زاویۂ نظر
انتخابات گزرے گئے‘ سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا ماضی کے انتخابات میں ہوتا آیا ہے۔۔۔
انتخابات گزرے گئے' سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا ماضی کے انتخابات میں ہوتا آیا ہے۔ پولنگ کے دوران استعمال ہونے والا سامان بدل گیا ہو گا۔ ووٹوں کے لیے دھاتی ڈبوں کی جگہ پلاسٹک کے آرپار نظرا ٓنے والے ڈبوں نے لے لی ہے لیکن الیکشن کے حوالے سے ہمارے رویوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ سیاست میں قسمت آزمائی کرنے والی شخصیات کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انھیں لوگوں کا اعتماد حاصل رہے۔ یہی اعتماد انھیں اسمبلیوں میں پہنچاتا ہے لیکن خواص میں شامل رہنے کی خواہش دوممکن راستے اختیار کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اول یہ کہ ملک کے فیصلہ ساز اداروں کا حصہ بنے رہنے کے لیے انسان پوری تندہی کے ساتھ اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے کمربستہ رہے۔
خود کو ایسا بنائے رکھے کہ لوگ اس سے محبت کریں اور ان کی خواہش ہو کہ وہی اقتدار کے ایوانوں میں اپنے حلقے کی نمایندگی کرے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دیگر ذرایع سے اس بات کو ممکن بنا لیا جائے کہ عوام کی ناپسندیدگی بھی ایوان میں پہنچنے کا راستہ نہ روک سکے۔ یہ ذہنی کیفیت انسان کو دھاندلی پر آمادہ کرتی ہے۔ پاکستانی سیاست میں انتخابی دھاندلی بڑی مقبول اصطلاح ہے اور اس کا استعمال بہت عام ہے۔ اس کی وجہ لازمی طور پر یہی ہو سکتی ہے کہ ہمارے سیاست دان اس عمل کو روا سمجھتے ہیں اور اب تو یہ سیاسی جماعتوں کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ بن چکی ہے۔ اس عمل کے حق میں خود کو مطمئن کرنے کے لیے یہ تاویل پیش کی جا سکتی ہے کہ ایک بڑے مقصد کے حصول کے لیے تھوڑی اونچ نیچ بھی ہو جائے تو خیر ہے۔
ماضی کے تمام انتخابات کی طرح اس الیکشن کے شفاف' آزادانہ اور غیرجانبدارانہ ہونے کے بارے میں انتظامات کے تمام دعوؤں کے باوجود ملک کے طول وعرض میں بدانتظامی اور انتخابی دھاندلیوں کی شکایات کی روایت تو اب بھی اسی طرح قائم ہے لیکن فرق یہ آیا ہے کہ پہلے دھاندلی کا شکار ہونیوالے' رونے پیٹنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے لیکن اب ہر شخص کے پاس کیمرہ ہوتا ہے اور واردات ڈالنے والے کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کی فلم بن رہی ہے۔ یوں اب اگر کوئی شخص کہیں پر کسی واقع کو اپنے فون میں محفوظ کر لے تو وہ واقعہ اپنی تمام تر تباہ کاری کے ساتھ ٹی وی پر جلوہ گر ہوتا ہے۔ کراچی شہر کے بعض حلقوں میں بدانتظامی کا ماحول رہا۔ این اے 250 میں آدھا دن گزر جانے کے باوجود پولنگ اسٹیشنوں پر ضروری سامان نہیں پہنچا تھا۔ کیا اسے اتفاق سمجھ لیا جائے؟
الیکشن 2013ء میں ایک اور انقلابی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ ہر ووٹر کی تصویر انتخابی فہرست میں شامل تھی جس کے سامنے انگوٹھا لگانا پڑتا تھا۔ اس کے باوجود کام دکھانے والوں نے کام دکھایا اور مخالفین منہ دیکھتے رہ گئے۔ این اے 117 جہاں ابرارالحق اور احسن اقبال آمنے سامنے تھے وہاں پر پولنگ اسٹیشنوں پر جو حال ہوا وہ تو تمام چینلز نے دکھایا۔ کیا ہم کبھی انفرادی دیانت داری کی اس سطح پر پہنچ سکتے ہیں جو معاشرے کے اجتماعی رویے سے جھلکتی ہے؟۔
الیکشن کے دن کا ابتدائی نصف تو مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر گھومتے پھرتے گزرا اور سہ پہر کے بعد ٹی وی کے سامنے نتائج کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارے ملک کی حقیقی مقتدر قوتیں جنھیں عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ بھی کہتے ہیں (بعض تجزیہ نگاروں کے برعکس میرے نزدیک اسٹیبلشمنٹ محض پاک فوج نہیں بلکہ میں افواج پاکستان کو اسٹیبلشمنٹ کے بنیادی ڈھانچے کا محض ایک حصہ سمجھتا ہوں ) وہ نہیں چاہتی کہ پاکستان کے انتخابات مکمل طور پر شفاف اور غیرجانبدارانہ ہوں حالانکہ یہ مقصد حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اب بھی صورتحال کچھ ایسی ہی لگتی ہے کہ ہماری فیصلہ ساز قوتیں انتخابات کے طریقہ کار میں اس بات کی گنجائش برقرار رکھنا چاہتی ہیں کہ جہاں ضرورت پڑے عوام کے فیصلے پر اثرانداز ہونا ناممکن نہ ہو۔
