نیا امتحان
تحریک انصاف کی مجوزہ حکومت کے لیے سب سے بڑاچیلنج مخالف سیاسی جماعتوں کاانتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج سے نمٹنا ہوگا۔
بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 11 ویں عام انتخابات 25 جولائی کو ہو ہی گئے۔ ڈیپ اسٹیٹ کی ظہور پذیری اور پولیٹیکل انجینئرنگ کے ماحول اور ذرایع ابلاغ پر ان دیکھی پابندیوں کے سائے میں تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کی اور اگست کے مہینے میں وہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوجائیں گے۔ انھیں ماضی کی روایات کے مطابق انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عمران خان پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرلیں گے اور ان کی حکومت کی عملداری اگلے پانچ سال تک قائم رہے گی یا نہیں اس کا انحصار عمران خان کی عوامی خواہشات پر عملدرآمد کی رفتار سے ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو 25 جولائی کے انتخابات کے انعقاد کے لیے بہت وقت ملا، مکمل انتظامی اور مالیاتی اختیارات بھی حاصل ہوئے مگر جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے بروقت انتخابی نتائج سے عوام کو آگاہ کرنے کا نظام ناکام ثابت ہوا، یوں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج پر مبنی فارم 45 نہ دینے پر واویلا کررہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سیکریٹری 25 جولائی کی رات گئے تک اس بارے میں وضاحتیں کرتے رہے مگر سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے فوری طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی کشمکش کے ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے انتظامات پر مختلف نوعیت کی آراء ہیں۔ الیکشن کمیشن کے افسران نے پولنگ اسٹیشن کے قیام کے لیے ماضی کے تجربات کو مدنظر نہیں رکھا۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے علاوہ نجی اداروں میں بھی پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے۔ ان میں سے بیشترپولنگ اسٹیشن چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں بنائے گئے۔ اکثر پولنگ اسٹیشن تو عمارتوں کے درمیان گھرے ہوئے تھے۔ بعض پولنگ اسٹیشن حفاظتی نقطہ نظرکی بنیاد پر بھی اقدامات نہیں کرسکے۔
بعض پولنگ اسٹیشن چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل تھے جہاں آمدورفت کا راستہ ایک ہی تھا، یوں شدید گرمی، حبس اور پانی کی نایابی کے ماحول میں پولنگ کے عملے نے دن رات فرائض انجام دیے۔ خواتین اور مرد لمبی قطاروں میں کھڑے رہے۔ پھر ناقص مٹیریل اور ان مٹ سیاہی کی عدم دستیابی جیسی شکایات عام تھیں۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی عملے کو ایک دن قبل ڈیوٹی پر طلب کیا۔ پولنگ کے عملے میں اساتذہ کی اکثریت ہوتی ہے۔ یہ عملہ 24جولائی کی صبح سے ریٹرننگ افسران کے دفتر کے سامنے سامان حاصل کرنے کے لیے قطارمیں لگا رہا۔
کراچی میں دوپہر کے بعد عملے کو پولنگ بکس اور دوسرے تھیلے دیے گئے۔ بیچارے اساتذہ اپنے بازوؤں پر اس سامان کو لاد کر پولنگ اسٹیشنوں تک گئے جہاں ان لوگوں کو بنیادی سہولتوں کے بغیر رات گزارنی تھی ۔ وہ تو کسی معقول فرد نے چیف الیکشن کمیشن کی توجہ مبذول کرائی تو پھر کمیشن نے یہ ہدایات جاری کیں کہ خواتین عملہ رات کو پولنگ اسٹیشن پر نہ رکے۔
25 جولائی کی رات کو نتائج مرتب کرنے کے باوجود عملے کو روک لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ قصور تو الیکشن کمیشن کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نظام کا تھا مگر سزا 24 گھنٹوں سے زیادہ دیر ڈیوٹی پر موجود رہنے والے عملے کو ملی۔ الیکشن کمیشن نے اپنے ضابطہ اخلاق میں پولنگ ایجنٹ اور صحافیوں پر موبائل فون پولنگ اسٹیشن میں لے جانے پر پابندی لگا کر بھی شکوک و شبہات کو تقویت دی۔ یہ ایک اصولی بات ہے کہ جب ووٹر بیلٹ پیپر پر مہر لگاتا ہے تو اس عمل کو مکمل طور پر خفیہ ہونا چاہیے نہ کہ اس عمل کی تصویر بنائی جائے کہ کسی فرد کو اس منظر کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔ عمران خان اور آصف زرداری نے پولنگ اسٹیشن میں سب کے سامنے بیلٹ پیپر پر مہر لگا کر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ پولنگ ایجنٹ اور ووٹروں کی آمدورفت ، پولنگ کرانے والے عملے اور سیکیورٹی ایجنسی کے اہلکاروں کے رویے سے اپنے امیدوارکو آگاہ نہ کرسکے۔
