نئے حکمران اعلیٰ کے نام عوام کا کھُلا خط

بخدمت جناب نئے حاکم اعلیٰ ۔ السلام علیکم ، سب سے پہلے آپ کو اقتدار مبارک ہو ۔


S Nayyer May 13, 2013
[email protected]

بخدمت جناب نئے حاکم اعلیٰ ۔ السلام علیکم ، سب سے پہلے آپ کو اقتدار مبارک ہو ۔ بعد مبارک سلامت کے ، آپکی خدمت میں اُن ووٹروں کی طرف سے چند گذارشات پیشِ خدمت ہیں ، جن کے ووٹوں کے بل بوتے پر آپ مسندِ اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ اِس سے قبل کہ حسبِ روایت آپ اِن ووٹروں کو عرصہ پانچ سال تک کے لیے بھول جائیں ، آپکی خدمت میں درج ذیل معروضات پیش کرنے کی جسارت کی جاتی ہے ۔ اُمید ہے توّجہ فرمائیں گے ۔

جنابِ عالی ! ہم یہاں صرف اپنا ایک مسئلہ آپ کے سامنے لا رہے ہیں اگر آپ جلد سے جلد صرف ایک اِسی مسئلے کا حل تلاش کرسکیں تو ہم یہ سمجھیں گے کہ ہمارا ووٹ ضایع نہیں ہوا ۔ اور وہ مسئلہ ہے ، بجلی کا بُحران ۔ جنابِ عالی ۔ یوں تو یہ مسئلہ گزشتہ کئی برسوں سے میڈیا پر زیرِبحث ہے ، لیکن اِس کے چند بنیادی پہلو آج تک زیرِ بحث نہیں لائے گئے ۔ یہ تو سب ہی کہتے رہے ہیں کہ بجلی نہ ہونے کے باعث انڈسٹریاں بند ہو رہی ہیں ۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن جناب ہم ووٹروں کی سماجی زندگی پر اِس بُحران نے جو اثرات مُرتب کیے ہیں اور جس طرح ہمارا کلچر تبدیل ہوا ہے اُس کے چند نمونے آپ کی خدمت میں پیش ہیں ۔

جنابِ والا ۔ بجلی جانے کے بعد ، جب اُس کے آنے کا وقت ہوتا ہے تو غریب ووٹروں کے محلّوں میں ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے ۔ کوئی موٹرکھولنے دوڑتا ہے تا کہ پانی اُوپر چڑھایا جاسکے ۔ کوئی بالٹی لے کر گلی کے نلکے کی طرف دوڑ لگا دیتا ہے ۔ گلی والے پائپ لائن سے ڈنکی پمپ مُنسلک کر کے پیشگی تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔ بجلی آنے کے بعد جیسے ہی پمپ چلتا ہے ، بالٹی اور بالٹی مالکان کی آپس میں اُٹھا پٹخ شروع ہوجاتی ہے ۔ گھروں میں خواتین واشنگ مشین کی طرف دوڑ لگا دیتی ہیں ۔ بچے اپنی یونیفارم استری کرنے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں ۔ کوئی اپنی دستاویزات کی فوٹو کاپی کروانے کے لیے فوٹو اسٹیٹ مشین کی دکان کی طرف بھاگتا ہے ۔

موٹر سائیکل مالکان اپنی پنکچر موٹر سائیکلوں کا ہینڈل پکڑ کر پیدل ، پنکچر والے کی دکان کی طرف تیز قدموں سے جاتے نظر آتے ہیں ۔ ٹائر میں اگر کیل موجود ہو تو پوری ٹیوب چھلنی ہوجاتی ہے ۔ درزی حضرات کھانا پینا چھوڑ کر اپنی مشینوں سے لپٹ جاتے ہیں ۔ دوپٹہ پیکو کرنے والے اور کاج بنانے والے اِس دوران کسی کی کوئی بات سُننے کے روادار نہیں ہوتے ہیں ، کیونکہ وقت کم ہوتا ہے اور مقابلہ سخت ۔ پیٹ کی سمجھ میں ویسے بھی لوڈ شیڈنگ یا لوڈ مینجمنٹ کی اصطلاحیں نہیں آتی ہیں ۔ شادی بیاہ میں شرکت کرنا مقصود ہو ، آفس جانا ہو یا پھر نوکری کے انٹرویو کے لیے جانا ہو تو واشنگ فیکٹری سے بروقت کپڑوں کا ملنا قطعی غیر یقینی ہو چکا ہے ۔ موٹر گاڑیوں کے مکینک اور مالکان چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے جن کا تعلق لیتھ مشینوں سے ہو ، ہاتھ پر ہاتھ دھرے گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں ۔ گھروں میں بچے کمپیوٹر پر گیم کھیلنے کے لیے لڑنا شروع ہوجاتے ہیں ۔

کیونکہ محدود وقت میں تمام بچوں کی باری آنا مُحال ہوتا ہے ۔ خواتین نے کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد ٹی وی ڈرامے دیکھنے چھوڑ دیے ہیں ۔ وہ وقت اب خواب لگتا ہے ، جب تمام گھر والے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ڈرامہ سیریل دیکھا کرتے تھے ۔ اب عوام ٹی وی دیکھنے سے قبل وال کلاک دیکھتے ہیں کہ مکمل ڈرامہ دیکھ پائیں گے یا نہیں ؟ کیبل پر کوئی اچھی فلم آرہی ہو تو اِس خوف سے نہیں دیکھی جاتی کہ فلم کا اختتام دیکھنے کو نہیں ملے گا ۔ کرکٹ کے میچ میں عوام کی لا شعوری خواہش یہ ہوتی ہے کہ بجلی موجود رہنے کے دورانیئے میں پاکستان بیٹنگ کرے ، لیکن ٹاس عوام کی اِس خواہش پر پانی پھیر دیتا ہے ۔ جنابِ عالی یہ تو اُس عذاب کا ذکر ہے ، جو علانیہ لوڈشیڈنگ نے عوام کی سماجی زندگی پر مسلط کیا ہوا ہے ۔ لیکن اِس سے کہیں زیادہ زندگی کو اذیت ناک غیر علانیہ اور غیر مُعیّنہ عرصے تک کے لیے غائب ہوجانے والی بجلی نے بنا رکھا ہے۔

'' بجلی '' ہمسائے سے مانگے ہوئے زیور کی طرح ہو کر رہ گئی ہے ، ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے چلے جانے کا ۔ چھوٹے چھوٹے بُک نما دو دو کمروں کے فلیٹ میں رہنے والے بیمار بزرگ خود کو جیتے جی جہنم میں محسوس کرنے لگے ہیں ۔ نہ اُٹھ سکتے ہیں ، نہ احتجاج کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ یہ جان سکتے ہیں کہ چھت پر لگا پنکھا مزید کتنے گھنٹوں کے بعد حرکت میں آئے گا ۔ یو پی ایس مالکان بھی پریشان ہیں ۔ کیونکہ بیٹری ریچارج کرنے کے لیے بھی تو بجلی ہی درکار ہوتی ہے ۔ جنریٹر والے اپنے ماہانہ بجٹ کو رو رہے ہیں ۔ بجلی کا بل اور گیس کا بل ، کیونکہ جنریٹر عموماً گیس سے ہی چلایا جاتا ہے ۔ یا پھر مہنگا پیٹرول کا بل ؟ وہ کیا کیا ادا کریں ؟ متوسط طبقے کو اِس جنریٹر نے کنگال کر کے متوسط نچلے طبقے کی صف میں دھکیل دیا ہے ۔

عوام کو کے ای ایس سی کے بلوں نے مار دیا ہے۔ عوام بجلی کا مطالبہ کریں تو جواب میں اُنہیں تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کی خوشخبری سُنائی جاتی ہے ، جو ابھی تک زیرِ زمین ہی ہے اور جس سے بجلی بنانے کے لیے قومی خزانے میں رقم موجود ہی نہیں ہے۔ عوام بجلی مانگتے ہیں ، لیکن اُنہیں جواب میں این ایف سی ایوارڈ اُٹھارویں ترمیم ، اُنیسویں ترمیم ، الیکشن کمیشن کی تقرری اور دیگر اداروں کے افسران کی تعیناتی کے طریقہ کار طے کیے جانے کی خوشخبری دی جاتی ہے ۔ جنابِ عالی ! ہمارا آپ سے صرف ایک ہی سوال ہے کہ ہم این ایف سی ایوارڈ کو بلب کے ہولڈرمیں بلب کی جگہ کیسے لگائیں ؟ اور اٹھارویں ترمیم کو کس طریقے سے استعمال کر کے پنکھے اور موٹر کی طرح گھُمایا جاسکتا ہے ؟ براہ کرم میڈیا پر اِن کے طریقہ استعمال سے عوام کو آگاہ کر کے اُنہیں شکریہ کا موقع دیں ۔

والسلام پُر اُمید عوام ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں