میں عوام کا دشمن رہوں گا
تاریخ یہ یاد دلا کر ہماری ڈھارس بناتی ہے کہ گناہ اور جرم ہردور میں پھلتا پھولتا رہا ہے۔
KARACHI:
ہمارے سیاست دانوں، بیوروکریٹس، ملاؤں، تاجروں، سرمایہ داروں، بلڈرز، جاگیرداروں کی اکثریت موقع ملنے کے باوجود ہیرو نہ بن سکی۔انھوں نے ہمیشہ اپنے لیے ولن کا کردار ہی پسند فرمایا اور اسے اس قدر محنت، لگن،جانفشانی، دیانتداری سے نبھایا کہ پوری دنیا عش عش کر اٹھی وہ دنیا بھر کی ہر کرپشن، لوٹ مار، بد دیانتی، جرم کے پیچھے کھڑے مسکرا رہے ہوتے ہیں۔
ہر انکشاف میں ان کا نام ہونا لازم و ملزوم ہوگیا ہے۔ دوسری طرف اپنے لوگوں کی خوشحالی، ترقی، کامیابی سے انھیں ازلی خار اور دشمنی ہے ان کی بربادی، ذلت وخواری، تباہی میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر بلکہ سیڑھی پر چڑھ کر اپنا اپنا حصہ ڈالنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگاتے، اپنے عالیشان ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کرکھاتے اور پیتے عام لوگوںکو جتنا برا بھلا،گالیاں اور کوسنے دے سکتے ہیں دے کر ثواب دارین حاصل کرتے رہتے ہیں اور جب ان لوگوں کا سامنا ہو جاتا ہے تو ان کے غم میں مگرمچھ سے بڑے بڑے آنسو بہاکراپنی قمیض کو گیلی کر لیتے ہیں۔
وہ وہ باتیں کرتے ہیں جنہیں سن کر ان کے ساتھی بے ہوش تک ہوجاتے ہیں۔ آج ان کے اثاثے اور دولت پاکستان کے اثاثوں اور دولت سے آگے بڑھ چکے ہیں یہ ذہن میں رہے، ان کی دولت اور اثاثے اس کرپشن اور لوٹ مارکا نتیجہ ہیں جو وہ پچھلے ستر سالوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ ان کا موزانہ قبل از مسیح کی ایتھنزکی جمہوریت سے کیا جا سکتا ہے۔
ایتھنز اس وقت معاشی طور پر دوبارہ خوشحال ہو گیا تھا لیکن یہ خوشحالی زرعی آمدنی کے بجائے تجارتی دولت کے باعث تھی اور اب صنعتکاروں، سودا گروں اور بینکاروں کی حکمرانی تھی اس تبدیلی سے دولت کے حصول کی مجنونانہ جدوجہد کا آغاز ہوا، نودولتیوں نے پر تعیش محلات تعمیر کر لیے اپنی خواتین کو مہنگے ملبو سات اور زیورات سے لاد دیا اور ان کی خدمتگاری کے لیے درجنوں ملازمین رکھ کر ان کا دماغ خراب کر دیا۔ وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مہمانوں کی خاطر مدارات اور ضیافتیں کرتے۔ غریب اور امیر کے درمیان فرق وسیع تر ہوتا گیا۔
ایتھنز دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا جیسا کہ افلاطون نے لکھا ہے ''دو شہر۔ ایک غربا کا شہر اور دوسرا امراء کا اور دونوںایک دوسرے سے بر سر پیکار''۔ ارسطو کا کہنا ہے کہ طبقہ امراء کے افرادکی ایک تنظیم کے اراکین یہ حلف اٹھایا کرتے تھے ''میں عوام کا دشمن رہوں گا اور کونسل میں ان کی مخالفت میں جو کچھ بھی کر سکا کروں گا '' آئسوکریٹس نے 366 قبل از مسیح میں یہ لکھا ہے ''امرا کا رویہ اس قدر غیر انسانی ہو گیا ہے کہ وہ اپنی اشیائے ضرورت مندوں کو بطور قرض امداد دینے کے بجائے انھیں سمندر میں پھینک دینے کو ترجیح دیتے ہیں اورغربا کا یہ حال ہے کہ انھیں کوئی خزانہ مل جانے کی اس قدر خوشی نہیں ہوگی جتنی کہ کسی امیرکے مال اسباب پر قبضہ کرنے سے ہو گی۔''
کیا کریں انسانی تاریخ میں انسانوں کی اکثریت نے ہیروکے بجائے ولن بننا پسند کیا اور انسانوں کے بجائے ہیرے جواہرات ، محلات ، روپو ں پیسوں کی محبت میں گرفتار رہے اور آج ان کا نام ونشان تک مٹ گیا ہے لیکن جنہوں نے اپنے لیے ہیروکا کردار پسندکیا وہ آج بھی زندہ ہیں آپ بھی ہیرو بن سکتے ہیں ۔ یہ مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مدرٹریسا ہیرو بننے کے لیے پیدا ہوئی تھیں، ان کا تعلق البانیہ سے تھا، انھوں نے تمام عمر بھارتی شہرکولکتہ میں کوڑھی لوگوں کی خدمت میں گزاری، جوانی میں وہ ایک مشن کے تحت کولکتہ آئی تھیں اور وہاں راہبہ کے طور پر اپنی زندگی کاآغازکیا۔
ایک شام ایک غریب سے علاقے سے گزر تے ہوئے انھوں نے ایک عورت کی چیخ و پکار سنی وہ اس کی مد د کے لیے دوڑیں وہ رات مدر ٹریسا نے اس عورت کی دیکھ بھال میں گزاری وہ اسے لے کر کئی اسپتالوں میں گئیں مگر کسی نے بھی اسے داخل نہیں کیا یہ عورت ان کے بازؤوں میں مر گئی۔ اس لمحے نے مدر ٹریسا کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ انھوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ عمر بھر انسانیت کی خدمت کریں گی اور جو بھی ان کی پہنچ میں ہو گا وہ محبت اور احترام کے بغیر نہیں مرے گا۔
سوچیں کہ کیا ایسا لمحہ آپ کی زندگی میں کبھی آیا؟ آپ ہیرو کی کیا تعریف کرتے ہیں؟ ہیرو وہ شخص ہے جو کڑے اور مشکل وقت میں ہمت نہ ہارے اور اپنا کردار ادا کرے وہ لوگوں کے کام آئے اور انھیں مصیبتوں سے بچائے جب باقی بھا گ اٹھیں، ہیرو ایسا شخص یا عورت ہوتی ہے جو بے لو ث اور بے خوف ہوکر کام کرے۔ وہ مانگتا نہیں بلکہ دیتا ہے۔
تاریخ یہ یاد دلا کر ہماری ڈھارس بناتی ہے کہ گناہ اور جرم ہردور میں پھلتا پھولتا رہا ہے۔ یاد رکھیں، فنا ہونا سب کا مقدر ہے جیسے فریڈرک نے کولن کے مقام پر اپنے بھاگتے ہوئے سپاہیوں سے پوچھا تھا ''کیا تم ہمیشہ زندہ رہوگے'' ہمیں بھی جلد یا بدیر فنا ہونا ہے، چونکہ ابھی ہمارے پاس وقت ہے۔ اس لیے آئیں ہم سب ہیرو بن جائیں۔ آپ کے فیصلے کا صرف آ پ کو ہی نہیں بلکہ کروڑوں بے کس اور بے بسی انسانوں کو انتظار ہے۔ یہ فیصلہ اب آپ نے کرنا ہے کہ آپ تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں یا بے نام مرنا پسند کریں گے۔
ہمارے سیاست دانوں، بیوروکریٹس، ملاؤں، تاجروں، سرمایہ داروں، بلڈرز، جاگیرداروں کی اکثریت موقع ملنے کے باوجود ہیرو نہ بن سکی۔انھوں نے ہمیشہ اپنے لیے ولن کا کردار ہی پسند فرمایا اور اسے اس قدر محنت، لگن،جانفشانی، دیانتداری سے نبھایا کہ پوری دنیا عش عش کر اٹھی وہ دنیا بھر کی ہر کرپشن، لوٹ مار، بد دیانتی، جرم کے پیچھے کھڑے مسکرا رہے ہوتے ہیں۔
ہر انکشاف میں ان کا نام ہونا لازم و ملزوم ہوگیا ہے۔ دوسری طرف اپنے لوگوں کی خوشحالی، ترقی، کامیابی سے انھیں ازلی خار اور دشمنی ہے ان کی بربادی، ذلت وخواری، تباہی میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر بلکہ سیڑھی پر چڑھ کر اپنا اپنا حصہ ڈالنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگاتے، اپنے عالیشان ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کرکھاتے اور پیتے عام لوگوںکو جتنا برا بھلا،گالیاں اور کوسنے دے سکتے ہیں دے کر ثواب دارین حاصل کرتے رہتے ہیں اور جب ان لوگوں کا سامنا ہو جاتا ہے تو ان کے غم میں مگرمچھ سے بڑے بڑے آنسو بہاکراپنی قمیض کو گیلی کر لیتے ہیں۔
وہ وہ باتیں کرتے ہیں جنہیں سن کر ان کے ساتھی بے ہوش تک ہوجاتے ہیں۔ آج ان کے اثاثے اور دولت پاکستان کے اثاثوں اور دولت سے آگے بڑھ چکے ہیں یہ ذہن میں رہے، ان کی دولت اور اثاثے اس کرپشن اور لوٹ مارکا نتیجہ ہیں جو وہ پچھلے ستر سالوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ ان کا موزانہ قبل از مسیح کی ایتھنزکی جمہوریت سے کیا جا سکتا ہے۔
ایتھنز اس وقت معاشی طور پر دوبارہ خوشحال ہو گیا تھا لیکن یہ خوشحالی زرعی آمدنی کے بجائے تجارتی دولت کے باعث تھی اور اب صنعتکاروں، سودا گروں اور بینکاروں کی حکمرانی تھی اس تبدیلی سے دولت کے حصول کی مجنونانہ جدوجہد کا آغاز ہوا، نودولتیوں نے پر تعیش محلات تعمیر کر لیے اپنی خواتین کو مہنگے ملبو سات اور زیورات سے لاد دیا اور ان کی خدمتگاری کے لیے درجنوں ملازمین رکھ کر ان کا دماغ خراب کر دیا۔ وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مہمانوں کی خاطر مدارات اور ضیافتیں کرتے۔ غریب اور امیر کے درمیان فرق وسیع تر ہوتا گیا۔
ایتھنز دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا جیسا کہ افلاطون نے لکھا ہے ''دو شہر۔ ایک غربا کا شہر اور دوسرا امراء کا اور دونوںایک دوسرے سے بر سر پیکار''۔ ارسطو کا کہنا ہے کہ طبقہ امراء کے افرادکی ایک تنظیم کے اراکین یہ حلف اٹھایا کرتے تھے ''میں عوام کا دشمن رہوں گا اور کونسل میں ان کی مخالفت میں جو کچھ بھی کر سکا کروں گا '' آئسوکریٹس نے 366 قبل از مسیح میں یہ لکھا ہے ''امرا کا رویہ اس قدر غیر انسانی ہو گیا ہے کہ وہ اپنی اشیائے ضرورت مندوں کو بطور قرض امداد دینے کے بجائے انھیں سمندر میں پھینک دینے کو ترجیح دیتے ہیں اورغربا کا یہ حال ہے کہ انھیں کوئی خزانہ مل جانے کی اس قدر خوشی نہیں ہوگی جتنی کہ کسی امیرکے مال اسباب پر قبضہ کرنے سے ہو گی۔''
کیا کریں انسانی تاریخ میں انسانوں کی اکثریت نے ہیروکے بجائے ولن بننا پسند کیا اور انسانوں کے بجائے ہیرے جواہرات ، محلات ، روپو ں پیسوں کی محبت میں گرفتار رہے اور آج ان کا نام ونشان تک مٹ گیا ہے لیکن جنہوں نے اپنے لیے ہیروکا کردار پسندکیا وہ آج بھی زندہ ہیں آپ بھی ہیرو بن سکتے ہیں ۔ یہ مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مدرٹریسا ہیرو بننے کے لیے پیدا ہوئی تھیں، ان کا تعلق البانیہ سے تھا، انھوں نے تمام عمر بھارتی شہرکولکتہ میں کوڑھی لوگوں کی خدمت میں گزاری، جوانی میں وہ ایک مشن کے تحت کولکتہ آئی تھیں اور وہاں راہبہ کے طور پر اپنی زندگی کاآغازکیا۔
ایک شام ایک غریب سے علاقے سے گزر تے ہوئے انھوں نے ایک عورت کی چیخ و پکار سنی وہ اس کی مد د کے لیے دوڑیں وہ رات مدر ٹریسا نے اس عورت کی دیکھ بھال میں گزاری وہ اسے لے کر کئی اسپتالوں میں گئیں مگر کسی نے بھی اسے داخل نہیں کیا یہ عورت ان کے بازؤوں میں مر گئی۔ اس لمحے نے مدر ٹریسا کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ انھوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ عمر بھر انسانیت کی خدمت کریں گی اور جو بھی ان کی پہنچ میں ہو گا وہ محبت اور احترام کے بغیر نہیں مرے گا۔
سوچیں کہ کیا ایسا لمحہ آپ کی زندگی میں کبھی آیا؟ آپ ہیرو کی کیا تعریف کرتے ہیں؟ ہیرو وہ شخص ہے جو کڑے اور مشکل وقت میں ہمت نہ ہارے اور اپنا کردار ادا کرے وہ لوگوں کے کام آئے اور انھیں مصیبتوں سے بچائے جب باقی بھا گ اٹھیں، ہیرو ایسا شخص یا عورت ہوتی ہے جو بے لو ث اور بے خوف ہوکر کام کرے۔ وہ مانگتا نہیں بلکہ دیتا ہے۔
تاریخ یہ یاد دلا کر ہماری ڈھارس بناتی ہے کہ گناہ اور جرم ہردور میں پھلتا پھولتا رہا ہے۔ یاد رکھیں، فنا ہونا سب کا مقدر ہے جیسے فریڈرک نے کولن کے مقام پر اپنے بھاگتے ہوئے سپاہیوں سے پوچھا تھا ''کیا تم ہمیشہ زندہ رہوگے'' ہمیں بھی جلد یا بدیر فنا ہونا ہے، چونکہ ابھی ہمارے پاس وقت ہے۔ اس لیے آئیں ہم سب ہیرو بن جائیں۔ آپ کے فیصلے کا صرف آ پ کو ہی نہیں بلکہ کروڑوں بے کس اور بے بسی انسانوں کو انتظار ہے۔ یہ فیصلہ اب آپ نے کرنا ہے کہ آپ تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں یا بے نام مرنا پسند کریں گے۔