امریکی پابندیاں ٹرانسٹ ٹریڈ بزنس ایران سے پھر پاکستان منتقل ہونے لگا

افغان تاجروںنے ایرانی بندرگاہوںکا استعمال محدود کردیا، کنسائمنٹ کلیئرنس کیلیے کراچی،بن قاسم اور گوادر پورٹ آنے لگے


Ehtisham Mufti July 29, 2018
دونوں ملک ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر نظرثانی اورتجارتی رکاوٹیں ہٹانے کیلیے فوری فیصلے کریں،ڈائریکٹر پاک افغان جوائنٹ چیمبر۔ فوٹو: فائل

KARACHI: امریکا اور ایران کی باہمی چپقلش اورایران پرنئی پابندیوں کے باعث افغان تاجروں نے ایرانی بندرگاہ چابہار کے ذریعے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنسائمنٹس کی درآمدات محدود کردی اور اپنے ٹرانزٹ ٹریڈ کنسائمنٹس کیلیے کراچی، بن قاسم اور گوادر بندرگاہ کا رخ کرنے لگے ہیں۔

پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے ڈائریکٹر ضیاء الحق سرحدی نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ گزشتہ8 سال سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کاروبارکا بیشتر حصہ ایران کی بندرگاہ چا بہار اوربندر عباس منتقل ہو چکا تھا جس کی وجہ سے پاک افغان باہمی تجارت کا حجم بھی 2.5ارب ڈالر سے گھٹ کر50کروڑڈالر کی کم ترین سطح پر آگیا ہے جبکہ دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ تجارتی حجم 5 ارب ڈالر تک پہنچایا جائے، موجودہ خارجی حالات اور پالیسیوں کے تناظر میں پاکستان اور افغانستان کے متعلقہ اعلیٰ حکام کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے بہترین اقتصادی مفادات کے لیے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوری اور ٹھوس فیصلے کریں اورپاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے حوالے سے دونوں ممالک کی بیورو کریسی کی جانب سے پیدا کی جانے والی مشکلات کو دور کرنے کے لیے مطلوبہ نوعیت کے اقدامات اٹھائیں تاکہ پاک افغان تعلقات میں بہتری کے ساتھ باہمی تجارت کوبھی فروغ مل سکے۔

ضیاء الحق سرحدی نے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے موجودہ معاہدے میں درپیش مشکلات کا ذمے دار دونوں ممالک کی بیوروکریسی کو قرار دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں نے فوری طور پر اس معاہدے پر نظرثانی نہ کی اور ایگریمنٹ میں درپیش مشکلات کو دورکرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ عملی طور پر ختم ہو جائے گی اور اس کا تمام فائدہ ایران کے بعد بھارت اٹھائے گا۔

انہوں نے کہا کہ افغان اور وسط ایشیائی ریاستوں کی تیزی سے ترقی کرتی منڈیوں سے بھرپور استفادہ کرنے کیلیے جامع پالیسی کی ضرورت ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور تجارتی معاہدوں کے مسائل سے افغانستان کو ملکی برآمدات کم ہو رہی ہیں اور افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (اے پی ٹی ٹی اے)2010کا معاہدہ جو ایک دباؤ کے تحت ہوا تھا وہ اب بری طرح سبوتاژہو چکا ہے، اس حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے مابین حکومتی سطح پر کئی اجلاس بھی منعقد ہوئے لیکن یہ اجلاس بے سود ثابت ہوئے لہٰذا حالیہ انتخابات میں اکثریت کے ساتھ کامیاب ہونیوالی پی ٹی آئی کی حکومت اے ٹی ٹی معاہدے پر نظرثانی کرتے ہوئے دونوں ممالک کے تاجروں کیلیے قابل قبول پالیسی ترتیب دے کر نیا معاہدہ کرے تاکہ دونوں ممالک کی معیشتوں کو فائدہ پہنچ سکے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں