تبدیلی مبارک مگر۔۔۔
مداخلت کے نتیجے میں پہلے بھی جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے اور اب خطرہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے گیارہویں عام انتخابات کے نتائج بھی دھاندلی کے الزام سے نہ بچ سکے۔ اپوزیشن پارٹیاں تو دھاندلی کا واویلا کر ہی رہی ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جیتنے والی تحریک انصاف بھی دھاندلی کی شکایت کر رہی ہے، بہرحال جو بھی ہوا سو ہوا۔ عمران خان کو جیت اور وزیر اعظم بننا مبارک ہو۔ اب ان کی اصل آزمائش شروع ہوچکی ہے۔ انھیں ملک کے بگڑے ہوئے حالات کو سدھارنا ہے ملک سے کرپشن، غربت اور دہشت گردی کے خاتمے کا اپنا وعدہ پورا کرنا ہے۔
عوام نے انھیں ملک کو انھی تین عفریت کے خاتمے کے لیے جوق در جوق ووٹ دیے ہیں۔ انھیں عوامی امنگوں پر ضرور پورا اترنا ہوگا۔ جہاں تک تبدیلی اور نئے پاکستان کا معاملہ ہے عمران خان کے انھی نعروں نے عوام کی توجہ ان کی جانب مبذول کرائی تھی۔ پاکستانی معاشرے میں اگر وہ مثبت تبدیلی لاتے ہیں اور پاکستان کو ترقی کی معراج پر لے جاتے ہیں تو سمجھوکہ واقعی تبدیلی آگئی اور نیا پاکستان وجود میں آگیا بہرحال یہ کام کوئی معمولی نہیں ہے کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہے۔
انھیں 2013ء کے الیکشن میں مرکزی حکومت تو نہیں مل سکی تھی مگر خیبر پختونخوا پر حکومت کرنے کا موقع ضرور میسر آیا تھا۔ ان کے مطابق انھوں نے صوبے کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہی رہی۔ اس کی تجزیہ کاروں اور دانشوروں نے بھی نشاندہی کی ہے۔ اب پورے پاکستان کی ذمے داری ان کے کاندھوں پرآگئی ہے جسے نبھانے کے لیے انتہائی سنجیدگی اور محنت کی ضرورت ہے۔
اس اہم کام کے لیے انھیں اپنی کابینہ میں مخلص اور فرض شناس افراد کا چناؤ کرنا ہوگا اور ان کی ٹیم میں ایسے لوگ موجود بھی ہیں جو اپنی ذمے داریوں کو انصاف کے ساتھ ادا کرسکنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ تاہم عوام کا ان کو یہ مشورہ ضرور مدنظر رکھنا ہوگا کہ جن الیکٹیبلزکو انھوں نے پارٹی کی طاقت کو بڑھانے کے لیے ٹکٹ دیے تھے وہ ان سے خبردار بھی رہیں اور انھیں کسی اہم عہدے پر فائز نہ کریں ورنہ یہ افراد ان کی ساکھ کو داغدار کرسکتے ہیں اور پارٹی کے لیے کلنک کا ٹیکہ بھی بن سکتے ہیں۔
اب وزیر اعظم بننے کے بعد سب سے اہم مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات کا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات تلخ ہونے کی وجہ سے ہی وہ اپنی پانچ سال کی مدت بڑی مشکل سے پوری کرسکی ہے۔ اس کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ ملک کو اپنی پالیسیوں اور منشورکے مطابق چلانا چاہتی تھی اور وہ اپنی مرضی چلانے کی وجہ سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا شکار ہوگئی اور اس کی سزا کے طور پر نواز شریف کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا بھی موقع نہیں ملا، البتہ ان کی حکومت ضرور قائم رہی مگر اسٹیبلشمنٹ سے ان کی کھینچا تانی کی وجہ سے وہ اپنے منشور کے اہداف کو مکمل طور پر پورا نہیں کرسکی لیکن پھر بھی اس نے عوامی فلاح و بہبود کے کئی منصوبے ضرور مکمل کیے جن کی پذیرائی کے طور پر عوام نے صوبہ پنجاب کی حکومت کو گرنے نہیں دیا۔
