اندھے راستے

شام میں ہونے والی ہولناک خانہ جنگی سے جو تباہیاں پیدا ہورہی ہیں انھیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے کیا بچہ ۔۔۔


Shehla Aijaz May 13, 2013

شام میں ہونے والی ہولناک خانہ جنگی سے جو تباہیاں پیدا ہورہی ہیں انھیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے کیا بچہ اورکیا جوان کیا عورت اور کیا بوڑھا سب ظلم و بربریت کی داستانوں کے کردار بنے ہیں، یہ سلگتا ہوا ملک کیسے ان عفریتوں کا شکار ہوا، اپنے اپنوں کے دشمن ہوگئے، جیسے زمین میں بنے بل کھا گئے ہوں، جن سے دشمن بھر بھر کر معصوم لوگوں پر ٹوٹ رہے ہوں،ان تصاویر کی خونی کہانی یقینا آپ بھی فیس بک پر دیکھتے رہتے ہیں جو جنونیت کی کون سی شکل ہے جس نے خون کے تمام رشتے ایک طرف رکھ دیے ہیں۔ مقدس جگہوں اور مقامات کا تقدس کیسے پامال کیا جارہا ہے دیکھ کر خون کے آنسو رونے لگتے ہیں اور لبوں سے صرف دعائیں نکلتی ہیں۔

مسلمانوں پر یہ وقت بڑا کڑا آن پڑا ہے ہم اپنے آپ کو پروردگار کا ماننے والا جان کر نجانے کس احساس برتری میں مبتلا ہوکر اپنے آپ کو ایسے حالات میں ڈال دیتے ہیں جہاں آہوں سسکیوں اور بددعاؤں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہمارا منتظر رہتا ہے۔ حال ہی میں دمشق کے ایک نواحی علاقے میں محترم صحابی حضرت حجر بن عدی کے مزار کی جس طرح بے حرمتی کی گئی جس کی مثال عیسائیت میں بھی نہیں ملتی۔ جماعت القاعدہ ہو یا طالبان، حزب اللہ ہوں یا جنداللہ جب ناموں کے ساتھ پروردگار کے ایسے خوبصورت نام جڑ جاتے ہیں تو ذمے داری خود ہی عود کر آتی ہے لیکن یہاں الٹا ہی ہورہا ہے حاکم بھی مسلمان اور باغی بھی مسلمان پھر بھی نفرت کا الاؤ ہے کہ دہکے جارہا ہے۔

یہ عظیم صحابی جن کی آنکھوں نے میرے آقا دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف دیدار کیا تھا بلکہ ان کے ہی ہاتھوں اسلام قبول کیا تھا۔ کیسا عجیب زمانہ ہے اس روح فرسا واقعے پر خوش ہوں کہ جس کے باعث ہمیں بھی اس بابرکت ہستی کا پروردگار نے دیدار کرایا کہ جنھیں آپ کو چومنے چھونے اور دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی یا فریاد کروں کہ ایسے پاک وجود کو نجانے کسی طرح گناہ گار ہاتھوں نے چھوا ہوگا کہ جنہوں نے آپ کے مزار کی بے حرمتی کی اور آپ کی قبر کو کھودنے کی جرأت کی اور خود اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا کہ بابرکت ہستیوں کی تو زمین بھی بے حرمتی نہیں کرتی۔ یہ درست ہے کہ ربّ العزت کی جانب سے مرنے کے بعد انسانی وجود کا دفن کرنے کے بعد مٹی میں مل جانا بھی ایک قدرتی عمل ہے ،سائنسی اصطلاح میں اسے Decompose ہونا کہتے ہیں لیکن یہی شاید ایک ایسا عمل ہے جو مرنے کے بعد ربّ العزت کی جانب سے انسانوں کے قد کی اصل شناخت کرتا ہے دنیا میں کسی بھی انسان کا قد کسی بھی لحاظ سے کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو اللہ ربّ العزت کے حضور اس کا قد کتنا بلند ہے یہ کون جانتا ہے لیکن اس دنیا میں بسنے والے انسانوں کے لیے پھر بھی اوپر والے نے اپنی واضح نشانیاں چھوڑدی ہیں اور بتادیا کہ دیکھ اے انسان میں اپنے چاہنے والے سے بھی اس قدر محبت کرتا ہوں اور یہی وہ پیمانہ محبت ہے کہ جس کی پیمائش صرف اوپر والی بابرکت ذات ہی کرتی ہے۔

مذہبی جنونیت کا بڑھتا ہوا رجحان بہت سے کم عقل مسلمانوں کو اندھیرے راستوں کی جانب لے جا رہا ہے، خودبخود اسلام کے کھلے پیغام میں اپنی کم ذہنیت کے باعث گرہیں لگانے والے گروہوں میں تقسیم ہوئے جا رہے ہیں جس کا کھل کر وہ مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ غالباً سال بھر پہلے کی بات ہے کراچی ہی کے ایک مضافاتی علاقے میں کسی مسلک سے متعلق مسجد میں ایک صاحب جو خاصے پڑھے لکھے اور مذہبی رجحان کے حامل تھے پڑوس میں ہونے کے باعث نماز پڑھنے کی غرض سے چلے گئے جہاں انھیں امام صاحب کی کسی بات پر اعتراض ہوا انھوں نے دبے لفظوں میں احتجاج کیا اور رسپانس نہ پاکر چپ چاپ نماز مکمل کرکے چل دیے۔ چند روز بعد ان کی خاتون خانہ اپنی پانچ چھ سالہ بیٹی کے ساتھ کہیں جارہی تھیں ابھی گھر سے زیادہ دور نہ گئی تھیں محترمہ شرعی پردہ کرتی تھیں وہ خود بھی خاصی پڑھی لکھی اور دین دار خاتون ہیں۔

اس مسجد سے اتفاقاً کچھ لوگ نکلے پڑوسی ہونے کے باعث سب جانتے تھے کہ یہ کون صاحبہ ہیں جو اپنی بچی کے ساتھ جارہی ہیں ان میں سے کسی نے زمین میں سے ایک پتھر اٹھایا اور ان کو دے مارا۔ بے چاری خاتون کے وہ پتھر بہت زور سے لگا وہ زمین پر گر پڑی وہ شرانگیز تو پتھر پھینک کر اسکوٹر پر رفوچکر ہوگئے لیکن ان صاحبہ کے سر سے خون نکلنے لگا، بچی گھبرا کر رونے لگی کسی رکشے والے کی مدد سے وہ ڈاکٹر کے کلینک پہنچیں۔ اس واقعے نے ان صاحب کی آنکھیں کھول دیں اور انھوں نے ہمیشہ کے لیے اس مسجد میں جانے سے بھی توبہ کرلی۔ کیا پڑوسی ہونے کے ناتے ایسا سلوک درست تھا؟ اور کیا ایک معصوم عزت دار خاتون ایسے ناروا سلوک کے قابل تھی؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کیونکہ ہم نے مذہب کو اپنے اغراض و مقاصد کے طور پر بھی استعمال کرنا شروع کردیا ہے، لوگوں میں اپنے آپ کو مقبول بنانے کے لیے یا زیادہ عزت کمانے کے شوق میں اپنا کاروبار چمکانے کے لیے اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے بہت سے نئے طور طریقے اور بدعتیں شامل کرلی گئی ہیں یہ نئی راہیں، یہ بھول بھلیاں آج کے مسلمان کو کن راہوں پر لے کر جارہی ہیں خدا جانے۔۔۔۔!

حضرت حجر بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق روایت ہے کہ آپ سارا دن اور رات ایک ہزار رکعت نماز نوافل ادا کرتے تھے آپ نے کم عمری میں ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں اسلام قبول کیا تھا۔ اسلام کی تاریخ اٹھاکر دیکھیے بہت سے واقعات ایسے نظر آتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ایک دور میں کوئی اپنا ہی ایسا آستین کا سانپ بن کر ابھرا جس کے ڈسے کا تاریخ میں سرخ رنگ سے ذکر ہے۔ شاید یہ شیطان کا ہی عمل ہے جو ایک مسلمان کو دنیا کی چاہ اور ہوس میں ایسا لگا دیتا ہے کہ اسے سوائے دنیا داری اور اپنے رعب و دبدبے میں کچھ نہیں سوجھتا۔ آج تک مختلف ادوار میں شیطان یہ کام بخوبی انجام دیتا آیا ہے اور انسان اس کا حواری بن کر خوب ساتھ نبھاتا آیا ہے۔

آج دنیا بھر میں اسلام کو دہشت گردی کے حوالے سے بدنام کرنے والوں میں اگر غیرمسلم قوتیں شامل ہیں تو کم ہمارے اپنے مسلمان بھی نہیں جو مختلف ناموں اور تنظیموں کے حوالے سے اپنی دھاک بٹھاتے رہتے ہیں کیا وہ اللہ کے بندوں پر اس کا خوف بٹھانا چاہتے ہیں یا اپنی دہشت سے اللہ کے بندوں کو اپنے رعب میں لانا چاہتے ہیں، اس بیچ میں کیا آتا ہے بدنام کون ہوتا ہے کسی کو کسی سے کوئی غرض نہیں۔

رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں