ایک ہی پودے میں آلو پیاز ٹماٹر
اینکر : جب سے ہم نے اپنے چینل ’’ہواں سے ہیاں تک‘‘ کے مقبول ترین پروگرام ٹاک شو ’’چونچ بہ چونچ‘‘ میں لیڈروں کے۔۔۔
اینکر : جب سے ہم نے اپنے چینل ''ہواں سے ہیاں تک'' کے مقبول ترین پروگرام ٹاک شو ''چونچ بہ چونچ'' میں لیڈروں کے بجائے ماہرین کو بلانا شروع کیا ہے، تب سے ہمارے پروگرام کی ٹی آر پی ایک دم چھلانگ لگا کر اوپر اٹھ گئی ہے چنانچہ چینل کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ تاحکم ثانی ہم صرف ماہرین ہی کو اپنے پروگرام میں بلائیں گے۔ اس سلسلے میں آج ہمارے سامنے یہ جو مجہول سی شخصیت ہونق انداز سے براجمان ہے، اس کا نام ڈاکٹر آلو ٹماٹر ہے۔ انھوں نے آلو اور ٹماٹر پر بے شمار تجربات کیے ہیں جن کی تفصیل آج ہم ان سے پوچھیں گے۔ ان کے علاوہ دو اور''آلو ٹماٹر'' اوہ سوری شخصیات ہیں، ان کو آپ تو کیا سارے ملک کی پولیس والے اور چور اچکے بھی پہچانتے ہیں، میری دائیں جانب حضرت علامہ بریانی عرف برڈفلو تقریباً ان تمام چیزوں پر اتھارٹی ہیں جن کے نام میں ''ت'' آتی ہے یعنی عورت، بیویات ازدواجیات، تعویزات، عملیات اور نہ جانے کیا کیا ''یات''... دوسرا چشم گل چشم عرف ڈینگی مچھر ان علوم کے ماہر خصوصی ہیں جن کے آخر میں ''م'' لگتا ہے جیسے علم، فلم، چیلم، الم غلم وغیرہ... ہاں تو جناب ڈاکٹر آلو ٹماٹر صاحب:
ماہر : پیاز بھی... کیوں کہ آلو اور ٹماٹر کے علاوہ پیاز پر بھی بڑے تجربات کیے ہیں اور مقالے لکھے ہیں۔
اینکر: آلو پیاز اور ٹماٹر۔
ماہر: جی ہاں۔
اینکر: یہ تجربات کس قسم کے تھے؟
ماہر: دراصل آپ کو تو پتہ ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں خوراک کی شدید قلت ہے۔
چشم: اور اس قلت کی وجہ کیا ہے؟
ماہر: مجھے نہیں معلوم۔
چشم: لیکن مجھے معلوم ہے۔
ماہر: کیا وجہ ہے۔
چشم: یہ سامنے بیٹھی اتنی لحیم و شحیم وجہ آپ کو نظر نہیں آرہی ہے (علامہ بریانی کی طرف آنکھ سے اشارہ کرتا ہے)
علامہ: اوہ ناہنجار، نابکار، یک چشم پاپی... مجھ سے باز آجاؤ ورنہ...
چشم: ورنہ کیا؟
علامہ: کفر کا فتویٰ۔
چشم: کس بنیاد پر؟
علامہ: بنیاد پیدا کرنا میرا کام ہے۔
چشم: مثلاً؟
علامہ: سب سے بڑی بنیاد تو تمہاری یہ شکرے جیسی ناک ہے، اس قسم کی ناک صرف چیل، گدھ، شکرے اور کافر کی ہوتی ہے۔
اینکر: آپ لڑیں مت، مجھے ذرا آلو ٹماٹر صاحب سے بات کرنے دیں۔
ماہر: ڈاکٹر آلو ٹماٹر اینڈ پیاز۔
اینکر: ہاں ڈاکٹر آلو ٹماٹر اینڈ پیاز صاحب کچھ اپنے تجربات کے بارے میں بتائیں۔
ماہر: وہی تو بتانے جارہا تھا، ملک میں غذائی قلت خصوصاً آلو پیاز اور ٹماٹر کی مہنگائی کو دیکھ کر میں نے سوچا...
چشم: آپ نے سوچا۔
ماہر: ہاں سوچا۔
چشم: اور اس سوچنے کے لیے حکومت سے فنڈ کتنے لیے؟
ماہر: کچھ زیاہ نہیں یہی کوئی پانچ لاکھ۔
چشم: اسے کہتے ہیں علامہ سوچ اور ایک تمہاری سوچ ہے بریانی اور مرغی سے آگے بڑھتی نہیں۔
علامہ: دیکھو میرے منہ مت لگو۔
چشم: تمہارے منہ لگے میری جوتی۔
اینکر: تم لوگ پھر چونچ بہ چونچ ہو گئے۔
چشم: کیا کریں تم نے پروگرام کا نام ہی ایسا رکھا، ورنہ میں تو اس چونچ کو ہاتھ بھی نہ لگاؤں۔
علامہ: اور میں تمہاری چونچ کو دس فٹ ڈنڈے سے بھی چھونا پسند نہ کروں۔
اینکر: بس چپ، خاموش، ہاں ڈاکٹر صاحب آپ نے سوچا۔
ماہر: ہاں میں نے سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ان تین فصلوں آلو پیاز ٹماٹر کے لیے الگ الگ کھیت کیوں استعمال کیے جائیں۔
اینکر: اچھا۔
ماہر: اور کیوں نہ ایک ہی پودے سے یہ تینوں فصلیں حاصل کی جائیں۔
اینکر: اچھا... مگر کیسے؟
ماہر: دیکھیں نا... آلو زمین کے نیچے ہوتے ہیں۔
اینکر: ہاں۔
ماہر: پیاز زمین کے اوپر ہوتے ہیں۔
اینکر: ہاں بالکل ہوتے ہیں۔
ماہر: اور ٹماٹر اوپر شاخوں پر۔
اینکر: ٹماٹروں کو میں نے نہیں دیکھا ہے۔
چشم: اسے دیکھئے ہمارے علامہ صاحب... یہ بھی ہر پکوان میں پڑتے ہیں۔
علامہ: اور تم پیاز جیسی آنکھ والے تم بھی تو چیز میں پڑتے ہو۔
اینکر: پھر وہی... وہی ڈاکٹر آپ اپنی بات جاری رکھئے۔
ماہر: تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ تینوں کو اکٹھا کر کے ایک ہی پودے میں پیدا کیا جائے۔
اینکر: واہ یہ تو بڑا ہی زبردست آئیڈیا ہے، آپ دونوں کا کیا خیال ہے؟
چشم: میرے خیال میں اگر اسی پودے میں چاول بھی ہوں تو زیادہ اچھا رہے گا، کیوں علامہ صاحب...
علامہ: میں جانتا ہوں تیرا اشارہ کس کی طرف ہے لیکن مجھے ان چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
چشم: او ہاں میں تو یہ بھول گیا کہ آپ کو تو پکے پکائے پکوانوں سے دلچسپی ہے اور وہ بھی دوسرے گھروں کی۔
اینکر: تم چپ رہو... ڈاکٹر صاحب آپ۔
ماہر: حکومت سے میں نے فنڈ مانگے اور تجربات کا آغاز کیا چھ سات ممالک کا وزٹ کیا اور پھر ایک پودا اگایا، لیکن اس میں کچھ غلطی ہو گئی، ٹماٹر اس کی جڑوں میں پیدا ہو گئے اور آلو شاخوں پر۔
اینکر: اور پیاز؟
ماہر: اس کا تو پتہ ہی نہیں چلا... چنانچہ دوبارہ فنڈز منظور کروائے، اب کے جو پودہ اگا ویسے تو ٹھیک ٹھاک تھا لیکن پیاز جڑوں سے نکلے، ٹماٹر زمین پر لگے اور آلو شاخوں پر۔
اینکر: یہ تو بڑا عجیب پودا آپ نے اگایا۔
ماہر: لیکن میں مطمئن نہیں تھا میں ہر چیز کو اپنی اصل چیز پر اگانا چاہتا تھا۔
اینکر: تو پھر؟
ماہر: پھر تیسری بار تجربہ کیا تو...
اینکر: تو کیا؟
ماہر: پودے میں کچھ بھی پیدا نہیں ہوا البتہ اس کے پتے کھانے پر تینوں سبزیوں کا مزا آتا تھا، اب پھر تجربہ کر رہا ہوں صرف فنڈز کا انتظار ہے۔
چشم: ناحق آپ نے اتنی تکلیف کی آلو پیاز ٹماٹر کو ملانا تو ہماری عورتیں جانتی ہیں۔
ماہر: مگر کھیت الگ الگ ہوتے ہیں۔
چشم: ہانڈی تو ایک ہی ہوتی ہے نا...