انتخابی نتائج مرتب ہونے کے بعد فارم 45 پر پریزائیڈنگ افسر اور پولنگ اسٹیشن میں موجود پولنگ ایجنٹ مبصرین کے دستخط لازمی ہوتے ہیں اور اس فارم کی نقل ہر پولنگ ایجنٹ کو فراہم کی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے 2007ء کے ضابطہ کار کے تحت یہ نتائج پولنگ اسٹیشن کے دروازے پر چسپاں کرنا ضروری ہے۔ پولنگ ایجنٹ اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے فارم 45 کی تصویر اپنے امیدوارکو فوری طور پر ارسال کرسکتا ہے۔ گنتی کے وقت موجودصحافی بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، یوں ذرایع ابلاغ کو فوری طور پر معروضی اعداد و شمار دستیاب ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے 7:00 بجے سے قبل الیکٹرونک میڈیا پر غیر حتمی انتخابی نتائج نشر کرنے پر پابندی عائد کی تھی جوکہ درست اقدام تھا مگر درست نتائج حاصل کرنا تو الیکٹرونک میڈیا کا بنیادی حق ہے اور اس حق کو حاصل کر کے ہی عوام کو اطلاعات فراہم کرنے کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے۔
اس وقت تک مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ سمیت کئی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کردیا ہے۔ ابھی انسانی حقوق کمیشن HRCP اور دیگر اداروں کی رپورٹیں آنا باقی ہیں مگر انتخابات کے ماحول سے یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ پولیٹیکل انجینئرنگ کے ذریعے متوقع نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت کا کہنا تھا کہ ان کے امیدواروں کو مجبورکیا جارہا ہے کہ وہ اپنی وفاداریاں تبدیل کرلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے امیدوار اس دباؤ کو برداشت نہ کرسکے اور مسلم لیگ چھوڑ کرکچھ نے آزاد امیدوار بننے کا فیصلہ کیا۔ یہ الزام پیپلز پارٹی نے بھی سندھ میں عائد کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے ان سیکیورٹی افسروں کے نام ظاہر کیے تھے جنہوں نے سندھ کے مختلف اضلاع کے پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے رابطے کیے تھے۔ پنجاب میں تو محکمہ ایگری کلچرکا کردار بھی اہم ہوگیا تھا۔ جس طرح مسلم لیگی امیدواروں کی سزا کے اعلانات کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ تاثر تقویت پاگیا کہ ان انتخابات میں پولیٹیکل انجینئرنگ کے نتائج ہی سب کچھ طے کریں گے۔
ایچ آر سی پی نے آزادئ صحافت کی صورتحال کے بارے میں ایک جامع رپورٹ شایع کی۔ اس رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ نامعلوم قوتیں اخبارات کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں، یوں اشتہارات کو ایک دفعہ پھر ادارتی آزادی (Editorial Freedom) کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ سابق صدر ایوب خان کے دور کی پریس ایڈوائس کا سلسلہ پھر شروع ہوچکا ہے۔ دانشور اور عالمی شہرت یافتہ صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن آئی اے رحمن نے اس رپورٹ کو مرتب کیا تھا۔
بین الاقوامی ذرایع ابلاغ نے اس رپورٹ کو خصوصی اہمیت دی تھی مگر نگراں حکومت نے سیاسی جماعتوں کے الزامات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے روایتی طریقہ کار اختیار کیا اور ماضی کی طرح ان الزامات کی سرسری طور پر تردید کا طریقہ استعمال کیا گیا۔ نگراں وزیر اعظم جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیںکو ان الزامات کی حقیقت جاننے کے لیے فوری طور پر تحقیقات کا حکم جاری کرنا چاہیے تھا اور تمام سیاسی جماعتوں کو اس اعلیٰ سطح کی تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کرنا ضروری تھا تاکہ انتخابات کے ابتدائی مرحلے پر جن خدشات کا اظہار کیا گیا دور ہوجاتے مگر نگراں حکومت کی عدم دلچسپی کی بناء پر صورتحال انتخابات سے قبل ہی خراب ہوگئی۔ یوں ایک عدم اعتماد کی فضاء میں انتخابات منعقد ہوئے۔
تحریک انصاف نے نیا پاکستان بنانے کے وعدے کے لیے ایک طویل ایجنڈا تیارکیا ہے مگر تحریک انصاف کی مجوزہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج مخالف سیاسی جماعتوں کا انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج سے نمٹنا ہوگا۔ پاکستان میں سیاسی احتجاج سے نمٹنے کے لیے عمومی طور پر انتظامی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے، سیاسی رہنماؤں اورکارکنوں کی خفیہ نگرانی کی جاتی ہے اور ان کے ٹیلی فون ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ ان رہنماؤں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ذرایع ابلاغ پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور اگر سڑکوں پرکوئی احتجاج ہو تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ عمران خان پرویز مشرف کے خلاف تحریک اور میاں نواز شریف کے خلاف دھرنوں میں ایسی ہی صورتحال سے گزر چکے ہیں۔
عمران خان کی زندگی کا ایک حصہ برطانیہ میں گزرا ہے۔ وہ برطانیہ کے پارلیمانی اور عدالتی نظام کے مداح ہیں۔ وہاں سیاسی احتجاج کو عوام کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ حکومت کسی بھی قسم کے احتجاج کو طاقت کے ذریعے ختم نہیں کرتی ہے۔ اب عمران خان سے پاکستان کے عوام کو امید ہے کہ وہ اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے اس حق کو تسلیم کریں گے اور احتجاج پر کسی قسم کی قدغن عائد نہیں کریں گے۔
خاص طور پر وہ سب سے پہلے آزادئ صحافت سے متعلق شکایات پر توجہ دیں گے اور ایسے اقدامات کریں گے کہ آزادئ صحافت سمیت تمام شہری آزادیاں برقرار رہیں۔ اس ملک کے شہری پہلی دفعہ محسوس کریں کہ وہ مکمل طور پر اپنے آئینی حقوق کے استعمال کے لیے آزاد ہیں۔ اس طرح ایک جمہوری ماحول تسلسل پائے گا جس کے نتیجے میں ڈیپ اسٹیٹ اور پولیٹیکل انجینئرنگ کے الزامات اور خدشات غلط ثابت ہونگے، اب عمران خان کا نیا امتحان شروع ہورہا ہے۔
عمران خان پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرلیں گے اور ان کی حکومت کی عملداری اگلے پانچ سال تک قائم رہے گی یا نہیں اس کا انحصار عمران خان کی عوامی خواہشات پر عملدرآمد کی رفتار سے ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو 25 جولائی کے انتخابات کے انعقاد کے لیے بہت وقت ملا، مکمل انتظامی اور مالیاتی اختیارات بھی حاصل ہوئے مگر جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے بروقت انتخابی نتائج سے عوام کو آگاہ کرنے کا نظام ناکام ثابت ہوا، یوں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج پر مبنی فارم 45 نہ دینے پر واویلا کررہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سیکریٹری 25 جولائی کی رات گئے تک اس بارے میں وضاحتیں کرتے رہے مگر سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے فوری طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی کشمکش کے ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے انتظامات پر مختلف نوعیت کی آراء ہیں۔ الیکشن کمیشن کے افسران نے پولنگ اسٹیشن کے قیام کے لیے ماضی کے تجربات کو مدنظر نہیں رکھا۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے علاوہ نجی اداروں میں بھی پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے۔ ان میں سے بیشترپولنگ اسٹیشن چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں بنائے گئے۔ اکثر پولنگ اسٹیشن تو عمارتوں کے درمیان گھرے ہوئے تھے۔ بعض پولنگ اسٹیشن حفاظتی نقطہ نظرکی بنیاد پر بھی اقدامات نہیں کرسکے۔
بعض پولنگ اسٹیشن چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل تھے جہاں آمدورفت کا راستہ ایک ہی تھا، یوں شدید گرمی، حبس اور پانی کی نایابی کے ماحول میں پولنگ کے عملے نے دن رات فرائض انجام دیے۔ خواتین اور مرد لمبی قطاروں میں کھڑے رہے۔ پھر ناقص مٹیریل اور ان مٹ سیاہی کی عدم دستیابی جیسی شکایات عام تھیں۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی عملے کو ایک دن قبل ڈیوٹی پر طلب کیا۔ پولنگ کے عملے میں اساتذہ کی اکثریت ہوتی ہے۔ یہ عملہ 24جولائی کی صبح سے ریٹرننگ افسران کے دفتر کے سامنے سامان حاصل کرنے کے لیے قطارمیں لگا رہا۔
کراچی میں دوپہر کے بعد عملے کو پولنگ بکس اور دوسرے تھیلے دیے گئے۔ بیچارے اساتذہ اپنے بازوؤں پر اس سامان کو لاد کر پولنگ اسٹیشنوں تک گئے جہاں ان لوگوں کو بنیادی سہولتوں کے بغیر رات گزارنی تھی ۔ وہ تو کسی معقول فرد نے چیف الیکشن کمیشن کی توجہ مبذول کرائی تو پھر کمیشن نے یہ ہدایات جاری کیں کہ خواتین عملہ رات کو پولنگ اسٹیشن پر نہ رکے۔
25 جولائی کی رات کو نتائج مرتب کرنے کے باوجود عملے کو روک لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ قصور تو الیکشن کمیشن کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نظام کا تھا مگر سزا 24 گھنٹوں سے زیادہ دیر ڈیوٹی پر موجود رہنے والے عملے کو ملی۔ الیکشن کمیشن نے اپنے ضابطہ اخلاق میں پولنگ ایجنٹ اور صحافیوں پر موبائل فون پولنگ اسٹیشن میں لے جانے پر پابندی لگا کر بھی شکوک و شبہات کو تقویت دی۔ یہ ایک اصولی بات ہے کہ جب ووٹر بیلٹ پیپر پر مہر لگاتا ہے تو اس عمل کو مکمل طور پر خفیہ ہونا چاہیے نہ کہ اس عمل کی تصویر بنائی جائے کہ کسی فرد کو اس منظر کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔ عمران خان اور آصف زرداری نے پولنگ اسٹیشن میں سب کے سامنے بیلٹ پیپر پر مہر لگا کر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ پولنگ ایجنٹ اور ووٹروں کی آمدورفت ، پولنگ کرانے والے عملے اور سیکیورٹی ایجنسی کے اہلکاروں کے رویے سے اپنے امیدوارکو آگاہ نہ کرسکے۔
انتخابی نتائج مرتب ہونے کے بعد فارم 45 پر پریزائیڈنگ افسر اور پولنگ اسٹیشن میں موجود پولنگ ایجنٹ مبصرین کے دستخط لازمی ہوتے ہیں اور اس فارم کی نقل ہر پولنگ ایجنٹ کو فراہم کی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے 2007ء کے ضابطہ کار کے تحت یہ نتائج پولنگ اسٹیشن کے دروازے پر چسپاں کرنا ضروری ہے۔ پولنگ ایجنٹ اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے فارم 45 کی تصویر اپنے امیدوارکو فوری طور پر ارسال کرسکتا ہے۔ گنتی کے وقت موجودصحافی بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، یوں ذرایع ابلاغ کو فوری طور پر معروضی اعداد و شمار دستیاب ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے 7:00 بجے سے قبل الیکٹرونک میڈیا پر غیر حتمی انتخابی نتائج نشر کرنے پر پابندی عائد کی تھی جوکہ درست اقدام تھا مگر درست نتائج حاصل کرنا تو الیکٹرونک میڈیا کا بنیادی حق ہے اور اس حق کو حاصل کر کے ہی عوام کو اطلاعات فراہم کرنے کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے۔
اس وقت تک مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ سمیت کئی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کردیا ہے۔ ابھی انسانی حقوق کمیشن HRCP اور دیگر اداروں کی رپورٹیں آنا باقی ہیں مگر انتخابات کے ماحول سے یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ پولیٹیکل انجینئرنگ کے ذریعے متوقع نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت کا کہنا تھا کہ ان کے امیدواروں کو مجبورکیا جارہا ہے کہ وہ اپنی وفاداریاں تبدیل کرلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے امیدوار اس دباؤ کو برداشت نہ کرسکے اور مسلم لیگ چھوڑ کرکچھ نے آزاد امیدوار بننے کا فیصلہ کیا۔ یہ الزام پیپلز پارٹی نے بھی سندھ میں عائد کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے ان سیکیورٹی افسروں کے نام ظاہر کیے تھے جنہوں نے سندھ کے مختلف اضلاع کے پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے رابطے کیے تھے۔ پنجاب میں تو محکمہ ایگری کلچرکا کردار بھی اہم ہوگیا تھا۔ جس طرح مسلم لیگی امیدواروں کی سزا کے اعلانات کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ تاثر تقویت پاگیا کہ ان انتخابات میں پولیٹیکل انجینئرنگ کے نتائج ہی سب کچھ طے کریں گے۔
ایچ آر سی پی نے آزادئ صحافت کی صورتحال کے بارے میں ایک جامع رپورٹ شایع کی۔ اس رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ نامعلوم قوتیں اخبارات کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں، یوں اشتہارات کو ایک دفعہ پھر ادارتی آزادی (Editorial Freedom) کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ سابق صدر ایوب خان کے دور کی پریس ایڈوائس کا سلسلہ پھر شروع ہوچکا ہے۔ دانشور اور عالمی شہرت یافتہ صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن آئی اے رحمن نے اس رپورٹ کو مرتب کیا تھا۔
بین الاقوامی ذرایع ابلاغ نے اس رپورٹ کو خصوصی اہمیت دی تھی مگر نگراں حکومت نے سیاسی جماعتوں کے الزامات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے روایتی طریقہ کار اختیار کیا اور ماضی کی طرح ان الزامات کی سرسری طور پر تردید کا طریقہ استعمال کیا گیا۔ نگراں وزیر اعظم جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیںکو ان الزامات کی حقیقت جاننے کے لیے فوری طور پر تحقیقات کا حکم جاری کرنا چاہیے تھا اور تمام سیاسی جماعتوں کو اس اعلیٰ سطح کی تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کرنا ضروری تھا تاکہ انتخابات کے ابتدائی مرحلے پر جن خدشات کا اظہار کیا گیا دور ہوجاتے مگر نگراں حکومت کی عدم دلچسپی کی بناء پر صورتحال انتخابات سے قبل ہی خراب ہوگئی۔ یوں ایک عدم اعتماد کی فضاء میں انتخابات منعقد ہوئے۔
تحریک انصاف نے نیا پاکستان بنانے کے وعدے کے لیے ایک طویل ایجنڈا تیارکیا ہے مگر تحریک انصاف کی مجوزہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج مخالف سیاسی جماعتوں کا انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج سے نمٹنا ہوگا۔ پاکستان میں سیاسی احتجاج سے نمٹنے کے لیے عمومی طور پر انتظامی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے، سیاسی رہنماؤں اورکارکنوں کی خفیہ نگرانی کی جاتی ہے اور ان کے ٹیلی فون ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ ان رہنماؤں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ذرایع ابلاغ پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور اگر سڑکوں پرکوئی احتجاج ہو تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ عمران خان پرویز مشرف کے خلاف تحریک اور میاں نواز شریف کے خلاف دھرنوں میں ایسی ہی صورتحال سے گزر چکے ہیں۔
عمران خان کی زندگی کا ایک حصہ برطانیہ میں گزرا ہے۔ وہ برطانیہ کے پارلیمانی اور عدالتی نظام کے مداح ہیں۔ وہاں سیاسی احتجاج کو عوام کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ حکومت کسی بھی قسم کے احتجاج کو طاقت کے ذریعے ختم نہیں کرتی ہے۔ اب عمران خان سے پاکستان کے عوام کو امید ہے کہ وہ اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے اس حق کو تسلیم کریں گے اور احتجاج پر کسی قسم کی قدغن عائد نہیں کریں گے۔
خاص طور پر وہ سب سے پہلے آزادئ صحافت سے متعلق شکایات پر توجہ دیں گے اور ایسے اقدامات کریں گے کہ آزادئ صحافت سمیت تمام شہری آزادیاں برقرار رہیں۔ اس ملک کے شہری پہلی دفعہ محسوس کریں کہ وہ مکمل طور پر اپنے آئینی حقوق کے استعمال کے لیے آزاد ہیں۔ اس طرح ایک جمہوری ماحول تسلسل پائے گا جس کے نتیجے میں ڈیپ اسٹیٹ اور پولیٹیکل انجینئرنگ کے الزامات اور خدشات غلط ثابت ہونگے، اب عمران خان کا نیا امتحان شروع ہورہا ہے۔