مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
اساتذہ کی اس قدر تذلیل کا کوئی تدارک ہو تو بتائیں۔ اب کون کس پر قانونی چارہ جوئی کرے گا؟
میرا تعلق حیدر آباد سے ہے اور میں نے پریزائیڈنگ افسر کی ڈیوٹی انجام دی تھی۔ الیکشن 2018ء کے حوالے سے کچھ باتیں چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کے علم میں لانا چاہتی ہوں۔ اس الیکشن میں جتنا سرکاری ملازمین نے جبر اور اذیت برداشت کی ہے اس کی فہرست بہت لمبی ہے۔ میں صرف چند مسائل کا تذکرہ ضروری سمجھتی ہوں جن کا تقریباً سب نے سامنا کیا۔
1۔سب سے پہلے تو میں سرکاری ملازمین کی جبری الیکشن کی ڈیوٹیز کی مذمت کرتی ہوں اس بار کسی کی کوئی مجبوری اور مسائل درخور اعتنا نہیں سمجھے گئے اور بہت ہی آمرانہ اور ظالمانہ طریقے سے اساتذہ اور دیگر افسران کے شوکاز نوٹس بھی نکالے گئے اور گرفتاری کے وارنٹ بھی نکالے گئے۔ 2۔ سنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 3 ٹریننگ کی پیمنٹ کی جائے گی لیکن کسی بھی اسٹاف ممبر کو الیکشن کی ڈیوٹیز کے حوالے سے جو ٹریننگ دی گئیں ان کی ادائیگی تاحال نہیں کی گئی۔
3۔ ٹریننگ کے مرحلے کے بعد تمام افسران کو پابند کیا گیا کہ اپنی ڈیوٹیز کی کنفرمیشن سیشن کورٹ سے کریں۔ ٹریننگ کے دوران بعد میں سول کورٹ حیدرآباد پہنچے تو کہا گیا کہ فلاں فلور پر جاؤ۔ عجب افراتفری کا عالم نظر آرہا تھا۔ صحیح معلومات نہیں مل رہی تھیں آخر کار RO صاحب کا پتہ چلا کہ وہ سیشن کورٹ میں ملیں گے۔ وہاں سے فراغت کے بعد کچھ دن کے وقفے سے بلالیا گیا کہ اپنی ڈیوٹی کے لیٹر لے کر فلاں آفس پہنچیں۔ اس آفس میں سب کو پارکنگ ایریا میں ناکافی سہولیات کے ساتھ تپتی گرمی میں سیکڑوں اساتذہ کو سارا دن بٹھایا گیا۔ پریزائیڈنگ اور سارے محلے کو بلایا گیا تھا تو رش بہت زیادہ تھا۔
4۔پھر کچھ دنوں کے وقفے کے بعد حکم صادر ہوا کہ سب پریزائیڈنگ افسران حاضر ہوں تاکہ نادرا کا عملہ ان کے موبائل میں RTS سسٹم فعال کرے 500 کے قریب لوگ جمع ہوئے اور ایک اکلوتے لیپ ٹاپ کے سہارے کام کرنے لگے حد سے زیادہ بد انتظامی ہوئی۔ شکایات اور چیخوں کے بعد دوسرا لیپ ٹاپ آیا تو پتہ چلا کہ ڈیوائس کام نہیں کر رہی وہ سارا دن سخت قیامت کی گرمی میں گزرا۔ شام تک فارغ ہوئے۔ جب اساتذہ نے شور کیا تو پولیس کو بلایا گیا کہ ان کو کنٹرول کرے اور سپاہی اور وومن پولیس کی اہلکار لیڈیز کو لیکچر دینے لگیں کہ'' آپ استاد ہو، آپ کیسے پڑھاتے ہو، آپ صبر کرو۔'' وغیرہ وغیرہ ۔حد سے زیادہ برا رویہ روا رکھا گیا۔
5۔ قیامت سے پہلے کا ایک دن کہیں یا حشر سے پہلے کا ایک دن، 24 تاریخ پھر سارے محلے کو پریزائیڈنگ کے ساتھ بلایا گیا کہ اپنا سامان وصول کریں۔ وہی تپتی گرمی ، وہی پارکنگ ایریا، وہی استاد۔ ایک بے چارہ نائب قاصد جس کے ذمے 30 کلو سے زیادہ وزنی بورے اٹھانے کا کام کروایا جا رہا تھا۔ الیکشن مٹیریل وصول کرنا گاڑیوں میں رکھوا کر اپنے اپنے پولنگ اسٹیشن کو جانا تھا۔ بدانتظامی ہر جگہ تھی اور جو اذیت لوگ برداشت کر رہے تھے اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھاکہ سخت گرمی میں قطاریں بنائے سامان لینے کے لیے انسان کھڑے تھے یا مشینیں تھیں۔
6۔ پولنگ کے دن 6 بجے پہنچنا تھا۔ سب پہنچے، سرکاری اسکولز کی مخدوش حالت سب کو معلوم ہے ناکافی فرنیچر، سیٹیں خراب، لائٹس خراب، کھڑکیاں ٹوٹی پھوٹی۔7۔ حد سے زیادہ تذلیل اور کرب کا سامنا کورٹ میں رزلٹ جمع کرتے وقت ہوا۔ بس کوئی ڈائریکشن نہیں تھی۔ ہزاروں لوگ تھے بورے اٹھائے اٹھائے گھوم رہے تھے۔ جیسے کہ اپنے اپنے نامہ اعمال اٹھائے ہوئے ہوں۔
صوبائی رزلٹ ایک کورٹ میں جمع کروانے کا حکم اچانک دیا گیا اور قومی نتائج الگ جگہ، اسکرین اور بکسے الگ جگہ۔ ذرا چشم تصور سے دیکھیں کہ کس طرح خواتین نے یہ سامان ڈھویا ہوگا۔ سیشن کورٹ کے دروازے اندر سے بند کردیے گئے اور کہا گیاکہ جو رینجرز اور آرمی کے لوگ ہیں وہ سامان چھوڑ کر باہر جائیں صرف پریزائیڈئنگ افسر اپنے تھیلے خود اٹھا کر RO کے سامنے حاضر ہوں۔ عجیب مرحلہ تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں کس کا حکم ماننا ہے۔ استاد اور غلام میں کوئی فرق معلوم نہیں ہو رہا تھا۔
خواتین کی چیخ و پکار، مرد حضرات کی چیخیں لیکن جو ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھے تھے وہ نامعلوم کس دنیا میں تھے کہ ان پر کچھ اثر نہیں ہوا۔ ہمارے علاقے میں یہ سلسلہ صبح تک چلا 9 بجے کے قریب اس قابل ہوئے کہ مسلسل 48 گھنٹے سے زیادہ کرب ناک ڈیوٹی کے بعد ادھ موئے افسران گھر پہنچے۔ جب خواتین نے احتجاج کیا کہ یہ ظلم ہے ہم سے نتائج کی کاپیاں لی جائیں تو ہم گھر جائیں تو RO صاحب نے اپنی سیکیورٹی کے لیے پولیس کو بلالیا۔اب انصاف کون کرے گا؟
اساتذہ کی اس قدر تذلیل کا کوئی تدارک ہو تو بتائیں۔ اب کون کس پر قانونی چارہ جوئی کرے گا؟ حد سے زیادہ بدانتظامی کا سامنا کرنا پڑا۔ حد سے زیادہ برا سلوک روا رکھا گیا۔ اکثریت اساتذہ کی شکایت کرتی نظر آئی کہ RTS کی ادائیگی نہیں کی گئی جو کہ 1000 روپے تھی۔ نہیں معلوم یہ بجٹ کہاں گیا؟