فیصلہ کُن لمحے
مختلف تنازعات کے خاتمے اور شفافیت کے لیے فوری طور پر ایک جے آئی ٹی تشکیل دینی چاہیے۔
25جولائی کے انتخابات کے بعد پاکستان میں پہلی بار تیسری مرتبہ اقتدار کی متواتر منتقلی ہوگی۔ 100 سے زائد سیاسی جماعتوں نے قومی اسمبلی کی 272 نشستوں پر الیکشن لڑا، مخصوص نشستوں کا فیصلہ متناسب نمایندگی کے اصول پر ہوگا۔ اسمبلی میں اکثریت کے لیے 172نشستیں درکار ہوں گی۔
غیر سرکاری نتائج پر سرسری نظر ڈالیں تو قومی اسمبلی کی 115نشستوں پر واضح برتری کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف وفاق اور کے پی کے میں بآسانی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ پنچاب میں آزاد امیدواروں سے اتحاد کے باوجود حکومت بنانا آسان نہیں ہوگا۔ موجودہ حالات میں مسلم لیگ ن پنجاب میں ایک کمزور اتحادی حکومت بنا سکتی ہے۔ کیا ن لیگ یہ خطرہ مول لے گی؟
پچاس برس قبل 7دسمبر 1970کو حق بالغ رائے دہی کی بنیاد پر یحیی خان کے مارشل لا میں مغربی و مشرقی پاکستان میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے۔ تین دھڑوں میں تقسیم ، روایتی مسلم لیگ نے قوم پرستی کے پلیٹ فورم سے انتخابی مہم چلائی اور 1940کی دہائی میں قائد اعظم محمد علی جناح کی وضع کردہ اصلاحات کے آغاز کا وعدہ کیا۔
سیاسی ماہرین اور خفیہ ایجنسیوں کے آزمائے ہوئے ان لوگوں کی فتح یقینی سمجھی جاتی تھی لیکن انھیں افسوس ناک شکست ہوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کررہے تھے، جن کی مقبولیت،سوشلسٹ نظریات اور ''روٹی ، کپڑا اور مکان'' کے پُر کشش نعرے نے اس جماعت کو عروج دیا۔ بھٹو کے پُرجوش خطاب اور جذباتی انداز نے لاکھوں کو متاثر کیا۔ مولانا مودودی اسلامی پلیٹ فورم سے نفاذ شریعت کے نعرے کے ساتھ دائیں بازو کی اسلامی پارٹیوں کی قیادت کے ساتھ میدان میں تھے۔
بھٹو نے اپنی کرشماتی شخصیت اور قائدانہ صلاحیتوں کے بل پر مغربی پاکستان کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ ان کے اشتراکی افکار اور نعروں نے طلبا، غریب اور مزدور طبقے میں مقبولیت حاصل کی۔ بھٹو چاروں صوبوں میں فیصلہ کن اکثریت اور مغربی پاکستان کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر سادہ اکثریت حاصل کرنے میں حیرت انگیز طور پر کام یاب رہے۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں مغربی پاکستان کی 138میں سے 81نشستیں حاصل کیں اور آزاد امیدواروں کی شمولیت سے یہ تعداد 88تک پہنچ گئی۔ پی پی پنجاب اورسندھ میں بھی فاتح ٹھہری۔ جمیعت علمائے اسلام بلوچستان اور نیشنل عوامی پارٹی سرحد میں کامیاب رہیں۔ بھٹو خود اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اور کئی سوشلسٹوں کے ساتھ ان کی پارٹی کے طاقت ور جاگیردار بھی کامیاب ہوئے۔
اس وقت تأثر یہ تھا کہ پنجاب کی سیاست میں جاگیرداری مؤثر نہیں رہی اور یہاں ووٹر ذات برادری کے قابو میں ہے، یہ تصور بھی غلط ثابت ہوا۔ پاکستانی ووٹر کے پیروں میں آج بھی جاگیرداروں کی بیڑیاں ہیں اور روایتی طور پر یہ ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ 1970کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور انھیں آج تک پاکستانی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن مشرقی و مغربی بازؤں پر انتخابی نتائج کے اثرات سے متعلق اندازے مختلف وجوہ سے غلط ثابت ہوئے۔
اپوزیشن کے دعوؤں کے برعکس،2008اور 2013کے مقابلے میں آزادانہ ، شفاف، غیر جانب دارانہ انتخابات منعقد کروانے پر الیکشن کمیشن کو سراہا جانا چاہیے۔ تاہم بہت سے سوالات ہیں۔کیا نتائج میں تاخیر کسی تکنیکی انجینئرنگ کا نتیجہ تھی؟ اس سوال کا جواب بہت ضروری ہے کیوں کہ سبھی بڑی پارٹیاں انتخابی شکست پر ''دھاندلی'' کا واویلا مچا رہی ہیں۔ ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ تمام ہی حلقوں میں فارم 45کی مصدقہ نقول فراہم نہیں کی گئیں جس میں ووٹوں کی تعداد بتائی جاتی ہے۔
قبل از انتخابات سرویز کے برعکس مصطفیٰ کمال کی پی ایس پی کا صفایا حیرت انگیز ہے۔ جب آر ٹی ایس ناکام ہوگیا، ممکنہ طور پر ''دباؤ'' کی وجہ سے، تو اسے بحال کرنے کے لیے وقت درکار تھا۔ اسی سے اپوزیشن کی جماعتوں کو انگشت نمائی کا بہانہ مل گیا جو پہلے ہی پری پول دھاندلی کا واویلا کررہی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے فوج کو پولنگ اسٹیشن میں تعینات کرنے کی درخواست کی تھی۔ مختلف تنازعات کے خاتمے اور شفافیت کے لیے فوری طور پر ایک جے آئی ٹی تشکیل دینی چاہیے۔
حالیہ انتخابات میں عمران خان کی بھٹو جیسی بے پناہ مقبولیت نے مخالف جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی کو ششدر کردیا ہے۔ ووٹر کا موڈ یکسر تبدیل ہوگیا، 1970 میں بھی یہی ہوا تو جب ایجینسیاں بھی مغربی پاکستان میں پی پی پی کی غیر معمولی کامیابی کو خام خیالی قرار دیتی تھیں۔ مسلم لیگ کے دھڑوں جیسی سیاسی قوتیں عوام کے ہاتھوں شکست پر بوکھلا گئی تھیں۔ آج عوام اس دور کے مقابلے میں زیادہ باشعور ہیں، اپنے حقوق اور شہری آزادیوں اور اقتدار میں رہنے والوں کی ناانصافیوں اور کرپشن سے زیادہ واقف ہیں، اور انھیں اپنے مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کی کرپشن سمیت دیگر محرکات کے نتیجے میں کبھی سیاسی مقبولیت کے عروج پر رہنے والی یہ پارٹی زوال پذیر ہوئی۔
ابتدائی غیر سرکاری نتائج میں واضح طور پر اپنی شکست دیکھنے والوں نے باقاعدہ مہم کی صورت میں مداخلت کے الزامات لگانا شروع کردیے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں ہی دھاندلی اور عدم شفافیت کا واویلا کر رہی ہیں۔
1970ء کی طرح فوج نے آج خود کو کسی براہ راست مداخلت سے دور رکھا اور جمہوریت کو راستہ دیا ہے۔ نواز شریف اور ان کی جماعت کے لوگوں کی جانب سے اعتراضات اور تنقید کے باوجود فوج نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور یہی رویہ مستقبل میں بھی اپنانا چاہیے۔ الیکٹرانک میڈیا کا ایک خاص ٹولہ کسی کے اشارے پر زہر افشانی کا حصہ رہا۔ اگلے پانچ برس کے لیے اپنے حکمران کا انتخاب کرنے والوں کی رائے کو متاثر کرنے کے لیے زرخرید کارندوں کے ذریعے الیکٹرانک میڈیا پر جھوٹ اور الزام تراشی کا بازار گرم رکھا گیا۔ فوج مخالف بیانیے کو پھیلا کر پاکستان کو کمزور بنانے کی اس کوشش میں مخصوص بین الاقوامی ادارے بھی شامل رہے۔
سیاسی پنڈتوں کی سر توڑ کوششوں اور پانی کی طرح پیسہ بہانے کے باوجود اب قصہ تمام ہوا۔ الیکشن ڈے پر عوام نے فیصلہ سنا دیا کہ پاکستان کی لوٹ مار انھیں قبول نہیں۔ شکست کھانے والے سبھی پورے انتخابی عمل کو جعل سازی ثابت کرنے کی کوشش کریں گے لیکن آنے والی تبدیلی سے انکار ممکن نہیں رہا۔ پاکستان بجا طور پر ایک فیصلہ کُن دور میں داخل ہوچکا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
غیر سرکاری نتائج پر سرسری نظر ڈالیں تو قومی اسمبلی کی 115نشستوں پر واضح برتری کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف وفاق اور کے پی کے میں بآسانی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ پنچاب میں آزاد امیدواروں سے اتحاد کے باوجود حکومت بنانا آسان نہیں ہوگا۔ موجودہ حالات میں مسلم لیگ ن پنجاب میں ایک کمزور اتحادی حکومت بنا سکتی ہے۔ کیا ن لیگ یہ خطرہ مول لے گی؟
پچاس برس قبل 7دسمبر 1970کو حق بالغ رائے دہی کی بنیاد پر یحیی خان کے مارشل لا میں مغربی و مشرقی پاکستان میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے۔ تین دھڑوں میں تقسیم ، روایتی مسلم لیگ نے قوم پرستی کے پلیٹ فورم سے انتخابی مہم چلائی اور 1940کی دہائی میں قائد اعظم محمد علی جناح کی وضع کردہ اصلاحات کے آغاز کا وعدہ کیا۔
سیاسی ماہرین اور خفیہ ایجنسیوں کے آزمائے ہوئے ان لوگوں کی فتح یقینی سمجھی جاتی تھی لیکن انھیں افسوس ناک شکست ہوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کررہے تھے، جن کی مقبولیت،سوشلسٹ نظریات اور ''روٹی ، کپڑا اور مکان'' کے پُر کشش نعرے نے اس جماعت کو عروج دیا۔ بھٹو کے پُرجوش خطاب اور جذباتی انداز نے لاکھوں کو متاثر کیا۔ مولانا مودودی اسلامی پلیٹ فورم سے نفاذ شریعت کے نعرے کے ساتھ دائیں بازو کی اسلامی پارٹیوں کی قیادت کے ساتھ میدان میں تھے۔
بھٹو نے اپنی کرشماتی شخصیت اور قائدانہ صلاحیتوں کے بل پر مغربی پاکستان کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ ان کے اشتراکی افکار اور نعروں نے طلبا، غریب اور مزدور طبقے میں مقبولیت حاصل کی۔ بھٹو چاروں صوبوں میں فیصلہ کن اکثریت اور مغربی پاکستان کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر سادہ اکثریت حاصل کرنے میں حیرت انگیز طور پر کام یاب رہے۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں مغربی پاکستان کی 138میں سے 81نشستیں حاصل کیں اور آزاد امیدواروں کی شمولیت سے یہ تعداد 88تک پہنچ گئی۔ پی پی پنجاب اورسندھ میں بھی فاتح ٹھہری۔ جمیعت علمائے اسلام بلوچستان اور نیشنل عوامی پارٹی سرحد میں کامیاب رہیں۔ بھٹو خود اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اور کئی سوشلسٹوں کے ساتھ ان کی پارٹی کے طاقت ور جاگیردار بھی کامیاب ہوئے۔
اس وقت تأثر یہ تھا کہ پنجاب کی سیاست میں جاگیرداری مؤثر نہیں رہی اور یہاں ووٹر ذات برادری کے قابو میں ہے، یہ تصور بھی غلط ثابت ہوا۔ پاکستانی ووٹر کے پیروں میں آج بھی جاگیرداروں کی بیڑیاں ہیں اور روایتی طور پر یہ ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ 1970کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور انھیں آج تک پاکستانی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن مشرقی و مغربی بازؤں پر انتخابی نتائج کے اثرات سے متعلق اندازے مختلف وجوہ سے غلط ثابت ہوئے۔
اپوزیشن کے دعوؤں کے برعکس،2008اور 2013کے مقابلے میں آزادانہ ، شفاف، غیر جانب دارانہ انتخابات منعقد کروانے پر الیکشن کمیشن کو سراہا جانا چاہیے۔ تاہم بہت سے سوالات ہیں۔کیا نتائج میں تاخیر کسی تکنیکی انجینئرنگ کا نتیجہ تھی؟ اس سوال کا جواب بہت ضروری ہے کیوں کہ سبھی بڑی پارٹیاں انتخابی شکست پر ''دھاندلی'' کا واویلا مچا رہی ہیں۔ ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ تمام ہی حلقوں میں فارم 45کی مصدقہ نقول فراہم نہیں کی گئیں جس میں ووٹوں کی تعداد بتائی جاتی ہے۔
قبل از انتخابات سرویز کے برعکس مصطفیٰ کمال کی پی ایس پی کا صفایا حیرت انگیز ہے۔ جب آر ٹی ایس ناکام ہوگیا، ممکنہ طور پر ''دباؤ'' کی وجہ سے، تو اسے بحال کرنے کے لیے وقت درکار تھا۔ اسی سے اپوزیشن کی جماعتوں کو انگشت نمائی کا بہانہ مل گیا جو پہلے ہی پری پول دھاندلی کا واویلا کررہی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے فوج کو پولنگ اسٹیشن میں تعینات کرنے کی درخواست کی تھی۔ مختلف تنازعات کے خاتمے اور شفافیت کے لیے فوری طور پر ایک جے آئی ٹی تشکیل دینی چاہیے۔
حالیہ انتخابات میں عمران خان کی بھٹو جیسی بے پناہ مقبولیت نے مخالف جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی کو ششدر کردیا ہے۔ ووٹر کا موڈ یکسر تبدیل ہوگیا، 1970 میں بھی یہی ہوا تو جب ایجینسیاں بھی مغربی پاکستان میں پی پی پی کی غیر معمولی کامیابی کو خام خیالی قرار دیتی تھیں۔ مسلم لیگ کے دھڑوں جیسی سیاسی قوتیں عوام کے ہاتھوں شکست پر بوکھلا گئی تھیں۔ آج عوام اس دور کے مقابلے میں زیادہ باشعور ہیں، اپنے حقوق اور شہری آزادیوں اور اقتدار میں رہنے والوں کی ناانصافیوں اور کرپشن سے زیادہ واقف ہیں، اور انھیں اپنے مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کی کرپشن سمیت دیگر محرکات کے نتیجے میں کبھی سیاسی مقبولیت کے عروج پر رہنے والی یہ پارٹی زوال پذیر ہوئی۔
ابتدائی غیر سرکاری نتائج میں واضح طور پر اپنی شکست دیکھنے والوں نے باقاعدہ مہم کی صورت میں مداخلت کے الزامات لگانا شروع کردیے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں ہی دھاندلی اور عدم شفافیت کا واویلا کر رہی ہیں۔
1970ء کی طرح فوج نے آج خود کو کسی براہ راست مداخلت سے دور رکھا اور جمہوریت کو راستہ دیا ہے۔ نواز شریف اور ان کی جماعت کے لوگوں کی جانب سے اعتراضات اور تنقید کے باوجود فوج نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور یہی رویہ مستقبل میں بھی اپنانا چاہیے۔ الیکٹرانک میڈیا کا ایک خاص ٹولہ کسی کے اشارے پر زہر افشانی کا حصہ رہا۔ اگلے پانچ برس کے لیے اپنے حکمران کا انتخاب کرنے والوں کی رائے کو متاثر کرنے کے لیے زرخرید کارندوں کے ذریعے الیکٹرانک میڈیا پر جھوٹ اور الزام تراشی کا بازار گرم رکھا گیا۔ فوج مخالف بیانیے کو پھیلا کر پاکستان کو کمزور بنانے کی اس کوشش میں مخصوص بین الاقوامی ادارے بھی شامل رہے۔
سیاسی پنڈتوں کی سر توڑ کوششوں اور پانی کی طرح پیسہ بہانے کے باوجود اب قصہ تمام ہوا۔ الیکشن ڈے پر عوام نے فیصلہ سنا دیا کہ پاکستان کی لوٹ مار انھیں قبول نہیں۔ شکست کھانے والے سبھی پورے انتخابی عمل کو جعل سازی ثابت کرنے کی کوشش کریں گے لیکن آنے والی تبدیلی سے انکار ممکن نہیں رہا۔ پاکستان بجا طور پر ایک فیصلہ کُن دور میں داخل ہوچکا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)