عوام کی دلیری کو ہمارا سلام

عام خیال یہ تھا کہ دہشت گردی اور بے رحمانہ ٹارگٹ کلنگ کی دہشت سے عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے۔۔۔


Zaheer Akhter Bedari May 13, 2013
[email protected]

عام خیال یہ تھا کہ دہشت گردی اور بے رحمانہ ٹارگٹ کلنگ کی دہشت سے عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشن جانے کا رسک نہیں لیں گے اور عوام کو گھروں میں قید رکھنے کے لیے دہشت گردوں نے کھلی دھمکیاں دیں،پمفلٹ تقسیم کیے اور ووٹ ڈالنے کو خلاف اسلام اورکفر بھی قرار دیا ، لیکن ان دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے عوام جتنی بڑی تعداد میں باہر نکلے اور سخت گرمی میں گھنٹوں پولنگ اسٹیشنوں کی لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے ہوکر اپنا ووٹ کاسٹ کیا دہشت گردوں کے منہ پر یہ ایک ایسا طمانچہ ہے جس کی دہشت گردوں کو ہرگز توقع نہیں رہی ہوگی۔

پنجاب کے عوام تو بڑی حد تک اس خوف ودہشت سے اس لیے آزاد تھے کہ دہشت گردوں نے اس صوبے کو ''بوجوہ'' امان دے رکھی تھی لیکن کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ برسوں سے دہشت گردی کی جس آگ میں جل رہے ہیں اس کے باوجود ان علاقوں کے عوام خاص طورپر بڑی تعداد میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا اور پولنگ اسٹیشنوں کی لمبی لمبی لائنوں میں اپنی باری کے لیے گھنٹوں کھڑے رہنا دہشت گردوں کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ ہے جس کی تکلیف سے یہ وحشی بلبلارہے ہوںگے، اگرچہ پولنگ کے دن بھی دہشت گردوں نے کراچی اور بلوچستان وخیبر پختونخواہ میں درجنوں بے گناہ انسانوں کو قتل کردیا لیکن عوام نے اس وحشت وبربریت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جس دلیری کا مظاہرہ کیا وہ قابل تحسین ہی نہیں بلکہ مستقبل کے لیے خیال نیک بھی ہے۔

فاٹا اور بعض دوسرے قبائلی علاقوں میں جو دہشت گردوں کے گڑھ بنے ہوئے ہیں عوام نے خاص طورپر خواتین نے گھروں سے باہر نکل کر دہشت گردوں کی سازشوں کو جس طرح ناکام بنادیا ہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ صدیوں سے پسماندگی میں رہنے والے یہ علاقے اب پسماندگی کے اندھیروں سے باہر آرہے ہیں، دہشت گردوں نے ان علاقوں کو برسوں سے یرغمال بنارکھا ہے اور ان ہی علاقوں میں دہشت گردی،خودکش حملوں کی تربیت گاہیں موجود ہیں ان علاقوں میں ان کی طاقت اوراختیارات کا عالم یہ ہے کہ یہ علاقے ریاست کے اندر ریاست بنے ہوئے ہیں جہاں سیکیورٹی فورسز بھی غیر محفوظ ہیں اور آئے دن ان کی چوکیوں، ان کے قافلوں پر حملے کرکے اپنی جانی نقصان سے دو چار کرتے رہتے ہیں۔ ایسے خطرناک ماحول میں الیکشن کمیشن چلانا اور اپنے ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے گھروں سے بے خطر باہر نکلنا اس علاقے کے مستقبل کے لیے ایک ایسی حوصلہ افزاپیش رفت ہے جو دہشت گردوں کے حوصلوں کو پست کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

