سپریم کورٹ نے پنجاب کی 56 کا اسکینڈل نیب کو بھجوا دیا 10 روز میں رپورٹ طلب
3 لاکھ سے زائد تنخواہ والے افسران کو پیشی کا حکم، پیسے واپس کریں ورنہ ہم نکلوالیں گے، عدالت
سپریم کورٹ نے پنجاب کی56کمپنیوں میں کرپشن کا معاملہ نیب کو بھجواتے ہوئے10روز میں رپورٹ طلب کر لی۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بینچ نے سماعت کی، اس دوران کمپنیوں کے سی ای اوز، چیف سیکریٹری پنجاب اور ڈی جی نیب لاہور پیش ہوئے، کمپنیوں کے سی ای اوز نے موقف اختیار کیا کہ ان کا تقرر میرٹ پر کیا گیا تاہم سپریم کورٹ نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، چیف جسٹس پاکستان نے حکم دیا کہ 3 لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے تمام سی ای اوز نیب میں پیش ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے آئی ڈی پی کے سی ای او پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ آپ کا کیا تجربہ ہے کہ 11 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں، فل بینچ نے حیرت کا اظہار کیا کہ اورنج لائن ٹرین، فاسٹ ٹریک اور دیگر منصوبے ایک ہی ٹھیکیدار کو کیسے دیے گئے، چیف جسٹس نے کہاکہ کسی کو خیال ہی نہیں کہ یہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے، اگر کوئی پیسے واپس نہیں کرے گا تو ہم نکلوا لیں گے، انھوں نے نیب کو ہدایت کی کہ زائد تنخواہیں لینے پر اگر ریفرنس بنتا ہے تو ریفرنس بھی دائر کیا جائے۔
دریں اثنا چیف جسٹس نے سرگودھا میں آراو سے بدتمیزی کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کو 24 گھنٹے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ بدتمیزی کرنے والوں کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے، عدالت نے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے سینئر ترین پروفیسر کو قائم مقام وائس چانسلر لگانے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈین کی جانب سے سفارش کرنے کا بھی نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ڈین بتائیں آپ کی تعیناتی کیسے ہوئی، چیف جسٹس نے لاہور کالج فار ویمن میں 30روز کے اندر میرٹ کے مطابق نیا وی سی لگانے کی ہدایت کی جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈین سے متعلق بھی رپورٹ طلب کر لی۔
عدالت نے مسلم لیگ ن کے سابق رکن پنجاب اسمبلی غلام دستگیر کی سابق بیوی غزالہ تحسین کی جانب سے نان و نفقہ کی ادائیگی کے متعلق کیس میں ماتحت عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا ریکارڈ طلب کر لیا، خاتون نے بتایا کہ سابق شوہر بچوں کا خرچ ادا نہیں کر رہا، غلام دستگیر نے بیوی پر الزام لگایا کہ یہ بچے اس کے نہیں ہیں، چاہیں تو ڈی این اے ٹیسٹ کروالیں، چیف جسٹس نے انہیں الزامات لگانے سے روک دیا اور واضح کیا کہ قانون کے تحت وہ سابق شوہر کیخلاف مقدمہ درج کرا سکتی ہے۔