مثال کے طور پر ہماری بہت سی سیاسی جماعتوں کی یہ خواہش تھی کہ فوج کو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر تعینات کیا جائے جب کہ چند ایک جماعتیں اس مطالبے کے حق میں نہ تھیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اچانک فوج کے بارے میں ایسا رویہ اختیار کر لیا جاتا ہے جیسے پولنگ اسٹیشن پر کسی وردی کا سایہ بھی پڑ گیا تو الیکشن کا عمل گہنا جائے گا۔ یہ وہی فوج ہے جس نے طویل عرصوں تک ملک پر حکومت کی۔ ملک کے ہر ادارے میں ان کا عمل دخل رہا۔ پھر فوج میں خدمات انجام دینے والے ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ لوگ بھی ہمارے ہی گلی محلوں سے اُٹھ کر فوج میں شامل ہوتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک ایسے وقت پر جب ملک میں حالات معمول کے مطابق نہ تھے اور بدامنی کا خطرہ ہر طرف موجود تھا فوج اور رینجرز کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں پولنگ اسٹیشنوں سے دور مجسموں کی طرح کھڑا کر دیا گیا۔
اگر ان کا کام صرف نمائشی نوعیت کا تھا تو اتنا تکلف کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یقیناً ان کی Moblization پر بھی اخراجات آئے ہوں گے۔ میری اس بات سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ پاکستان میں آج بھی اگر پولنگ بوتھ کے پاس فوج کے دو سپاہی کھڑے کر دیے جائیں تو دھاندلی کرنے والا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچے گا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ جہاں جہاں بھی غنڈہ گردی اور من مانی کے واقعات ہوئے وہاں بظاہر امن وامان قائم کرنے کے لیے تعینات پولیس، کو ئیک رسپانس فورس کے طور پر موجود فوج اور پولنگ کے عملے سمیت کسی نے بھی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جس نے جو کرنا تھا پوری تسلی سے کیا۔ ٹی وی کیمروں نے سب کچھ دکھایا اور یہ سب انتظامیہ کی طرف سے کیے گئے انتظامات کے باوجود ہوا۔
دنیا کے بیشتر ملکوں میں انتخابی عمل کے لیے برقی مشینوں کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ بھارت میں بھی یہی طریقہ کار استعمال کیا جا رہا ہے اور الیکٹرانکس کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ اور بھارت الیکٹرونکس لمیٹڈ وہ تمام ضروری آلات تیار کرتا ہے جو اس مقصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کی ابتداء تو 1960ء میں ہو گئی تھی جب پنج گارڈ سسٹم متعارف ہوا تھا لیکن بیرون ممالک خاص طور پر برطانیہ میں ان مشینوں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ مشینی ووٹنگ سسٹم میں ایسی خامیاں موجود ہیں جنھیں استعمال میں لا کر بڑے پیمانے پر فراڈ اور دھاندلی کی جا سکتی ہے یعنی پاکستان میں اگر ووٹ ڈالنے کی برقی مشینیں متعارف کروا دی جائیں پھر بھی جس ذہنی کیفیت کا آغاز میں ذکر کیا گیا اس کے حامل لوگ یہی سوچیں گے کہ مشین کو دھاندلی کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وہ مثبت سمت میں وقت صرف کرنے اور جدوجہد کرنے کے بجائے اپنا ذہن اور سرمایہ اس بات پر صرف کریں گے کہ مشین کے اندر نقب لگانے کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے۔ درحقیقت جائز اور ناجائز کے بارے میں ہمارا زاویہ نظر ہی وہ سب سے اہم فیکٹر ہوتا ہے جو ہمارے عمل کی سمت کو طے کرتا ہے۔ پاکستان کے اندر نئی ٹیکنالوجیز کو متعارف کروانے' سڑکیں اور پل بنانے' بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنے اور مادی ترقی کے راستے کھولنے سے کہیں بڑی خدمت یہ ہو گی کہ ہم یہاں بسنے والے لوگوں اور بالخصوص آنے والی نسلوں کے زاویہ نظر کو بدلنے پر توجہ مرکوز کریں۔ اگر ہم اپنے عوام کی اکثریت کو اس بات پر آمادہ کر لیں کہ وہ چور دروازے سے فوائد حاصل کرنے کے بجائے محنت اور خلوص نیت پر بھروسہ کرنے لگیں تو یقین کر لیں کہ مادی ترقی کی بلندیوں تک پہنچنے کا سفر آسان تر ہو جائے گا۔