دہشت گردی کے حوالے سے بڑے وثوق کے ساتھ یہ مؤقف پیش کیاجاتاہے کہ دہشت گرد پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کا ہر کام، ہر اقدام اسلامی روایات کی سراسر خلاف ورزی ہے، مثلاً پیغمبر اسلام نے علم کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے فرمایا تھا کہ علم حاصل کرنے کے لیے چین جانا پڑے تو چین جائیں ، چین کا حوالہ اس لیے دیاگیا ہے کہ چین عرب سرزمین سے ہزاروں میل دور ایک ایسا ملک ہے جس تک پہنچنا آسان نہیں لیکن علم کی ضرورت اور اہمیت کو واضح کرنے کے لیے مسلمانوں کو یہ حکم دیاگیا کہ حصول علم کے لیے مسلمانوں کو اتنی شدید سفری صعوبتیں برداشت کرنا پڑے تو اس کی پرواہ نہ کی جائے لیکن پاکستان ہی نہیں ساری دنیا میں اسلام نافذ کرنے کے دعویدار یہ دہشت گرد تعلیمی اداروں کے سب سے بڑے دشمن ہیں اور اب تک سیکڑوں اسکولوں کو بارود سے تباہ کرچکے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے عوام خواہ کتنے ہی ناخواندہ اور سادہ لوح ہوں وہ اس موٹی سی بات کو تو سمجھ سکتے ہیں کہ اسکولوں کو تباہ کرنا اپنی قوم کے ساتھ ایسی غداری اور اپنے مذہب کے ساتھ ایسی بد دیانتی ہے جس کی مثال دنیا کی بد ترین پسماندہ ترین قوموں میں بھی نہیں ملتی۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک انسان کا قتل سارے عالم کا قتل ہے اور ہمارے مجاہدین کے اسلام کا حال یہ ہے کہ خیبر سے لے کر کراچی تک ہر روز سیکڑوں مسلمانوں کو جرم بے گناہی میں ایسی ہولناک موت کے حوالے کیاجارہاہے کہ ان کے جسم کے ٹکڑوں کو بوریوں میں بھر کر دفنانا پڑرہاہے، اسلام میں خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے اور ہمارے اسلام پسندوں کا حال یہ ہے کہ بارہ سال کے معصوم بچوں کے جسم سے خودکش جیکٹس باندھ کر انھیں خودکش حملوں کی مہم پر بھیجتا ہے اور ان معصوم بچوں سے کہاجاتاہے کہ وہ خودکشی کے ساتھ ہی جنت میں پہنچ جائیں گے۔ ہمارے دین میں بزرگان دین کی حرمت کا عالم یہ ہے کہ بلا تفریق مذہب وملت ہر قوم، ہر مذہب کے لوگ ان کا احترام کرتے ہیں لیکن ہمارے منفرد دین دار بزرگوں کے مزاروں کو بموں سے اڑاتے ہیں، مسجدیں خواہ ان کا تعلق کسی مکتبہ فکر سے ہو خدا کا گھر کہلاتی ہیں اور ان دین کے شیدائیوں کا عالم یہ ہے کہ نہ صرف ان عبادت گاہوں کو بموں سے اڑایاجارہاہے بلکہ ان عبادت گاہوں میں عبادت کرنے والوں کے خون سے ان عبادت گاہوں کی دیواروں کو سرخ کیاجارہاہے، آڈیو، ویڈیو اور ٹی وی کی دکانوں اور مارکیٹوں کو تباہ کیاجارہاہے۔

جمہوری طرز حکومت اپنی تمام تر خامیوں،خرابیوں کے باوجود سیاسی ارتقاء کی تاریخ کا ایک ترقی پسندانہ نظام ہے اس نظام سے انتخابات حکومت قانون وانصاف کے ادارے منسلک ہیں اور ہمارے منفرد مجاہدین اسلام جمہوریت، حکومت، انتخابات، قانون اور انصاف کے اداروں کو کفر کے ادارے کہتے ہیں اور ان اداروں کو ختم کرنا اپنا دینی فرض گردانتے ہیں اور اسی حوالے سے یہ مجاہدین انتخابات اور جمہوریت کا بستر لپیٹنا چاہتے ہیں، دنیا کی تاریخ ایسے فاشسٹوں سے بھری ہوئی ہے، جنھوں نے اپنے فاشسٹ نظریات کو عوام پر مسلط کرنے کے لیے بد ترین طاقت کا استعمال کیا لیکن ایسے فاشسٹوں نے بھی اپنی اندھی طاقت کے استعمال میں معصوم بچوں، خواتین اور ضعیفوں کے قتل سے گریزکیا لیکن ہمارے دینداروں کی سفاکی کا عالم یہ ہے کہ دو دو سال کے بچے، اسی اسی سال کے بوڑھے اور خواتین ان کے سفاکانہ حملوں میں مارے جارہے ہیں اور ان کی پیشانیوں پر بل نہیں آتا۔

خیبر پختونخواہ ہمارے ملک کا پسماندہ ترین علاقہ ہے، ہمارے حکمرانوں نے اور خود اس علاقے کے عمائدین نے اس علاقے کو پسماندگی اور پسماندہ قبائلی نظام سے نکالنے اور ملک کے دوسرے ترقی یافتہ علاقوں کی صف میں کھڑا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اس کے برخلاف اسے آزاد علاقے کا نام دے کر اسے قانون، انصاف اور ریاستی اداروں سے محروم کرکے ان علاقوں کو ملک بھر کے جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہ میں بدل دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسانیت کے ان دشمنوں نے ان علاقوں کو ا پنے مورچوں میں بدل دیا۔ ہمارے نااہل حکمرانوں نے ان کی بڑھتی، پھیلتی سرگرمیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور اپنی لوٹ مار میں لگے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی جیسا ترقی یافتہ صنعتی ، مہذب شہر ان غاصبوں کے لیے دہشت گردی کے اڈے میں بدل گیا اور ڈیڑھ کروڑ آبادی کا یہ شہر مٹھی بھر دہشت گردوں کا یرغمالی بن گیا اس شہر کا کوئی شہری اپنے آپ کو نہ گھر کے اندر محفوظ سمجھتاہے نہ گھر کے باہر، ہر روز درجنوں افراد کے بہیمانہ قتل نے یہاں کے شہریوں کو اس قدر دہشت زدہ کررکھاہے کہ وہ اپنے کام اپنی ملازمتوں کے لیے بھی گھروں سے نکلتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ کیا وہ شام کو خیریت سے اپنے گھر واپس آئیںگے؟ ایسے خوف زدہ ماحول میں بلا امتیاز صنف ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشنوں کی لمبی لمبی لائنوں میں گھنٹوں کھڑے رہنا جہاں دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ ہے وہیں اس خوف سے نجات کی ایک واضح دلیل بھی ہے جس کے عشروں سے عوام شکار رہے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف ملک بھر خاص طورپر سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام نے گھروں سے نکل کر جس بہادری اور دلیری کا مظاہرہ کیا ہے یہ ان کی اپنی جرأت ہے اس میں میڈیا کا ہاتھ تو ہے لیکن حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمے داری اور فرض کا کوئی دخل نہیں، جنھوںنے برسوں سے نہتے عوام کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیاہے یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ اقتدار کے لیے مرے جانے والے سیاستدانوں کو ملک کے طول وعرض میں ہر روز سیکڑوں کی تعداد میں دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والے بے گناہ انسانوں کی موت کا ذرہ برابر احساس نہیں، ان سیاسی مجرموں کی ذمے داری اتنی رہ گئی ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ دہشت گردی کی مذمت میں بیان جاری کرتے ہیں اور پولیس کو تحقیقات کا حکم دیتے ہیں اور کسی بڑی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے لواحقین کو دو چار لاکھ کی امداد کا اعلان کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ کیا یہی حکومت حکمرانوں اور سیاستدانوں کا فرض ہے؟ ہماری آزاد عدلیہ، عوام کو ہر روز قانون اور انصاف کی برتری کے مژدے سناتی رہتی ہے اور اس کی ناک کے نیچے قانون اور انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بے گناہ شہریوں کو دہشت گرد قتل کررہے ہیں اس کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں، ایسے دہشت کے ماحول میں گھروں سے نکل کر اپنا ووٹ کاسٹ کرنے والوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ آیندہ بھی ایسی جرأت کا مظاہرہ کرکے دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بناتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں