یوم آزادی‘ یوم عزم
پاکستان میں تعلیمی شعبے میں پائی جانے والی خرابیاں دور کرنے پر...
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 2 مارچ 1941کو ایم ایس ایف کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ''کسی قوم کو ایک مملکت کا حکمران اور ملک چلانے کے قابل بنانے کے لیے کم از کم تین بڑے ستونوں کی ضرورت ہوتی ہے' پہلا ستون تعلیم ہے۔ تعلیم کے بغیر آپ بالکل ویسی ہی حالت میں ہوں گے جیسی کہ کل رات اس پنڈال میں اندھیرے میں تھی۔
تعلیم کے ساتھ آپ اس حالت میں ہوں گے جیسے اب دن کے اس چکاچوند اجالے میں ہیں۔ دوسرے کوئی قوم اس وقت تک کوئی بڑا کام نہیں کر سکتی جب تک وہ کاروبار' تجارت اور صنعت و حرفت کے میدان میں معاشی طور پر مستحکم نہ ہو اور تیرے جب آپ تعلیم کے ذریعے علم کی روشنی حاصل کر لیں اور جب آپ معاشی' تجارتی اور صنعتی اعتبار سے خود کو مضبوط اور مستحکم کر لیں تو آپ کو اپنے دفاع کے لیے تیار ہونا چاہیے یعنی بیرونی جارحیت سے بچائو اور اندرونی امن و امان برقرار رکھنے کے لیے''۔
آج جب ہم اس خطاب کے اکہتر بہتر برس اور ایک آزاد پاکستان کے قیام کے پینسٹھ برس بعد بحیثیت قوم اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آئے گی کہ ہم اس طویل عرصے میں کسی ملک کو چلانے کے اہل ہونے کی پہلی دو شرطیں ہی پوری کرنے کے قابل نہیں ہو سکے ہیں۔ ہم تعلیم کے شعبے میں وہ ترقی ہی نہیں کر سکے ہیں ایک زمانے میں جس کا خواب دیکھا کرتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کئی دوسرے معاملات کو تعلیم پر فوقیت دی اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر کم سے کم خرچ کرنے کی کوشش کی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں شرح خواندگی پچاس اور ساٹھ فیصد کے درمیان کہیں اٹکی ہوئی ہے جب کہ اسی خطے کے کئی دوسرے ممالک تعلیم کے حوالے سے ہم سے کہیں آگے ہیں جن میں سری لنکا اور ایران سب سے نمایاں ہے جب کہ 25 برس تک ہمارے قومی وجود کا حصہ رہنے والا بنگلہ دیش بھی اس شعبے میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
اس خرابی بسیار کی وجہ کیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی شعبہ زندگی میں اصلاحات لانے کی اہمیت و افادیت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا بشرطیکہ ان اصلاحات سے اس شعبہ میں ترقی اور بہتری کی کوئی راہ نکلتی ہو اور معاشرے کے کسی طبقے کا استحصال نہ ہوتا ہو۔ یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان میں تعلیمی شعبے میں پائی جانے والی خرابیاں دور کرنے پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ اس شعبے میں بہت پیچھے رہ جانے کی یہی سب سے بنیادی وجہ ہے۔
ہمارا تدریسی نظام ناقص اور ہمارے تعلیمی اداروں میں طالب علم اور معلم دونوں کے لیے سہولتوں کی شدید قلت ہے جس کی وجہ سے نہ تو طالب علم دل لگا کر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہمارا معلم پوری دل جوئی کے ساتھ فروغ تعلیم میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ارباب بست و کشاد اس جانب توجہ دیں تاکہ شعبہ تعلیم میں ترقی کی رفتار کو مہمیز کیا جا سکے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 30 اکتوبر 1947 کو لاہور میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ''ہماری قوم کے لیے تعلیم زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ اگر آپ نے خود کو زیور تعلیم سے آراستہ نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ آپ پیچھے رہ جائیں گے بلکہ خدانخواستہ بالکل ہی ختم ہو جائیں گے۔
اپنی غفلت سے ہم نے قائد اعظم کی اس پیش گوئی کو سچ ثابت کر دکھایا ہے' ہم تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں' اب بھی اگر ہم اس خواب غفلت سے نہ جاگے تو خدانخواستہ بطور ایک قوم ہمارے ختم ہونے کا مرحلہ بھی آ سکتا ہے۔ ایسا وقت آنے سے پہلے ہمیں خود کو سنبھالنا ہو گا کہ اسی میں ہماری بقاو سالمیت بھی پوشیدہ ہے۔کاروبار' تجارت اور صنعت و حرفت کے میدان میں معاشی استحکام کی بات کی جائے تو یہ بھی ندارد ہے۔
یہاں دہشت گردی' بے یقین سیاسی صورتحال اور انتہا پسندی نے اپنے پائوں اس قدر مضبوط کر لیے ہیں کہ نہ تو کوئی اطمینان کے ساتھ کاروبار کر سکتا ہے اور نہ زندگی کے دیگر معمولات ہی مناسب طریقے سے سرانجام دے سکتا ہے۔ تجارت کی صورتحال یہ ہے کہ ہم آزادی سے لے کر اب تک درآمدات زیادہ کر رہے ہیں اور برآمدات کم ہوتی ہیں اس طرح یہ معاملہ بھی ایک طرح سے زرمبادلہ کے بیش قدر ذخائر پر بوجھ ثابت ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں اس وقت تک بہتری نہیں آئے گی جب تک درآمدات و برآمدات میں توازن قائم کرنے کی ٹھوس کوششیں نہیں ہوں گی۔
پاکستان کی پہلی سالگرہ پر 14 اگست 1948ء کو اپنے ایک بیان میں قائد اعظم نے فرمایا تھا ''ہمارے دشمنوں نے پاکستان کو پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ کر ختم کر دینے کی کئی طریقوں سے کوششیں کیں اور ان تمام کوششوں میں ناکام و مایوس ہو کر انھوں نے سمجھا کہ معاشی سازشوں سے وہ مقصد باآسانی حاصل ہو جائے گا جو ان کے دل کے بہت قریب ہے۔ دلیل بازی اور فصاحت و بلاغت کی پوری طاقت سے' جو کینہ اور رقابت ایجاد کر سکتی تھی وہ انھوں نے کر دکھائی' انھوں نے پیش گوئی کی کہ پاکستان بہت جلد دیوالیہ ہو جائے گا اور یوں دشمن کی تلوار اور بھڑکائی ہوئی آگ جو مقصد حاصل نہ کر سکی' وہ مملکت کے بگڑے ہوئے تباہ شدہ مالی حالات سے خود بخود حاصل ہو جائے گا لیکن ان جھوٹے نجومیوں کو زبردست مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ہمارا پہلا بجٹ ہی اللہ کے فضل و کرم سے فاضل بجٹ ہے۔ تجارت کا توازن ہمارے حق میں ہے اور معاشی میدان کے ہر شعبے میں ترقی صاف صاف نظر آتی ہے''۔
آج لگتا ہے کہ قائد کی یہ پیش گوئی بھی سچ ثابت ہو رہی ہے کیونکہ ہم مالی پریشانیوں کا شکار ہیں اور اس کی وجہ بھی بالکل سامنے کی بات ہے کہ ہم نے اپنے پائوں اپنی چادر سے زیادہ پھیلا لیے ہیں چنانچہ ضروری ہو چکا ہے کہ نہ صرف چادر کا سائز بڑھانے کی کوشش کی جائے بلکہ پائوں بھی کچھ سمیٹے جائیں یعنی بچت کی جائے اور سادگی اپنائی جائے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ تعلیم اور صنعت و تجارت کے برعکس ہم نے دفاعی لحاظ سے کافی ترقی کی ہے عساکر پاکستان ہر طرح کے اسلحے سے لیس اور ہر نوعیت کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یوں تو ہمارے فوجی جوانوں کے عزم اور ارادے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے تاہم ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ملک کو ایٹمی اسلحے سے بھی لیس کر دیا گیا ہے اور اب ہمارے کسی بھی دشمن کی یہ جُرات نہیں ہو سکتی کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔ 23جنوری1948ء کو پاکستان نیوی سے اپنے خطاب میں قائد اعظم نے کہا تھا ''اقوام متحدہ کا ادارہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو جائے' اپنے وطن کے دفاع کی بنیادی ذمے داری ہماری ہی رہے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان تمام خطرات اور آنے والے حوادث سے مقابلہ کرنے کے لیے بالکل تیار رہے۔
اس ناقص دنیا میں کمزوری اور نہتا پن دوسروں کو حملہ کرنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے لیکن امن عالم کی بہتر خدمت صرف اس طرح ہی ہو سکتی ہے کہ ہم ان لوگوں کو' جو ہمیں کمزور سمجھ کر ہم پر حملہ کرنے یا چھا جانے کی نیت رکھتے ہوں' موقع ہی نہ دیں۔ یہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب ہم اتنے مضبوط ہو جائیں کہ کسی کو ہماری طرف بری نیت سے دیکھنے کی جرات نہ ہو سکے''۔ یوں غالباً یہ واحد شعبہ ہے جس میں پاکستان قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر بن چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر شعبوں میں بھی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے تبھی اس ملک کو وہ دل خواہ ترقی دی جا سکے گی جس کا خواب اس ملک کے قیام کی تحریک میں حصہ لینے والوں اور قربانیاں دینے والوں نے دیکھا تھا۔ آج کا دن اس حوالے سے تجدید عزم کے لیے بہترین ہے۔
تعلیم کے ساتھ آپ اس حالت میں ہوں گے جیسے اب دن کے اس چکاچوند اجالے میں ہیں۔ دوسرے کوئی قوم اس وقت تک کوئی بڑا کام نہیں کر سکتی جب تک وہ کاروبار' تجارت اور صنعت و حرفت کے میدان میں معاشی طور پر مستحکم نہ ہو اور تیرے جب آپ تعلیم کے ذریعے علم کی روشنی حاصل کر لیں اور جب آپ معاشی' تجارتی اور صنعتی اعتبار سے خود کو مضبوط اور مستحکم کر لیں تو آپ کو اپنے دفاع کے لیے تیار ہونا چاہیے یعنی بیرونی جارحیت سے بچائو اور اندرونی امن و امان برقرار رکھنے کے لیے''۔
آج جب ہم اس خطاب کے اکہتر بہتر برس اور ایک آزاد پاکستان کے قیام کے پینسٹھ برس بعد بحیثیت قوم اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آئے گی کہ ہم اس طویل عرصے میں کسی ملک کو چلانے کے اہل ہونے کی پہلی دو شرطیں ہی پوری کرنے کے قابل نہیں ہو سکے ہیں۔ ہم تعلیم کے شعبے میں وہ ترقی ہی نہیں کر سکے ہیں ایک زمانے میں جس کا خواب دیکھا کرتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کئی دوسرے معاملات کو تعلیم پر فوقیت دی اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر کم سے کم خرچ کرنے کی کوشش کی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں شرح خواندگی پچاس اور ساٹھ فیصد کے درمیان کہیں اٹکی ہوئی ہے جب کہ اسی خطے کے کئی دوسرے ممالک تعلیم کے حوالے سے ہم سے کہیں آگے ہیں جن میں سری لنکا اور ایران سب سے نمایاں ہے جب کہ 25 برس تک ہمارے قومی وجود کا حصہ رہنے والا بنگلہ دیش بھی اس شعبے میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
اس خرابی بسیار کی وجہ کیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی شعبہ زندگی میں اصلاحات لانے کی اہمیت و افادیت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا بشرطیکہ ان اصلاحات سے اس شعبہ میں ترقی اور بہتری کی کوئی راہ نکلتی ہو اور معاشرے کے کسی طبقے کا استحصال نہ ہوتا ہو۔ یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان میں تعلیمی شعبے میں پائی جانے والی خرابیاں دور کرنے پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ اس شعبے میں بہت پیچھے رہ جانے کی یہی سب سے بنیادی وجہ ہے۔
ہمارا تدریسی نظام ناقص اور ہمارے تعلیمی اداروں میں طالب علم اور معلم دونوں کے لیے سہولتوں کی شدید قلت ہے جس کی وجہ سے نہ تو طالب علم دل لگا کر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہمارا معلم پوری دل جوئی کے ساتھ فروغ تعلیم میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ارباب بست و کشاد اس جانب توجہ دیں تاکہ شعبہ تعلیم میں ترقی کی رفتار کو مہمیز کیا جا سکے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 30 اکتوبر 1947 کو لاہور میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ''ہماری قوم کے لیے تعلیم زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ اگر آپ نے خود کو زیور تعلیم سے آراستہ نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ آپ پیچھے رہ جائیں گے بلکہ خدانخواستہ بالکل ہی ختم ہو جائیں گے۔
اپنی غفلت سے ہم نے قائد اعظم کی اس پیش گوئی کو سچ ثابت کر دکھایا ہے' ہم تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں' اب بھی اگر ہم اس خواب غفلت سے نہ جاگے تو خدانخواستہ بطور ایک قوم ہمارے ختم ہونے کا مرحلہ بھی آ سکتا ہے۔ ایسا وقت آنے سے پہلے ہمیں خود کو سنبھالنا ہو گا کہ اسی میں ہماری بقاو سالمیت بھی پوشیدہ ہے۔کاروبار' تجارت اور صنعت و حرفت کے میدان میں معاشی استحکام کی بات کی جائے تو یہ بھی ندارد ہے۔
یہاں دہشت گردی' بے یقین سیاسی صورتحال اور انتہا پسندی نے اپنے پائوں اس قدر مضبوط کر لیے ہیں کہ نہ تو کوئی اطمینان کے ساتھ کاروبار کر سکتا ہے اور نہ زندگی کے دیگر معمولات ہی مناسب طریقے سے سرانجام دے سکتا ہے۔ تجارت کی صورتحال یہ ہے کہ ہم آزادی سے لے کر اب تک درآمدات زیادہ کر رہے ہیں اور برآمدات کم ہوتی ہیں اس طرح یہ معاملہ بھی ایک طرح سے زرمبادلہ کے بیش قدر ذخائر پر بوجھ ثابت ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں اس وقت تک بہتری نہیں آئے گی جب تک درآمدات و برآمدات میں توازن قائم کرنے کی ٹھوس کوششیں نہیں ہوں گی۔
پاکستان کی پہلی سالگرہ پر 14 اگست 1948ء کو اپنے ایک بیان میں قائد اعظم نے فرمایا تھا ''ہمارے دشمنوں نے پاکستان کو پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ کر ختم کر دینے کی کئی طریقوں سے کوششیں کیں اور ان تمام کوششوں میں ناکام و مایوس ہو کر انھوں نے سمجھا کہ معاشی سازشوں سے وہ مقصد باآسانی حاصل ہو جائے گا جو ان کے دل کے بہت قریب ہے۔ دلیل بازی اور فصاحت و بلاغت کی پوری طاقت سے' جو کینہ اور رقابت ایجاد کر سکتی تھی وہ انھوں نے کر دکھائی' انھوں نے پیش گوئی کی کہ پاکستان بہت جلد دیوالیہ ہو جائے گا اور یوں دشمن کی تلوار اور بھڑکائی ہوئی آگ جو مقصد حاصل نہ کر سکی' وہ مملکت کے بگڑے ہوئے تباہ شدہ مالی حالات سے خود بخود حاصل ہو جائے گا لیکن ان جھوٹے نجومیوں کو زبردست مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ہمارا پہلا بجٹ ہی اللہ کے فضل و کرم سے فاضل بجٹ ہے۔ تجارت کا توازن ہمارے حق میں ہے اور معاشی میدان کے ہر شعبے میں ترقی صاف صاف نظر آتی ہے''۔
آج لگتا ہے کہ قائد کی یہ پیش گوئی بھی سچ ثابت ہو رہی ہے کیونکہ ہم مالی پریشانیوں کا شکار ہیں اور اس کی وجہ بھی بالکل سامنے کی بات ہے کہ ہم نے اپنے پائوں اپنی چادر سے زیادہ پھیلا لیے ہیں چنانچہ ضروری ہو چکا ہے کہ نہ صرف چادر کا سائز بڑھانے کی کوشش کی جائے بلکہ پائوں بھی کچھ سمیٹے جائیں یعنی بچت کی جائے اور سادگی اپنائی جائے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ تعلیم اور صنعت و تجارت کے برعکس ہم نے دفاعی لحاظ سے کافی ترقی کی ہے عساکر پاکستان ہر طرح کے اسلحے سے لیس اور ہر نوعیت کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یوں تو ہمارے فوجی جوانوں کے عزم اور ارادے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے تاہم ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ملک کو ایٹمی اسلحے سے بھی لیس کر دیا گیا ہے اور اب ہمارے کسی بھی دشمن کی یہ جُرات نہیں ہو سکتی کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔ 23جنوری1948ء کو پاکستان نیوی سے اپنے خطاب میں قائد اعظم نے کہا تھا ''اقوام متحدہ کا ادارہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو جائے' اپنے وطن کے دفاع کی بنیادی ذمے داری ہماری ہی رہے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان تمام خطرات اور آنے والے حوادث سے مقابلہ کرنے کے لیے بالکل تیار رہے۔
اس ناقص دنیا میں کمزوری اور نہتا پن دوسروں کو حملہ کرنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے لیکن امن عالم کی بہتر خدمت صرف اس طرح ہی ہو سکتی ہے کہ ہم ان لوگوں کو' جو ہمیں کمزور سمجھ کر ہم پر حملہ کرنے یا چھا جانے کی نیت رکھتے ہوں' موقع ہی نہ دیں۔ یہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب ہم اتنے مضبوط ہو جائیں کہ کسی کو ہماری طرف بری نیت سے دیکھنے کی جرات نہ ہو سکے''۔ یوں غالباً یہ واحد شعبہ ہے جس میں پاکستان قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر بن چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر شعبوں میں بھی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے تبھی اس ملک کو وہ دل خواہ ترقی دی جا سکے گی جس کا خواب اس ملک کے قیام کی تحریک میں حصہ لینے والوں اور قربانیاں دینے والوں نے دیکھا تھا۔ آج کا دن اس حوالے سے تجدید عزم کے لیے بہترین ہے۔