کچھ تجزیہ کار مسلم لیگ (ن) کی ان انتخابات میں قومی اسمبلی میں کم سیٹیں لانے کی وجہ بھی اس کے اسٹیبلشمنٹ سے الجھے ہوئے تعلقات کو قرار دیا ہے۔ موجودہ الیکشن کے سلسلے میں اصل مسئلہ یہ رہا ہے کہ یہ منعقد ہونے سے پہلے ہی متنازعہ ہوگئے تھے۔ ایک پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا کہا جا رہا تھا جب کہ ایک دوسری پارٹی کو معتوب کہا جا رہا تھا جو اپنے اوپر کی جانے والی زیادتیوں کی مسلسل شکایت کرتی رہی اور یہ بات کسی حد تک درست بھی تھی کیونکہ اسے دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔ اس کے قائدین کے مقدمات کے متنازعہ فیصلے آئے پھر فیصلوں میں حیران کن تیز رفتاری دکھائی گئی جس نے عوام کے دلوں میں واضح طور پر شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ سب سے افسوسناک بات یہ رہی کہ ان فیصلوں میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر بھی انگلیاں کھڑی کی گئیں۔ صرف ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی میڈیا پر ان فیصلوں پر بحث و تکرار کی گئی۔
کئی عالمی اخبارات نے پہلے سے بھی انتخابات کو مشکوک اور یک طرفہ قرار دے دیا تھا۔ بعض عالمی مبصرین کو پاکستان آنے سے روکنے کے لیے ویزے نہیں دیے گئے انھی میں برطانیہ کی مشہور صحافی کرسٹینا بھی شامل تھیں انھیں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ویزہ نہیں دیا گیا۔ اس نے ویزہ نہ دیے جانے کو ایشو بنا کر اپنے اخبار دی ٹائمز میں پاکستانی انتظامیہ پر الزامات کی بھرمار کی اور تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ پارٹی قرار دیا گوکہ عالمی اخبارات اور چینلز پر پاکستانی انتخابات پر مسلسل تبصروں سے پاکستانی جمہوریت سے دنیا کی دلچسپی ظاہر ہوئی مگر ان انتخابات سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی خبروں نے انتخابات کو داغ دار بنایا اکثر پاکستانی مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ الیکشن میں مخصوص لابی کی جانب سے مداخلت کی گئی ان کا اب مشورہ ہے کہ یہ سلسلہ اب بند ہوجانا چاہیے۔
مداخلت کے نتیجے میں پہلے بھی جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے اور اب خطرہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ پہلے آئی جے آئی کی صورت میں میاں نواز شریف کو پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا گیا اور اب عمران خان کو مسلم لیگ کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ بہرحال اب عمران خان نے واضح برتری حاصل کرلی ہے ان کی تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں قومی اسمبلی کی تقریباً دو گنی نشستیں جیت لی ہیں اور اب عمران خان وزیر اعظم پاکستان بننے کے اپنے دیرینہ خواب کو پورا کرنے کے اہل ہوگئے ہیں تاہم الیکشن کے نتائج میں سست روی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
بعض مقامات پر پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ بوتھ سے باہر کردیا گیا تھا ان کی غیر موجودگی میں ووٹوں کی گنتی کا ہونا اور پھر فارم پینتالیس کا جاری نہ کرنے پر تمام ہی پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں اور الیکشن کمیشن میں اپنی شکایات درج کرائی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) سمیت کئی مخالف پارٹیوں نے انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ تحریک انصاف کی سندھ میں حیران کن کامیابی نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ ایم کیو ایم سندھ میں ہمیشہ اہم پارٹی کے طور پر جیت حاصل کرتی رہی ہے مگر اس دفعہ اسے بھی شدید جھٹکا لگا ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کوئی بھی سیٹ حاصل نہ کرسکی حالانکہ اس نوخیز پارٹی کے بارے میں تجزیہ کار اچھی رائے رکھتے رہے ہیں اور اس کے ایم کیو ایم سے بہتر نتائج کی پیش گوئی کرتے رہے ہیں بہرحال اب اس کے رہنماؤں کو دل برداشتہ ہونے کے بجائے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے آیندہ عام انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے۔
تحریک انصاف نے گو کہ ان انتخابات میں ملک گیر کامیابی حاصل کرلی ہے مگر اسے اب اپنے رویے میں نرمی پیدا کرکے حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا ورنہ خدشہ ہے کہ جس طرح مسلم لیگ (ن) نے اپنی پانچ سالہ مدت پی ٹی آئی کے دھرنوں، الزامات اور احتجاجوں میں بڑی مشکل سے پوری کی ہے اب پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی ویسی ہی مشکلات درپیش نہ آئیں؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے تاہم حزب اختلاف کی پارٹیوں کو ملک کی خاطر صبر سے کام لینا ہوگا۔
عوام نے انھیں ملک کو انھی تین عفریت کے خاتمے کے لیے جوق در جوق ووٹ دیے ہیں۔ انھیں عوامی امنگوں پر ضرور پورا اترنا ہوگا۔ جہاں تک تبدیلی اور نئے پاکستان کا معاملہ ہے عمران خان کے انھی نعروں نے عوام کی توجہ ان کی جانب مبذول کرائی تھی۔ پاکستانی معاشرے میں اگر وہ مثبت تبدیلی لاتے ہیں اور پاکستان کو ترقی کی معراج پر لے جاتے ہیں تو سمجھوکہ واقعی تبدیلی آگئی اور نیا پاکستان وجود میں آگیا بہرحال یہ کام کوئی معمولی نہیں ہے کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہے۔
انھیں 2013ء کے الیکشن میں مرکزی حکومت تو نہیں مل سکی تھی مگر خیبر پختونخوا پر حکومت کرنے کا موقع ضرور میسر آیا تھا۔ ان کے مطابق انھوں نے صوبے کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہی رہی۔ اس کی تجزیہ کاروں اور دانشوروں نے بھی نشاندہی کی ہے۔ اب پورے پاکستان کی ذمے داری ان کے کاندھوں پرآگئی ہے جسے نبھانے کے لیے انتہائی سنجیدگی اور محنت کی ضرورت ہے۔
اس اہم کام کے لیے انھیں اپنی کابینہ میں مخلص اور فرض شناس افراد کا چناؤ کرنا ہوگا اور ان کی ٹیم میں ایسے لوگ موجود بھی ہیں جو اپنی ذمے داریوں کو انصاف کے ساتھ ادا کرسکنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ تاہم عوام کا ان کو یہ مشورہ ضرور مدنظر رکھنا ہوگا کہ جن الیکٹیبلزکو انھوں نے پارٹی کی طاقت کو بڑھانے کے لیے ٹکٹ دیے تھے وہ ان سے خبردار بھی رہیں اور انھیں کسی اہم عہدے پر فائز نہ کریں ورنہ یہ افراد ان کی ساکھ کو داغدار کرسکتے ہیں اور پارٹی کے لیے کلنک کا ٹیکہ بھی بن سکتے ہیں۔
اب وزیر اعظم بننے کے بعد سب سے اہم مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات کا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات تلخ ہونے کی وجہ سے ہی وہ اپنی پانچ سال کی مدت بڑی مشکل سے پوری کرسکی ہے۔ اس کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ ملک کو اپنی پالیسیوں اور منشورکے مطابق چلانا چاہتی تھی اور وہ اپنی مرضی چلانے کی وجہ سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا شکار ہوگئی اور اس کی سزا کے طور پر نواز شریف کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا بھی موقع نہیں ملا، البتہ ان کی حکومت ضرور قائم رہی مگر اسٹیبلشمنٹ سے ان کی کھینچا تانی کی وجہ سے وہ اپنے منشور کے اہداف کو مکمل طور پر پورا نہیں کرسکی لیکن پھر بھی اس نے عوامی فلاح و بہبود کے کئی منصوبے ضرور مکمل کیے جن کی پذیرائی کے طور پر عوام نے صوبہ پنجاب کی حکومت کو گرنے نہیں دیا۔
کچھ تجزیہ کار مسلم لیگ (ن) کی ان انتخابات میں قومی اسمبلی میں کم سیٹیں لانے کی وجہ بھی اس کے اسٹیبلشمنٹ سے الجھے ہوئے تعلقات کو قرار دیا ہے۔ موجودہ الیکشن کے سلسلے میں اصل مسئلہ یہ رہا ہے کہ یہ منعقد ہونے سے پہلے ہی متنازعہ ہوگئے تھے۔ ایک پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا کہا جا رہا تھا جب کہ ایک دوسری پارٹی کو معتوب کہا جا رہا تھا جو اپنے اوپر کی جانے والی زیادتیوں کی مسلسل شکایت کرتی رہی اور یہ بات کسی حد تک درست بھی تھی کیونکہ اسے دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔ اس کے قائدین کے مقدمات کے متنازعہ فیصلے آئے پھر فیصلوں میں حیران کن تیز رفتاری دکھائی گئی جس نے عوام کے دلوں میں واضح طور پر شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ سب سے افسوسناک بات یہ رہی کہ ان فیصلوں میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر بھی انگلیاں کھڑی کی گئیں۔ صرف ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی میڈیا پر ان فیصلوں پر بحث و تکرار کی گئی۔
کئی عالمی اخبارات نے پہلے سے بھی انتخابات کو مشکوک اور یک طرفہ قرار دے دیا تھا۔ بعض عالمی مبصرین کو پاکستان آنے سے روکنے کے لیے ویزے نہیں دیے گئے انھی میں برطانیہ کی مشہور صحافی کرسٹینا بھی شامل تھیں انھیں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ویزہ نہیں دیا گیا۔ اس نے ویزہ نہ دیے جانے کو ایشو بنا کر اپنے اخبار دی ٹائمز میں پاکستانی انتظامیہ پر الزامات کی بھرمار کی اور تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ پارٹی قرار دیا گوکہ عالمی اخبارات اور چینلز پر پاکستانی انتخابات پر مسلسل تبصروں سے پاکستانی جمہوریت سے دنیا کی دلچسپی ظاہر ہوئی مگر ان انتخابات سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی خبروں نے انتخابات کو داغ دار بنایا اکثر پاکستانی مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ الیکشن میں مخصوص لابی کی جانب سے مداخلت کی گئی ان کا اب مشورہ ہے کہ یہ سلسلہ اب بند ہوجانا چاہیے۔
مداخلت کے نتیجے میں پہلے بھی جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے اور اب خطرہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ پہلے آئی جے آئی کی صورت میں میاں نواز شریف کو پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا گیا اور اب عمران خان کو مسلم لیگ کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ بہرحال اب عمران خان نے واضح برتری حاصل کرلی ہے ان کی تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں قومی اسمبلی کی تقریباً دو گنی نشستیں جیت لی ہیں اور اب عمران خان وزیر اعظم پاکستان بننے کے اپنے دیرینہ خواب کو پورا کرنے کے اہل ہوگئے ہیں تاہم الیکشن کے نتائج میں سست روی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
بعض مقامات پر پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ بوتھ سے باہر کردیا گیا تھا ان کی غیر موجودگی میں ووٹوں کی گنتی کا ہونا اور پھر فارم پینتالیس کا جاری نہ کرنے پر تمام ہی پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں اور الیکشن کمیشن میں اپنی شکایات درج کرائی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) سمیت کئی مخالف پارٹیوں نے انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ تحریک انصاف کی سندھ میں حیران کن کامیابی نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ ایم کیو ایم سندھ میں ہمیشہ اہم پارٹی کے طور پر جیت حاصل کرتی رہی ہے مگر اس دفعہ اسے بھی شدید جھٹکا لگا ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کوئی بھی سیٹ حاصل نہ کرسکی حالانکہ اس نوخیز پارٹی کے بارے میں تجزیہ کار اچھی رائے رکھتے رہے ہیں اور اس کے ایم کیو ایم سے بہتر نتائج کی پیش گوئی کرتے رہے ہیں بہرحال اب اس کے رہنماؤں کو دل برداشتہ ہونے کے بجائے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے آیندہ عام انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے۔
تحریک انصاف نے گو کہ ان انتخابات میں ملک گیر کامیابی حاصل کرلی ہے مگر اسے اب اپنے رویے میں نرمی پیدا کرکے حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا ورنہ خدشہ ہے کہ جس طرح مسلم لیگ (ن) نے اپنی پانچ سالہ مدت پی ٹی آئی کے دھرنوں، الزامات اور احتجاجوں میں بڑی مشکل سے پوری کی ہے اب پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی ویسی ہی مشکلات درپیش نہ آئیں؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے تاہم حزب اختلاف کی پارٹیوں کو ملک کی خاطر صبر سے کام لینا ہوگا۔