اسمے کو ڈر تھا کہ ونسٹن چرچل لارڈ مائونٹ بیٹن کی تعیناتی کو ہندو حمایت اور مسلم لیگ مخالفت کے پیرائے میں بیان کر سکتا ہے۔

تحریک پاکستان، تقسیم پنجاب و بنگال اور برٹش انڈیا کے بارے میں اصل حقائق جاننے کے لیے برطانوی اسمبلیوں میں ہونے والی بحثوں کو جاننا ازحد ضروری ہے۔ 20 فروری کے بیان کے بعد ہونے والی بحثیں ہی اہم نہیں بلکہ 3 جون کے منصوبے پر 4جولائی 1947 کے بعد ہونے والی بحثیں بھی کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔ یاد رہے جولائی 1947 میں برطانوی اسمبلیوں نے وہ قانون منظور کیا تھا جس کی رو سے بھارت اور پاکستان کے نام سے دو ریاستیں اگست 1947 کے وسط میں وجود میں آنی تھیں۔ اسے عرف عام میں قانون آزادی ہند 1947 کہا جاتا ہے۔

25 مارچ 1947 کی ڈائری میں جانسن نے مائونٹ بیٹن اور نہرو کی پہلی ملاقات کا احوال لکھتے ہوئے بتایا کہ پنڈت صاحب پنجاب کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہی کو واحد حل سمجھتے تھے۔ یاد رہے ابھی 3جون کا منصوبہ نہیں آیا تھا مگر کانگریس قیادت تقسیم پنجاب کا فیصلہ کر چکی تھی۔

26 مارچ کو پٹیل سے ہونے والی مائونٹ بیٹن کی پہلی ملاقات بھی کانگرسی رویے کی عکاس تھی۔ بقول جانسن، پٹیل کے خیالات واضح اور طے شدہ تھے۔ وہ ہر حالت میں مسلم لیگ سے چھٹکارا چاہتا تھا۔ بقول پیٹل ،'مسلم لیگ پنجاب کی وجہ سے اپنی اہمیت جتا رہی ہے اور اب اس اہمیت کی قیمت مانگ رہی ہے۔

اگر اسے کسی نے قیمت دینے کی بات کی تو بھارت میں اس کے لیے کوئی جگہ نہ ہو گی۔ '26 مارچ ہی کی ڈائری میں جانسن نے ایم کے پانیکر سے ملاقات کا احوال بھی لکھا ہے۔ پانیکر نے اعترافی بیان دیتے ہوئے کہا کہ پنڈت نہرو نے مذہبی بنیادوں پر تقسیم پنجاب کی حمایت کر کے دراصل مذہبی بنیادوں پر دو الگ ملک بنانے کے مطالبے کو خود ہی تسلیم کر لیا ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ میں قانون آزادی ہند کو جمہوری روایات کے برعکس سب سے پہلے ہائوس آف لارڈز میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ جانسن کے استفسار پر اسے بتایا گیا کہ کہ یہ مسئلہ ملکیت کا ہے اس لیے مالکوں ہی کو پہلے آمادہ کیا جانا ضروری ہے ۔ ان ڈائریوں میں ان تمام خفیہ ملاقاتوں کے اشارے بھی ملتے ہیں، جو قانون آزادی ہند کو ہائوس آف لارڈز سے منظور کرانے سے قبل کی گئیں۔

13اور 14 اگست کی ڈائریاں دیدنی ہیں اور اگر انہیں بغور پڑھا جائے تو بہت سی باتیں خودبخود سمجھ آنے لگتی ہیں۔

13 اگست 1947ء کو بطور وائسرائے ، مائونٹ بیٹن اپنے آخری دورے پر روانہ ہوا۔ کراچی ایئر پورٹ پر اس کا استقبال سندھ کے گورنر غلام حسین ہدایت اللہ نے کیا۔ مائونٹ بیٹن کو یہ بات اچھی نہ لگی کہ خود قائد اعظم اس کے استقبال کو نہیں آئے۔ اسی اثنا میں موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قائد اعظم کے ملٹری سیکرٹری کرنل برٹنی (Birtnie) نے مائونٹ بیٹن کو ایک متوقع بم حملہ سے آگاہ کیا، جس کا نشانہ قائد اعظم ہو سکتے تھے، تاہم قائد اعظم نے ان خطرات کو یک سر مسترد کر دیا۔ جانسن نے اپنی ڈائری میں گورنمنٹ انفارمیشن آفیسر کرنل ملک سے ہونے والی نوک جھونک کو بھی مخصوص پیرائے میں بیان کیا ہے۔

14اگست کی صبح سویرے گورنمنٹ ہائوس کی تقریب کا احوال اپنی جگہ بہت سی غلط فہمیوں کو دور کر رہا ہے۔ جانسن کے بقول ''یہ تقریب ایک گھنٹہ ہی میں مکمل ہو گئی تھی۔ قائد اعظم نے اپنی تقریر میں خود کو ـــپہلا آئینی گورنر جنرل کہا تو تقریب میں بیٹھے انگریز افسروں خصوصاً مائونٹ بیٹن کو بھی اس اصطلاح سے ذہنی دھچکا لگا۔ ''آئینی گورنر جنرل ــــکہنے کا مطلب یہی تھا کہ آج سے گورنر جنرل، مائونٹ بیٹن یا ان کے پیش روئوںکے برعکس تاج برطانیہ کا ملازم نہیں رہا۔ یہی وہ بصیرت افروز آئینی دلیل تھی، جس کی وجہ سے، مائونٹ بیٹن خواہش کے باوجود مشترکہ گورنر جنرل نہ بنائے گئے۔مگر بقول جانسن، زیرک جناح نے آخری وقت تک اس بات کو صیغۂ راز ہی رکھا۔ یہ تقریب 14اگست کو دوپہر 12بجے سے پہلے ہی اس لیے بھی ختم کر دی گئی کیونکہ ایسی ہی ایک تقریب دہلی میں بعد از دوپہر میں ہونے والی تھی۔

جانسن کی ڈائریوں میں لکھے ان واقعات کو اگر ایلکس وان تنزیلمان (Alex Von Tunzaliman) کی کتاب ''انڈین سمر'' کے ساتھ رکھ کر پڑھا جائے تو بہت سے سربستہ راز خودبخود کھلنے لگتے ہیں۔

قائد اعظم کو ''پہلا آئینی گورنر جنرل'' بنانے والی تقریب کے بعد اسی روز دوپہر میں دہلی واپسی تک مائونٹ بیٹن کو یہ بات معلوم ہی نہ تھی کہ بھارت میں ہونے والی تقریب ملتوی کر دی گئی ہے۔ البتہ دہلی ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد جاکر معلوم ہوا کہ جوتشیوں نے تقریب کے لیے دوپہر کے وقت کو ''شبھ گھڑی'' قرار نہیں دیا اس لیے یہ تقریب اب رات 12بجے ہوگی۔ یہ بھارتی حکمرانوں کا پہلا آزاد فیصلہ تھا۔ ایلکس نے رات 12ہونے والی تقریب کا احوال ایک صحافی مسٹر ٹالبوٹ کی زبانی لکھا جو بنفس نفیس تقریب میں موجود رہا۔ رات بارہ بجنے میں 5منٹ تھے اور کانگریسی قیادت مائونٹ بیٹن کے ہمراہ سوئی پر سوئی چڑھنے کی منتظر تھی۔

چند سیکنڈ بعد اچانک ایک زور دار دھماکا ہوا اور سب نے ہڑ بڑا کر پیچھے دیکھا۔ پیچھے ایک ہندو جوتشی نے مٹی کا مٹکا توڑا تھا۔ اس پروقار تقریب سے قبل قدیم ہندو رسم کو ادا کرنا ضروری قرار پایا مگر بقول ٹالبوٹ' خود پنڈت نہرو دوسری طرف' منہ پر ہاتھ رکھے اپنی ہنسی روکنے میں مشغول تھے۔ یہ دہرا معیار حکمرانی تادم تحریر بھارتی پالیسی سازوں کا درد سر بنا ہوا ہے۔ جانسن کی یہ ڈائری 28جون 1948ء تک پھیلی ہوئی ہے۔ 14اگست 1947ء کے بعد کااحوال بھی اس میں درج ہے اور تقسیم پنجاب کی کہانی بھی۔ 27 ستمبر 1947ء کااحوال بھی ذرا دیکھیں۔

''امرتسر کی صورت حال پریشان کن ہے۔ ہیضہ پھیل چکاہے اور ٹرینوں پر حملے جاری ہیں۔ کل کے ایک فیصلہ کے مطابق ان تمام ٹرینوں کی آمد کو معطل کر دیا گیا تھا جو امرتسر سے گزرنی تھیں۔ آج بھی ان پر بحث کی گئی اور کل والا فیصلہ آج بھی برقرار رکھا گیا۔ امرتسر سے ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ بہت مشکل ہے۔'' یہ بیان پاکستان اور بھارت کے قیام سے 38دن بعد کا ہے۔ حالات کی ابتری کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔

27مئی 1947ء کو جانسن نے 84سال کی عمر میں اپنے سینٹرل لندن اپارٹمینٹ میں امبریش دیوان جی کو ایک انٹرویو دیاجو انٹرنیٹ کے ذریعے پڑھا جا سکتا ہے۔ انٹرویو میں خود جانسن نے یہ تسلیم کیا کہ انگریزوں کو تقسیم پنجاب کے مہلک اثرات کا بخوبی علم تھا۔ مگر انہوں نے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے کیا کیا؟ فوج' پولیس' خفیہ ادارے سب ان کے پاس تھے مگر پھر فسادات کو کیوں لگام نہ ڈالی گئی؟ یہ سب سوالات تادم تحریر جواب سے محروم ہیں۔

انٹرویو میں تقسیم پنجاب کے حوالے سے گورنر پنجاب اور مائونٹ بیٹن میں تقسیم سے قبل ہونے والی ملاقات کا ذکر بھی موجود ہے۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ تقسیم پنجاب کے مہلک اثرات مرتب ہوں گے مگر مائونٹ بیٹن نے یہ کہہ کر اسے مسترد کر دیا کہ جب'' بڑے فیصلے'' کرنے ہوتے ہیں تو ''پورے ملک'' کی فکر کرنا ہوتی ہے۔

یہ ''بڑے فیصلے'' کہاں ہوئے تھے؟ فسادات کو روکا جا سکتا تھا مگر ایسا کیوں نہ ہوا؟ یہی وہ سوال ہیں جو ہمیں اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخ کو دوبارہ سے دیکھیں۔ یہی 14اگست کا سبق ہے جسے ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں