قوم سیاسی روڈ میپ کی منتظر ہے

اب وقت انتخابی عمل، پولنگ ، نتائج میں تاخیراور آرٹی ایس سسٹم کے بیٹھ جانے کی بحث میں الجھنے کا نہیں۔

اب وقت انتخابی عمل، پولنگ ، نتائج میں تاخیراور آرٹی ایس سسٹم کے بیٹھ جانے کی بحث میں الجھنے کا نہیں۔ فوٹو: فائل

ملک بھر میں انتخابی عمل اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے، پنجاب میں حکومت سازی کا معاملہ دلچسپ صورتحال اختیار کرگیا ہے اور ن لیگ، تحریک انصاف دونوں ہی حکومت بنانے کے دعویٰ کر رہی ہیں، نمبر گیم میں برتری کے لیے آزاد امیدوار وں سے رابطے کر لیے گئے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے، آزاد ارکان، مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی سے بات کرکے انشاء اللہ ہم حکومت بنائیں گے، تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے کہا ہے کہ آزاد اراکین سے رابطے جاری ہیں اور پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی ہی حکومت ہوگی، مسلم لیگ(ن)کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے گا۔

مگر صورتحال اب بھی ارتعاش انگیز ہے۔ایک جانب فرسودہ سیاسی ماضی کے جمود کو جدید دور کی جمہوری تبدیلی سے روشناس کرنے کے مقابل ممکنہ اپوزیشن جماعتوں کے مزاحمانہ سیاست کا خدشہ درپیش ہے، تو دوسری طرف جمعہ کو مجلس عمل کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے شرکا نے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کو یکسر مسترد کردیا ہے، تاہم اے پی سی میں حلف اٹھانے پر فیصلہ نہ ہوسکا،دوبارہ الیکشن کے لیے اے پی سی میں اتفاق رائے سے تحریک چلانے پر اتفاق کیا گیا۔

پیپلز پارٹی نے اے پی سی میں شرکت نہیں کی کیونکہ اسی دن بلاول ہاؤس کراچی میں پیپلز پارٹی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ،ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی، تاہم انھوں نے کہا کہ وہ جمہوریت پسند لوگ ہیں، انھوں نے جمہوری قوتوں سے اپیل کی وہ جمہوریت کے فورم کو نہ چھوڑیں، پارلیمنٹ ضرور جائیں، پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا اعلان کیا۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو یرغمال نہیں بننے دیں گے اور پی پی سے تحریک کے سلسلہ میں رابطہ ہوگا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ تحریک کی حمایت کرتے ہیں لیکن حلف نہ اٹھانے کے ضمن میں وہ اپنی پارٹی قیادت سے مشاورت کرنے کے بعد جلد فیصلہ کریں گے۔ ادھر وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کے لیے سیاسی جوڑ توڑ تیزی سے جاری ہے، انتخابی نتائج اور نشستوں کے حوالہ سے کمی بیشی دور کرنے کے لیے آزاد ارکان کی بطور کنگ میکر قدروقیمت بڑھ گئی ہے۔


تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں آزاد ارکان سے رابطوں میں اپنے رفقا کو ذمے داری تفویض کرچکے ہیں جن میں ہم خیال اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں معاونت کرنے والوں کومقناطیسی کشش کے ذریعہ اپنے ساتھ ملانے کی بازی بھی جیت لینے کی دوڑ لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ، مبصرین کے مطابق مرکز میں حکومت بنانے کے لیے برتری حاصل کرنے والی جماعت تحریک انصاف اور دیگر مخالف جماعتوں کے لیے گیم آف نمبرز انتہائی دلچسپ ہو گئی ہے جب کہ ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں نے پنجاب میں حکومت بنانے کا ایک ساتھ اعلان کردیا ہے۔

خیبر پختونخوا میں تحریک انصٖاف کلیئر ہے، وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کی دعویدار ہے، بلوچستان میں بی این پی، ایم ایم اے، بلوچستان نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف متحرک ہوگئی ہیں، بعض مبصرین نے بی این پی اور ایم ایم اے کی مشترکہ حکومت کا امکان ظاہر کیا ہے۔

دریں اثنا بی این پی کے سربراہ قدوس بزنجو کو عمران خان نے اسلام آباد طلب کرلیا ہے، سندھ میں حکومت سازی کے لیے درکار 68 نشستوں کے مقابلہ میں پیپلز پارٹی74 نشستوں کے ساتھ بلاشرکت غیرے حکومت کرنے کی پوزیشن میں ہے ، البتہ پنجاب میں حکومت سازی کا معاملہ اعصاب شکن ہے چونکہ ن لیگ، تحریک انصاف دونوں ہی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہیں، نمبر گیم میں برتری کے لیے آزاد ارکان سے رابطے ہورہے ہیں، فارورڈ بلاک بننے کے بھی خدشات ہیں۔

بلاشبہ جمہوریت رواداری، خیر سگالی اور وسیع المشرب رویے کے اظہار سے عبارت ہے، ملک کے 70 سالہ سیاسی تجربات اور تلخیوں سے بھرے انتخابی نتائج کی درد ناک تاریخ سے تھوڑا سا سبق ضرور سیکھ لینا چاہیے۔ یہی بات تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے کی جاسکتی ہے جو کل ملک کے وزیراعظم ہونے جارہے ہیں، ان کا تبدیلی ، کرپشن کے خاتمہ اورمدینہ کی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ پیراڈائم شفٹ کا عندیہ دے رہا ہے، ضرورت کثیر جہتی مصالحت، غربت و پسماندگی اور ناخواندگی کے خلاف قوم کو نیا روڈ میپ دینے کی ہے، حقیقت میں سیاست دانوں کا اصل امتحان الیکشن کے بعد شروع ہونے جا رہا ہے،اس مشن میں کامیابی لازمی ہے۔

اب وقت انتخابی عمل، پولنگ ، نتائج میں تاخیراور آرٹی ایس سسٹم کے بیٹھ جانے کی بحث میں الجھنے کا نہیں، شفافیت کے تصور پر ضرب کسی دھچکے سے کم نہیں، مگر ان تکنیکی معاملات کے ازالے اور پر امن تصفیہ کا فورم الیکشن کمیشن اور عدلیہ ہیں،آئین و قانون کے مطابق متاثرہ فریق احتجاج کا جمہوری حق رکھتے ہیں، فیئر طریقے سے اپنے مطالبات پراسٹینڈ لے سکتے ہیں۔تاہم انتخابات ملکی سیاست کی قلب ماہیت سے مشروط ہیں۔اس نکتے کو فراموش مت کریں۔

 
Load Next Story