انصاف

غلام سیلوٹ بجا لاتا ہے جہاں پناہ۔

دروازہ کھلتا ہے۔ چوبدار تین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔

چوبدار: باادب، باملاحظہ، ہشیار، نظریں روبرو، شہنشاہ عالم لنچ کے لیے تشریف لارہے ہیں۔

شہنشاہ عالم کے قدموں کی بھاری چاپ سنائی دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ تشریف لاتے ہیں۔

شہنشاہ: ہیڈبٹلر کہاں ہے؟

چوبدار ایک بہت بڑی ڈش پر سے سرپوش اٹھاتا ہے۔ ہیڈبٹلر پھدک کر باہر نکلتا ہے اور عرشی سلام کرتا ہے۔

ہیڈبٹلر: غلام سیلوٹ بجا لاتا ہے جہاں پناہ۔

شہنشاہ: دسترخوان پر آج مابدولت کے لیے کیا کیا چیز حاضر ہے؟

ہیڈبٹلر: گوشت پلاؤ، ماہی پلاؤ، مٹر پلاؤ، نارنگی پلاؤ، متنجن، برانی، زردہ روغن جوش، قورمہ، ٹماٹر گوشت، بھنڈی گوشت، مٹر گوشت، پائے کا شوربہ، قیمہ، بھیجا، چکن کٹلس، چکن چاپس، مٹن چاپس، پوٹیٹو چاپس، اور خدا جہاں پناہ کا بھلا کرے۔ ارہر کی دال۔

شہنشاہ: (غصے میں) ارہر کی دال، مابدولت کو بالکل پسند نہیں۔

ہیڈبٹلر: یور میجسٹی۔ آج لنچ پر تین اشتراکی ولایتوں کے وزیراعظم مدعو ہیں اس لیے۔۔۔۔۔

شہنشاہ: (خوش ہوکر) مابدولت تمہاری فراست کی داد دیتے ہیں اور خوش ہوکر تمہارا منہ موتیوں سے بھر دینے کا حکم جاری کرتے ہیں۔

ہیڈبٹلر: میری سانس رک جائے گی عالم پناہ۔

شہنشاہ: (مسکراکر) تم بہت ذہین ہو۔ اچھا مابدولت تمہیں سر کا خطاب عنایت کرتے ہیں۔

ہیڈبٹلر: جہاں پناہ کی اس قدر افزائی نے ذرے کو آفتاب بنادیا۔

شہنشاہ: اور کس صفائی سے۔ ہینگ لگی نہ پھٹکری۔

ہیڈبٹلر: غلام سیلوٹ بجا لاتا ہے، یور میجسٹی۔

دروزہ کھلتا ہے۔ چوبدار تین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔

چوبدار: باادب، باملاحظہ، ہشیار، نظریں روبرو، باادب، باملاحظہ ہوشیار نظریں روبرو۔ ملکۂ عالیہ کی سواری آتی ہے۔

چھوٹے چھوٹے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ ملکہ عالیہ کی سواری آتی ہے۔

ملکہ: جہاں پناہ کو زیادہ دیر تو میرا انتظار نہیں کرنا پڑا۔ میں اپنی خادماؤں کے سر میں جوئیں ڈالو رہی تھی۔

شہنشاہ: کیوں؟

ملکہ: رعایا کے لیے میں ایک بلڈ بینک کھولنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔

شہنشاہ: امور سلطنت سے تمہاری یہ دلچسپی مابدولت کے لیے باعث مسرت ہوئی۔۔۔۔

ہیڈبٹلر: رعایا کتنی خوش نصیب ہے کہ آپ ایسا مخلص بادشاہ اور آپ ایسی مخلص ملکہ اس پر حکمران ہیں۔

شہنشاہ: پہلے یونہی مشہور تھا کہ فلاں بادشاہ کے راج میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔ لیکن ہمارے راج میں ایسے کئی گھاٹ موجود ہیں۔ جہاں شیر اور بکریاں اکٹھے پانی پیتے ہیں اور اس کو حلقۂ امکان میں لانے کے لیے مابدولت کو تمام شیروں کے دانت نکلوانے اور تمام بکریوں کے سینگ کٹوانے پڑے۔

ہیڈبٹلر: اس میں کیا شک ہے۔

گھنٹی کی آواز بلند ہوتی ہے۔

شہنشاہ: (چونک کر) یہ کس نے ہمیں بلایا۔ یہ کون فریادی ہے جس نے عدل و انصاف کی آہنی زنجیر کو جنبش دی؟

ملکہ: جہاں پناہ کیا اسی وقت تشریف لے جائیں گے۔

شہنشاہ: اسی وقت، اسی گھڑی، جب تک ہم اس فریادی کی فریاد نہیں سن لیں گے۔ ارہر کی دال ہم پر حرام ہے۔ ہم ابھی جھروکے میں جاکر فریادی سے ملاقات کریں گے۔ ضرور کسی انسان پر ظلم ہوا ہے۔

چوبدار تین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔

چوبدار: باادب، ملاحظہ، ہوشیار، نظریں روبرو، باادب، باملاحظہ ہوشیار، نظریں روبرو شہنشاہ عالم فریادی کی فریاد سننے کے لیے تشریف لارہے ہیں۔

شہنشاہ، ملکہ، اور ہیڈبٹلر تینوں باہر جھروکے میں تشریف لے جاتے ہیں۔

شہنشاہ: یہ کون تھا جس نے ہمارے عدل و انصاف کی آہنی زنجیر ہلائی اور ہمارا انصاف چاہا۔

فریادی: یہ غلام انصاف کا طالب ہے جہاں پناہ۔

شہنشاہ: تمہارے ساتھ پورا پورا انصاف ہوگا فریادی۔۔۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کرنا ہمارا کام ہے۔

فریادی: عالم پناہ آج کل کے ایک سیر دودھ میں صرف دو قطرے دودھ کے ہوتے ہیں۔ باقی سب پانی ہوتا ہے۔

شہنشاہ: مطمئن رہو فریادی۔ دودھ کے یہ دو قطرے ہی علیحدہ کرکے دکھا دیئے جائیں گے۔ بولو، بے خوف و خطر ہوکر بولو کہ تمہیں کس نے دکھ پہنچایا ہے۔ کیا ملکہ عالم کے پستول سے تمہاری بیوی۔۔۔۔؟

فریادی: نہیں عالی جاہ۔ ملکۂ عالم کے پستول سے میری بیوی ہلاک نہیں ہوئی۔

شہنشاہ: تاریخ نے خود کو نہیں دہرایا۔ یہ بھی ایک بہت بڑی بات ہے۔ بولو، تم کام کیا کرتے ہو؟

فریادی: عالم پناہ کے سائے تلے اس غلام نے ایک بہت بڑی لانڈری کھول رکھی ہے۔

شہنشاہ: کپڑے گھاٹ پر تم خود دھوتے ہو؟

فریادی: نہیں عالم پناہ، یہ ذلیل کام میں نے دوسروں کے سپرد کررکھا ہے۔

شہنشاہ: ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اب بتاؤ تمہیں کیا دکھ پہنچا ہے؟

فریادی: جہاں پناہ مجھے بہت بڑا دکھ پہنچا ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں جو میں بیان کرسکوں۔

شہنشاہ: ہوں (تھوڑی دیر غور و فکر کرنے کے بعد) فریادی تم کوئی فکر نہ کرو۔ ہم الفاظ کا بندوبست کیے دیتے ہیں۔ ہیڈبٹلر؟

ہیڈبٹلر: غلام حاضر ہے جہاں پناہ۔

شہنشاہ: تھوڑا ہی عرصہ ہوا۔ ہم نے سر کے خطاب سے تمہیں سرفراز کیا تھا۔

ہیڈبٹلر: غلام اس قدر افزائی کا شکریہ ادا کرچکا ہے۔

شہنشاہ: اب خود کو اس قدر افزائی کا حق دار ثابت کرو۔ ہم تمہیں وزیر الفاظ کا رتبہ بخشتے ہیں۔ تاکہ تم اس فریادی کی فریاد کو مناسب و موزوں الفاظ میں ترتیب دے کر ہمارے خدمت میں پیش کرو۔

ہیڈبٹلر: غلام اس فرض سے سبکدوش ہونے کی پوری پوری کوشش کرے گا۔

شہنشاہ: تم مطمئن ہو فریادی؟

فریادی: میں بالکل مطمئن ہوں عالم پناہ۔

شہنشاہ: وزیر الفاظ جاؤ، فریادی کی فریاد ایک رپورٹ کی صورت میں پیش کرو۔

ہیڈبٹلر: کام کی اہمیت کے پیش نظر غلام ایک ماہ کی مہلت کے لیے درخواست کرتا ہے۔

شہنشاہ: مابدولت دو ماہ کی مہلت عطا فرماتے ہیں۔

ہیڈ بٹلر: شکریہ!

فریادی: شکریہ!

دروازہ کھلتا ہے۔ چوبدار تین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔


چوبدار: باادب، باملاحظہ، ہوشیار، نظریں روبرو۔ باادب، باملاحظہ، ہوشیار، نظریں روبرو۔۔ شہنشاہ عالم دو مہینے کے بعد لانڈری والے کیس کے متعلق ہیڈبٹلر المعروف وزیر الفاظ کی رپورٹ سننے کے لیے تشریف لارہے ہیں۔

شہنشاہ جھروکے میں تشریف لاتے ہیں۔

شہنشاہ: وزیر الفاظ، لانڈری والے فریادی کی رپورٹ مناسب و موزوں الفاظ میں تیار ہوئی؟

ہیڈبٹلر: دو مہینے کی مسلسل محنت و مشقت اور عرق ریزی کے بعد یہ ہیچمدان ایک کروڑ الفاظ کی رپورٹ تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے جو پبلک کی آگاہی کے لیے سرکاری پریس میں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہے۔

شہنشاہ: فریادی۔ وزیر الفاظ کے اس کام سے کیا تم مطمئن ہو؟

فریادی: قطعی طور پر عالی جاہ۔۔ کام بڑے سلیقے سے ہو رہا ہے۔

شہنشاہ: وزیر الفاظ ہم تھوڑے عرصے کے لیے تمہیں وزیر خلاصہ بناکر اس رپورٹ کا ملخص پوچھنا چاہتے ہیں جو پبلک کی آگاہی کے لیے سرکاری پریس میں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہے۔

ہیڈبٹلر: رپورٹ کا اصلی خلاصہ یہ ہے عالم پناہ۔ فریادی ایک بہت بڑی لانڈری کا مالک ہے۔ اس بہت بڑی لانڈری میں تمام کپڑے صابن سے نہیں کسی اور ہی چیز سے دھوئے جاتے ہیں جس کا نسخہ صرف فریادی ہی کو معلوم ہے۔

فریادی:۔ یہ نسخہ سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے عالم پناہ۔

شہنشاہ:۔ خوب!

ہیڈبٹلر:۔ ڈرائی کلیننگ کے کام میں بھی فریادی پٹرول استعمال نہیں کرتا۔

فریادی: غلام، پٹرول کا سارا کوٹہ بلیک مارکیٹ میں بیچ دیتا ہے۔

شہنشاہ:۔ بہت خوب!

ہیڈبٹلر: فریادی کی لانڈری میں ساڑھے سات سو دھوبی کام کرتے ہیں۔ ان کو سینہ بہ سینہ چلنے والے اصولوں کے پیش نظر وہی تنخواہ ملتی ہے جو مغلیہ بادشاہوں کے عہد میں دھوبیوں کو ملا کرتی تھی۔ فریادی نے چار مہینے ہوئے محسوس کیا کہ اس کی یہ تنخواہ پانے والے ملازم اس کا صابن کھارہے ہیں۔

شہنشاہ: فریادی نے یہ کیسے محسوس کیا؟

فریادی: ان کا رنگ دن بدن اجلا جو ہو رہا تھا جہاں پناہ۔

شہنشاہ: درست۔

ہیڈبٹلر: انہوں نے صابن کھانے ہی پر اکتفا نہ کی۔۔۔ اس غریب کا پٹرول پینا بھی شروع کردیا۔

شہنشاہ: فریادی، پٹرول پینے کے متعلق کیسے معلوم ہوا؟

فریادی: عالم پناہ۔۔۔ ان کی دھواں دھار تقریروں نے غمازی کی۔

شہنشاہ:۔ درست۔

ہیڈبٹلر: اپنے تنخواہ پانے والے ملازمین کی اس بلا خوری اور بلا نوشی سے تنگ آکر فریادی نے ایک روز کپڑے سکھانے کے لیے ان کو اس میدان کی طرف روانہ کردیا جہاں شہزادیاں چاند ماری سیکھتی ہیں۔

شہنشاہ: (فکر مند ہوکر) والا شان شہزادیوں نے ان بے گناہوں کو ہلاک کردیا؟

ہیڈبٹلر: ایسا ہی ہوا جہاں پناہ۔۔۔ شہزادیوں کو یہ غلط فہمی رہی کہ وہ ساڑھے سات سو دھوبی جنگلی انسانوں کی وہ کھیپ ہے جو والا شان شہزادیوں کا نشانہ درست کرنے کے لیے عالم پناہ کے احکام کے مطابق ہر ہفتے فراہم کی جاتی ہے۔

شہنشاہ: دھوبیوں اور جنگلی انسانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

ہیڈبٹلر: عالم پناہ کا ارشاد بالکل صحیح ہے۔ ساڑھے سات سو دھوبیوں کے لواحقین چنانچہ فریادی کو ان کی ہلاکت کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔

فریادی: فریادی کا قصور صرف اتنا ہے جہاں پناہ کہ اس نے تنگ آکر ان کو اس میدان کی طرف روانہ کردیا جہاں والا شان شہزادیاں نشانہ درست کرتی ہیں۔۔۔ لیکن ان کی افسوسناک ہلاکت کے بعد جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ غیر ارادی طور پر اس غلام نے جہاں پناہ کو انصاف کرنے کا ایک بہت ہی اچھا موقع بہم پہنچا دیا ہے۔

شہنشاہ: غور کرنے کے بعد مابدولت بھی اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں۔ تاریخ میں اس سے پہلے جہانگیر کو ایسے موقع سے دوچار ہونا پڑا تھا لیکن ہم عہد جدید کے شہنشاہ ہیں۔۔ جہانگیری عدل فی زمانہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ خون کا بدلہ خون ہے۔

ہیڈبٹلر: کیا والا شان شہزادیاں خاکم بدہن۔۔۔

شہنشاہ: وزیر الفاظ۔ ہمیں اپنا فرض ادا کرنے دو۔

چوبدار تین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔

چوبدار: باادب، باملاحظہ، ہشیار، نظریں روبرو۔ باادب، باملاحظہ ہشیار، نظریں روبرو۔۔ ملکۂ عالیہ کی سواری آتی ہے۔

ملکۂ عالیہ کی سواری بال کھولے ہوئے آتی ہے۔

ملکہ: جہاں پناہ۔ یہ میں کیا سن رہی ہوں۔

شہنشاہ: خون کا بدلہ خون۔ ہماری مملکت کے ہر درودیوار سے یہی صدا آرہی ہے۔ خون کا بدلہ خون۔۔۔ کوئی خون بہا نہ ہوگا۔۔۔

ملکہ: جہاں پناہ۔

ہیڈبٹلر: عالم پناہ!!

فریادی: ساڑھے سات سو دھوبیوں کے لواحقین گیتی پناہ، خون کا بدلہ خون نہیں چاہتے... فی دھوبی پانچ سو روپے کافی ہیں۔

شہنشاہ: نہیں، مابدولت اپنے دامن عدل پر جہانگیر کی طرح کوئی دھبہ نہیں لگنے دیں گے... خون کا بدلہ خون ہے۔ خون بہا نہیں۔ خون کا بدلہ صرف خون ہے۔۔ وزیر الفاظ! والا شان شہزادیوں کی تعداد کیا ہے؟

ہیڈبٹلر: پچھلے برس کے اعداد و شمار کے مطابق والا قدر شہزادیوں کی تعداد ایک سو بیس تک پہنچتی تھی جہاں پناہ۔

ملکہ: ان میں میری کوئی دختر شامل نہیں۔ لیکن میں جہاں پناہ سے پھر بھی درخواست کرتی ہوں کہ...

شہنشاہ: ہمیں اپنے فرض سے سبکدوش ہونے دو ملکہ ۔۔ خون کا بدلہ خون ہے۔

فریادی: جہاں پناہ۔ ان ساڑھے سات سو دھوبیوں میں خون کا صرف ایک قطرہ تھا۔

شہنشاہ: تمہیں کیسے معلوم ہے؟

فریادی: سارا خون نچوڑ کر میں نے صرف ایک قطرہ باقی چھوڑ دیا تھا۔ کہ ان میں زندگی کی رمق باقی رہے۔

شہنشاہ: مابدولت کی نگاہ عدل میں خون کے ایک قطرے اور خون کے ایک سمندر میں کوئی فرق نہیں۔ اس سے پیشتر کہ رجعت پسند قوتیں ہمیں گمراہ کرنے پائیں۔ مملکت کے طول و عرض میں ریڈیو اور اخباروں کے ذریعہ سے اعلان کردیا جائے کہ ہم لانڈری والے کیس کا فیصلہ کرنے میں اپنی مثالی غیر جانب داری سے کام لینے کا تہیہ کرچکے ہیں۔۔ خون کا بدلہ خون ہے... اس میں کوئی شک نہیں کہ والا شان شہزادیوں کی رگوں میں ہمارا نیلا خون دوڑ رہا ہے۔ لیکن اسے دھوبیوں کے سرخ خون کا بدلہ دینا ہوگا۔۔۔ ہر چہار اکناف اعلان کردیا جائے کہ مابدولت نے اس سنگین مقدمے کا فیصلہ مرتب کرنے کے لیے ایک کمیشن بٹھا دیا ہے۔

ہیڈبٹلر: کمیشن؟

ملکہ: کمیشن؟؟

فریادی:۔ کمیشن؟؟؟

شہنشاہ: ہاں، کمیشن۔ یہ کمیشن ملک کے دو سب سے بڑے دھوبیوں، دو سب سے بڑے ڈرائی کلینروں، اور چھ سب سے بڑے خطاب یافتہ سرکاری منصفوں پر مشتمل ہوگا۔ ہیڈبٹلر جس کو ہم نے پہلے سر کا خطاب عنایت کیا تھا اور بعد میں وزیر الفاظ بنادیا تھا۔ اس کمیشن کا صدر ہوگا۔

ہیڈبٹلر: غلام سے اتنا بڑا کام سرانجام نہیں دیا جاسکے گا یورمیجسٹی۔

شہنشاہ: مابدولت کو اس کا علم ہے۔۔ تمہاری صدارت میں تحقیقاتی کمیشن جونہی اپنی رپورٹ مرتب کرے گا، عوام کی کامل تسلی و تشفی کے لیے مابدولت اس کمیشن پر ایک اور کمیشن بٹھائیں گے۔ تاکہ عدل و انصاف کی نگاہ سے کوئی گوشہ، کوئی کونہ پوشیدہ نہ رہے۔

ہیڈبٹلر: عالم پناہ عوام کی تشفی پھر بھی نہیں ہوگی۔۔ انکار ان کی سرشت میں داخل ہے۔

شہنشاہ: (فکرمند ہوکر) عوام کی تشفی بہت ضروری ہے۔۔ سب سے مقدم ہے۔۔۔ ہم اس وقت کوئی فیصلہ مرتب کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جب تک اس معاملے میں ہماری تشفی نہ ہو کہ عوام ہماری طرف سے بالکل متشفی ہیں۔۔۔

ہوالشافی کہہ کر چنانچہ ہم سب سے پہلے، سب سے ضروری کمیشن بٹھاتے ہیں۔

اس کا نام شافی کمیشن ہوگا۔

ہیڈبٹلر: عالم پناہ زندہ باد!

ملکہ: عدل و انصاف پائندہ باد!!

فریادی: شافی کمیشن جوئندہ باد!!
Load Next Story