کراچی کا بحران…
کراچی ایک غریب پرور شہر ہے۔ ملک بھر سے آنے والے لوگوں کو رہائش کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقعے فراہم کر رہا ہے۔
کراچی ایک غریب پرور شہر ہے۔ ملک بھر سے آنے والے لوگوں کو رہائش کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقعے فراہم کر رہا ہے۔ 1947 میں پاکستان نے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کا دل کھول کر استقبال کیا اور خاص طور پر سندھ کے شہریوں نے اسلامی روایات کو زندہ کیا اور انصار بن کر ان مہاجرین کو گلے سے لگاتے ہوئے سندھ میں آباد کیا۔ 1947 میں ملک کو جو سرکاری اہلکار ملے ان میں کثیر تعداد انھی مہاجرین کی تھی جو ہندوستان سے آئے تھے کیونکہ ملک میں بسنے والے دیگر افراد کی زمینیں، کھیت، کھلیان اور دیگر اثاثے اور ذرایع تھے لیکن ان کے پاس نہ زمینیں تھیں اور نہ ہی کوئی مناسب آمدنی کا ذریعہ تھا لہٰذا ان کا معاشی ذریعہ نوکریاں اور تجارتی سرگرمیاں ٹھہریں۔
کراچی زمانہ جنرل ایوب کے دور سے ہی مسائل کی آماج گاہ بن گیا تھا جب انھوں نے دارالحکومت کراچی کو اٹھاکر اسلام آباد لے جانے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت سب سے زیادہ متاثر مہاجرین ہی نظر آئے۔دوسری بار ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میںجب سندھ میں سندھی زبان کو صوبے کی سرکاری زبان کے طور پر مقرر کیا گیا ۔بعدازاں بھٹو صاحب نے معاملہ فہمی کی اور سندھ میں ''اردو اور سندھی زبان'' کو سرکاری زبان بنا ڈالا۔ یاد رہے کہ ان دنوں صوبہ پنجاب، صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان نے سرکاری زبان ''اردو'' کا قانون پاس کیا تھا۔ بھٹو دور میں ایک اور دھماکا ہوا تھا جس سے ''کوٹہ سسٹم'' وجود میں آیا جس کی حدود میں کراچی، حیدر آباد اور سکھر شہری اور باقی پورا صوبہ دیہی قرار پایا۔ یہ نہایت ہی غیرمنصفانہ اور جابرانہ فیصلہ تھا، خصوصاً طلبا اور سرکاری نوکریوں کے حصول پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
1980 کی دہائی میں جب صوبہ سندھ میں ''سندھی قوم پرستانہ تحریک'' نے زور پکڑنا شروع کیا تو اس کا مداوا کرنے کے لیے اقتدار میں بیٹھے جہاندیدہ لوگوں نے ''پنجابی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن'' کو ناصرف فعال کیا بلکہ ''مہاجر قومی موومنٹ'' کو پیدا کیا۔ ''پی ایس اے '' بہت زیادہ پھل پھول نہ سکی البتہ ''ایم کیو ایم'' نے خوب ترقی کی۔ جوں جوں ایم کیو ایم ترقی کی منازل طے کرتی رہی توں توں مہاجروں کی روایتی سیاسی جماعتوں، عوامی تعاون اور سیاسی اثرورسوخ نے دم توڑنا شروع کردیا۔ کراچی میں علیحدگی کی سوچ اور تعصب نے جگہ لے لی اور ایم کیوایم نے کراچی میں غلبہ اور قبضہ کرنے کی کوششیں تیزکردیں اور تمام داخلی راستوں اور آبادیوں کو شکنجے میں لے کر کراچی کے مالک و مختار بن گئے۔
حالانکہ کراچی میں مہاجروں کے علاوہ پختون شہر کی دوسری بڑی آبادی ہیں۔ تیسری آبادی کے طور پر پنجابی اور سرائیکی شمار ہوتے ہیں۔ سندھی اور بلوچ آبادی کو چوتھا مقام حاصل ہے۔ اس کے علاوہ کچھی، میمن، ہندو ، بنگالی اور برمی زبان کے بولنے والے بھی کراچی کے شہری تصور کیے جاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں تیسرے نمبر پر آنے والا شہر برصغیر میں مسلمانوں کی عزت و وقار کی علامت کراچی شہر ہے جسے مسلسل خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، چوری ڈکیتی کی وارداتوں سمیت امن وامان کے مسائل درپیش ہیں لیکن سب سے بڑے عجوبے کی بات ہے کہ شہر میں سیکیورٹی خدشات کے باوجودسیاسی جماعتیںایک دوسرے کی بیخ کنی میں لگی ہوئی ہیں۔
حکومتی اتحاد میں لمبے عرصے تک رہنے اور سرکاری وسائل کے استعمال کے باوجود تشویش ناک صورت حال یہ ہے کہ سیاستدان قانون شکنی، مافیا پروری اور سرکاری ونجی املاک کی لوٹ مار میں جتے ہوئے ہیں۔ پولیس تھانوں میں محصور ہوکر رہ گئی ہے اور خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ رینجرز کے شہر میں ہونے کے باوجود بھتہ خوری، قبضہ گیری، اغواء، ڈاکے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ پولیس اور رینجرز برائے نام آپریشنز میں سرگرم ہے لیکن نتائج صفر ہیں۔ آخر کیوں؟ آپریشن شروع ہونے سے قبل علاقہ مکین باخبر ہوتے ہیں، میڈیا آپریشن سے پہلے جائے وقوعہ پر موجود ہوتی ہے۔ 1992-1993 میں آپریشن ہونے کے بعد خبر ہوتی تھی اور علاقہ مکین انگشت بدنداں ہوتے تھے کہ کب آپریشن کا آغاز ہوا اور کب مکمل ہوا۔ اب ایسا ممکن کیوں نہیں؟ یہ ایسا سوال ہے کہ ارباب اختیار سمیت سکیورٹی ایجنسیاں جواب دینے سے قاصر ہیں۔
سپریم کورٹ کے استفسار پر رینجرز کراچی میں اپنا مقام بنانے سے قاصر ہے۔ پولیس کی کارکردگی سرکاری احکامات کی پابند کیوں ہے؟ یہ اور اس نوعیت کے بے شمار سوالات کراچی میں امن و امان کی بدحالی کے ذمے دار ہیں۔ ان کا جواب کس کے پاس ہے؟ اور کون ہے جو ان مسائل کے حل کی سعی کرے گا۔ کراچی میںرہنے والوں کو اب ہرحال میں سمجھ لینا چاہیے کہ عام لسانی اور سماجی گروپوں کے افراد کے آبائی شہر یا گاؤں وغیرہ ہیں اور وہ بالآخر اپنے آبائی علاقوں میں واپس چلے جائیں گے لیکن ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ انھیں ہرحال میں اسی شہر میں رہنا ہے۔ وہ پہلے ہی اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہندوستان سے پاکستان آچکے ہیں اور واپس ہرگز نہیں جاپائیں گے۔ یہی ان کا گھر، زمین، جائیداد ہے۔ اس کی ترقی میں ان کی ترقی ہے۔ اس کے امن و امان میں ان کی بقاء ہے لہٰذا اس کی تعمیر وترقی میں سب سے اہم کردار مہاجروں کا ہے۔
مہاجروں کو چاہیے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل بیٹھ کر شہر کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کوششیں کریں اور امن وامان کے قیام میں ممدومعاون ثابت ہوں۔ روزگار اور معاشی ترقی کے راستے ہموار کریں اور سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ آیندہ عام انتخابات کے شفاف اور پرامن انعقاد میں اپنا تعاون شامل کریں تاکہ ملک کی طرح کراچی میں جمہوری فضا بن سکے۔ یہ بھی قطعی ضروری نہیں کہ کوئی ایک پارٹی ہی کراچی میں نمایاں کامیابی حاصل کرے ۔ جماعت اسلامی، اے این پی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم خاص طور پر اور چند دیگر جماعتوں کے لوگ اس میدان میں جیت سکتے ہیں۔ اخلاقی اور جمہوری رواداری ہے کہ اپنی ہار کو خندہ پیشانی سے قبول کریں اور تمام پارٹیوں کی نمایندگی کو سراہیں۔الیکشن کے دوران خاص طور پر امن و امان کے سلسلے میں سکیورٹی اہلکاروں سے بھرپور تعاون کیا جائے اور قتل و غارت گری جیسی صورت حال میں خود اپنے تئیں کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ دہشت گردی اور تخریب کاری کا قلع قمع ہوسکے۔
کراچی جوکہ غریب پرور شہر ہے لہٰذا اس کی روشنیوں اور رعنائیوں کو مقامی لوگوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ آئے دن ہڑتال سے کراچی کی معاشی صورت حال بہت خراب ہورہی ہے اور اسی وجہ سے سرمایہ کاری کا فقدان بڑھتا چلا جارہا ہے۔ بیروزگاری کی شرح میں اضافہ تشویش ناک ہے جس سے شہر کراچی تو متاثر ہورہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملکی اقتصادی صورت حال بھی خرابی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ کراچی سب کا ہے کوئی جماعت یا پارٹی اس کو استعمال نہیں کرسکتی البتہ مہاجرین کی سب سے بڑی قوت اس کے سنبھالنے میں موثر کردار ادا کرسکتی ہے۔