زبان خلق پر دھاندلی کے فسانے

پچھلے الیکشن کے دوران ہونے والی دھاندلی کی چند وڈیوز بھی سامنے لائی گئیں۔


توقیر چغتائی July 30, 2018

موجودہ الیکشن کی طرح اس کے نتائج بھی سست روی کا شکار رہے، جس کی وجہ سے ملک بھر کی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ عام شہری بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہوئے اور ہارنے والوں کے ساتھ جیتنے والوں نے بھی بعض حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر دیا۔

الیکشن کمیشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنے والوں میں کوئی ایک جماعت نہیں بلکہ ملک کی بہت ساری سیاسی جماعتوں کے ساتھ انسانی حقوق اور سماجی تنظمیوں کے کارکن بھی میدان میں کود پڑے ہیں اور اپنے اپنے خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ الیکشن کے ابتدائی چند گھنٹوں کے دوران ہی ملک کے مختلف علاقوں سے سیاسی پارٹیوں کے نمایندوں اور ووٹرز کی شکایات کا سلسلہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے لگا، جس نے بڑھتے بڑھتے اتنی شدت اختیار کی کہ اس کی گونج بین الاقوامی میڈیا میں بھی سنائی دینے لگی۔

الیکٹرونک میڈیا پہلے دن صرف اس تجزیے میں مصروف رہا کہ کس علاقے سے کیا نتائج آئے ہیں اور کتنے باقی ہیں، جس کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والی زیادہ تر سرگرمیوں پر سوشل میڈیا کا ہی راج رہا۔ اس دوران پچھلے الیکشن کے دوران ہونے والی دھاندلی کی چند وڈیوز بھی سامنے لائی گئیں، مگر انھیں بے نقاب کرنے والے بھی پوری طرح تیار بیٹھے تھے۔

ملک کے دوسرے بڑے شہروں کی نسبت کراچی اور لاہور کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ ان میں اہم اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کے مرکزی دفاتر موجود ہیں، لہذا کسی بھی اہم سماجی یا سیاسی سرگرمی کی کوریج کے لیے باہر سے آنے والے سرکردہ صحافی اور تجزیہ کار پہلے سے ہی یہاں جمع ہو جاتے ہیں۔ موجودہ الیکشن کے موقعے پر اس شہر میں دوسروں کے علاوہ معروف صحافی اور مصنف سہیل وڑائچ بھی اپنی ماہرانہ رائے کے لیے پہنچے تو آرٹس کونسل میں ان کی نئی کتاب ''دی پارٹی از اوور'' کی تقریب منعقد کرائی گئی مگر اس تقریب میں کتاب سے زیادہ موجودہ الیکشن ہی موضوع بحث رہے۔

اس تقریب کے علاوہ سول سوسائٹی کے اتحاد سے بنائی گئی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے ایک سیمینار کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس میں الیکشن اور ملک کی سیاسی صورت حال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی لیکن الیکشن کمیشن اور دھاندلی کے موضوعات کو ہی اہمیت حاصل رہی۔ معروف صحافی امتیاز عالم کے علاوہ لندن سے آئے ہوئے مشتاق لاشاری، سینیٹر رضا ربانی، یوسف مستی خان بلوچ، اختر حسین ایڈووکیٹ اور کرامت علی جہاں اس سیمینار میں موجود تھے وہاں انسانی حقوق اور سماجی تنظیموں سے جڑے وہ کارکن بھی شریک تھے جنھوں نے الیکشن کے دوران سامنے آنے والی خامیوںکا انتہائی قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔

بلوچستان کی سیاسی سرگرمیوں میں کراچی نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی زیادہ تر سیاسی جماعتوں کی تشکیل بھی اسی شہر میں ہوئی۔ موجودہ الیکشن کے دوسرے دن اور اس سیمینار سے قبل کراچی پریس کلب میں نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما میر حاصل خان بزنجو نے اپنی پارٹی کے دو اہم رہنماؤں رمضان میمن اور ایوب قریشی کے ساتھ مل کر الیکشن کمیشن پر تنقید کی ابتدا کر دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں مگر اس کے نتائج کہیں اور سے ترتیب دیے جا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں موجودہ الیکشن ملک کا سب سے بدترین الیکشن تھا، جس میں الیکشن کمیشن نے اس وقت ہی اپنی دھاندلی کا آغاز کر دیا تھا جب بلوچستان میں نگران حکومت بنائی گئی تھی۔

یاد رہے کہ اس الیکشن پر کسی ایک پارٹی یا کسی مخصوص دھڑے کو اعتراضات نہیں تھے بلکہ پہلے دن سے ہی ملک کے مختلف سیاسی اور سماجی دھڑوں کی جانب سے اس کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ اس سے قبل سوشل میڈیا پر بائیں بازو کی ملک گیر جماعت عوامی ورکرز پارٹی کے صدر فانوس گجر نے خیبر پختونخوا کے مرکزی علاقے بونیر میں الیکشن کی صورت حال کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے حلقے میں ووٹ ڈالنے والے چھوٹے چھوٹے گروہوں پر اپنی مرضی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ عوامی ورکرز پارٹی کے امیدواروں نے قومی اسمبلی کی آٹھ اور صوبائی اسمبلی کی گیارہ نشستوں پر موجودہ انتخاب میں حصہ لیا تھا اور اس کے مرکزی صدر فانوس گجر این اے نائن بونیر سے الیکشن لڑ رہے تھے۔

الیکشن میں سماجی اور سیاسی دھڑوں کے خدشات کا سلسلہ اس وقت عروج پر پہنچا جب جے یو آئی کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے الیکشن میں شدید دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس طلب کر لی تھی۔ اس کانفرنس میں ایسی جماعتوں کے سربراہ بھی نظر آئے جو نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں مگر الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر سب کی رائے ایک تھی۔

کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی بھی دوسری جماعتوں کے اس خیال سے متفق نظر آئی کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن اس کے رہنما اس بات سے متفق نہیں تھے کہ نئی اسمبلی میں احتجاجاً اپنے عہدے کا حلف نہ اٹھایا جائے، مسلم لیگ نون نے بھی اس فیصلے پر اپنی رائے کو محفوظ رکھا مگر جب تک اس کی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں آتا تب تک صورت حال پوری طرح واضح ہونا انتہائی مشکل ہے۔

اس کے باوجود پچھلے چند ماہ کے دوران اس پارٹی کے ساتھ جو واقعات پیش آئے انھیں دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود اگر وہ حزب اختلاف میں بیٹھنے کو ترجیح دیتی ہے تو نئی حکومت کو نہ صرف انتہائی سخت مرحلے سے گزرنا پڑے گا، بلکہ مستقبل میں اس کے لیے سول سوسائٹی، بائیں بازو کی جماعتوں اور غیر جانبدار حلقوں کو اس بات کا یقین دلانا بھی انتہائی مشکل ہو گا کہ موجودہ الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی۔

موجودہ انتخابات پر سب سے بڑا سوالیہ نشان وہ حلقے بھی ہیں جن میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی اور نتائج کو نہ صرف ہارنے والے بلکہ جیتنے والے بھی تسلیم نہیں کر رہے۔ ووٹروں کی جانب سے جس طرح ابتدا میں الیکشن پر بے جا سست روی کا الزام لگایا جاتا رہا اسی طرح نتائج کے اعلان میں تاخیر پر بھی کڑی تنقید جاری ہے۔

اس تنقید میں صرف تحریک انصاف، مسلم لیگ ق اور ایک دو چھوٹی جماعتوں کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ صرف ایم کیو ایم ہی واحد جماعت ہے جو الیکشن میں دھاندلی کا الزام بھی لگا رہی ہے اور نئی حکومت میں شامل ہونے کے سوال پر کھل کر اظہار بھی نہیں کر رہی، لیکن ماضی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے اور عامر خان کے خیالات سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا کچھ مشکل نہیں کہ اپنی روز بروز کمزور ہوتی حیثیت کو سہارا دینے کے لیے جہانگیر ترین سے ملاقات کے بعد ایم کیو ایم بھی حزب اختلاف کی خار دار سیٹوں پر بیٹھنے کے بجائے حکومت کے آرام دہ ایوان میں بیٹھنے کو ترجیح دے گی۔

پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہر جمہوری حکومت حزب اختلاف کی تنقید، احتجاج اور الزامات کا نشانہ بننے کے بعد آدھی مدت پوری کرنے سے قبل ہی ختم کر دی گئی۔ پچھلے دس برسوں کے دوران وجود میں آنے والی دو حکومتوں میں سے پیپلز پارٹی تو ٹوٹنے یا برخاست ہونے سے محفوظ رہی مگر اس کے وزیراعظم کو اپنے عہدے کی قربانی دینا پڑی۔

مسلم لیگ نون کی حکومت بھی انتہائی مشکلات، دھرنوں، الزامات اور احتجاج کے باوجود محفوظ تو رہی مگر اس کے وزیراعظم کو جیل کی ہوا کھانا پڑی، لیکن موجودہ الیکشن کے بعد وجود میں آنے والی حکومت چند برسوں یا مہینوں کے بجائے چند دنوں میں ہی بہت سارے خطرات میں گھری دکھائی دیتی ہے، جس کا الزام سوائے الیکشن کمیشن کے کسی اور کو اس لیے نہیں دیا جا سکتا کہ سوشل میڈیا کے علاوہ اس کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں