انتخابی نتائج کا ایک مثبت پہلو
لاہور میں ایک امیدوار نے جیت کی خوشی میں فائرنگ کرتے ہوئے پولیس پر بھی تشدد کر دیا ہے۔
پاک فوج ملکی سلامتی کا ادارہ ہے۔ پاکستان کے دشمن ہر وقت پاک فوج کے خلاف سازشیں کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ عالمی سطح پر پاک فوج کے خلاف سازشیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بھارت کی سازشیں بھی کوئی راز نہیں ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس سازش میں اب ملک کے اندر سے بھی کردار شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
دشمن کو پاکستان کے اندر ایسے ایجنٹ مل گئے ہیں جو مختلف نعروں سے کسی نہ کسی طرح پاک فوج کے خلاف بات کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ پاکستان کے اندر پاک فوج کو متنازعہ بنانے کی ایک عالمی سازش اور کھیل پر کام شروع ہو چکا ہے۔آج عالمی میڈیا میں انتخابات کے حوالے سے بھی ایک منفی مہم جاری ہے۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ دھاندلی کا الزام لگانے والی سیاسی جماعتوں نے بھی اس ضمن میں پاک فوج پر کوئی الزام نہیں لگایا۔
پاک فوج نے انتخابات میں اپنی ذمے داریاں نہائت احسن طریقہ سے ادا کی ہیں۔ ان کے خلاف کسی کو کوئی شکائت نہیں۔انتخابی نتائج نے پاک فوج کے خلاف کیے جانیو الے بہت سے ڈرامے بھی فلاپ کر دئے ہیں۔ بہت سی سیاسی تھیوریوں کو بھی دفن کر دیا ہے۔ الیکشن سے پہلے سب مجھے سمجھا رہے تھے کہ چوہدری نثار علی خان کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہو گئی ہے۔ انھیں الیکشن کے بعد مرکزی کردار دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔وہی فاردڑ بلاک کی قیادت کریں گے۔ کوئی مجھے سمجھا رہا تھا کہ وہ پنجاب کے اگلے وزیر اعلیٰ ہیں۔
کوئی مجھے سمجھا رہا تھا کہ اقتدار کی کنجی ان کے پاس ہوگی۔ لیکن دیکھ لیں آج وہ کہاں ہیں۔ کہاں گئی وہ تھیوریاں۔کس کس کی بات کریں۔ پورا پاکستان مجھے سمجھا رہا تھا کہ پاک سرزمین اسٹیبلشمنٹ کی لے پالک ہے۔ یہ درست ہے کہ کراچی کے نتائج پر سب کو حیرانی ہے لیکن مصطفیٰ کمال کے ساتھ جو ہوا ہے وہ صاف بتا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کسی معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ ٹھیک ہارے ہیں۔ انتخابی نتائج پر تحفظات پر انکارنہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہہ اگر اسٹیبلشمنٹ کا انتخانی نتائج پر ایک فیصد بھی اختیار ہوتا تو شائد مصطفیٰ کمال کو تو محفوظ راستہ دے دیا جاتا ۔
یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ الیکشن سے پہلے وفاداریاں تبدیل کروانے میںاسٹیبشمنٹ کا کردار ہے۔ یہ تاثر قائم کیا جا رہا تھا کہ جیتنے والے گھوڑے جمع کر کے تحریک انصاف کو دئے جا رہے ہیں۔ لیکن انتخابی نتائج نے اس ضمن میںبھی تمام مفروضے غلط ثابت کر دئے ہیں۔ آپ رضا حیات ہراج کا انجام دیکھ لیں۔ ندیم افضل چن کی ہار کو دیکھ لیں۔ نذر گوندل کی ہار کو دیکھ لیں۔ صمصام بخاری، شوکت بسرا کو دیکھ لیں۔ ضعیم قادری کا انجام دیکھ لیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ادارہ اپنے مہرے ہی مروا دے۔
اسی طرح سندھ میں شور تھا کہ جی ڈی اے کچھ کرے گا۔جی ڈی اے اور تحریک انصاف کی انڈر اسٹینڈنگ بھی تھی ۔ لیکن دیکھ لیں جی ڈی اے کہاں دفن ہو گیا ہے۔ آپ بلوچستان کو دیکھ لیں۔ سب کہہ رہے تھے کہ باپ کو بنایا گیا ہے۔ باپ جیتے گی۔ باپ کی واضع اکثریت ہو گی۔ باپ کو ایک خاص مقصد کے تحت بنایا گیا ہے۔ جس طرح سینیٹ کے انتخابات میں بلوچستان کی خاص اہمیت تھی اسی طرح قومی اسمبلی میں بھی بلوچستان کی بھی ایک خاص اہمیت ہو گی۔ لوگ قومی اسمبلی میں ایک نئے سنجرانی کو دیکھ رہے تھے۔ لیکن کیا ہوا۔ باپ تو بلوچستان میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کر سکی ہے۔
قومی اسمبلی میں تو ان کا کردار ہی ختم ہو گیا ہے۔لوگ کہہ رہے ہیں کہ صرف تحریک انصاف کو جتوانے کے لیے سب کو مار دیا گیا ہے۔ لیکن دکھ کی بات تو یہ ہے کہ بیچاری تحریک انصاف کو بھی کچھ نہیں ملا۔ مرکز میں نمبر پورے نہیں ہیں۔ پنجاب میں نمبر پورے نہیں ہیں۔ کے پی کے مینڈیت پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ اگر کوئی ڈیزائن تھا۔ جس کے لیے سارے لاڈلے مروائے جارہے تھے اور ایک کو نوازنے کی پالیسی تھی تو کم از کم اسے تو مکمل نواز دیا جاتا۔ اب تو ایسی صورتحال ہے جو ہار گئے ہیں وہ تو رو ہی رہے ہیں جو جیت گئے ہیں وہ بھی رو رہے ہیں۔
محمود خان اچکزئی کا انجام دیکھ لیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کو فاٹا پر ایک غلط موقف لے بیٹھا۔ جس کی وجہ سے کے پی کی عوام نے انھیں مسترد کر دیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ انتخابات سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے فاٹا کے معاملہ پر جو موقف اختیار کیا شائد کے پی کی عوام کو یہ پسند نہیں آیا۔
حالیہ انتخابات کے نتائج تحریک انصاف کے سوا کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ایک بحرانی کیفیت ہے۔ تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے چیف الیکشن کمشنر سے استعفیٰ مانگ لیا ہے۔
آخرمیں لاہور میں ہونے والے ایک وقوع پر لکھنا چاہتا ہوں۔ لاہور میں ایک امیدوار نے جیت کی خوشی میں فائرنگ کرتے ہوئے پولیس پر بھی تشدد کر دیا ہے۔ آئی جی پنجاب کلیم امام نے بروقت اقدام کیا ہے۔ پولیس نے نو منتخب رکن کے خلاف پرچہ بھی درج کر لیا ہے۔ کلیم امام بیچارے پولیس اہلکاروں کی عیادت کے لیے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ اسپتال بھی پہنچے ہیں۔ نو منتخب رکن فرار ہیں۔ پولیس اس کی گرفتاری کے خلاف چھاپے مار رہی ہے۔ لیکن اس رکن کی سیاسی جماعت خاموش ہے۔ اس ضمن میں بس آئی جی پنجاب کو ہی خراج تحسین پیش کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کم از کم ایکشن تو لیا ہے۔مجھے اندازہ ہے کہ ان پر کس قدر دباؤ ہے۔ لیکن ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے کلیم امام کو ثابت قدم رہنا ہوگا۔