گھر بیٹھے کھانا پکانا بھی بن گیا ہے کاروبار
دفاتر میں کام کرنے والے اکثر افراد بھی بازار کے کھانے کے بجائے گھر کے پکے ہوئے صاف ستھرے کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
''بہن تمہارے ہاتھ میں بڑا ذائقہ ہے مجھے بھی شامی کباب تو بنا دینا۔''
''تم کھیر بہت اچھی بناتی ہو۔ بیٹی کے سسرال والے آنے والے ہیں، ان کے لیے کھیر بنا دینا۔''
''بھابھی! آپ کے کیک کا جواب نہیں، بیٹی کی سال گرہ آنے والی ہے، کیک تو آپ ہی کو بنانا ہے۔''
اپنوں کے درمیان مختلف کھانوں کی فرمائشیں بہت مان سے کی جاتی ہیں۔ برس ہا برس سے کھانا پکاکر پڑوسیوں، سہیلیوں یا خاندان میں بھیجنا ہماری روایت کا حصہ رہا ہے، اسی لیے کئی خواتین خاندان بھر میں اپنے ہاتھ کے تیار کردہ بہترین کھانوں کے ذائقے کی وجہ سے مشہور ہوتی ہیں۔ بدلتے وقت نے جہاں ہماری اقدار پر اثر ڈالا، وہیں بڑھتی ہوئی منہگائی کی وجہ سے کئی خواتین نے کھانا پکانے کو کاروبار کی شکل دے دی ہے اور اپنی معاشی خوش حالی کے لیے کوشاں ہیں، جب کہ کچھ خواتین نے اس کاروبار کا شوقیہ آغاز کیا ہے۔ عام طور پر لوگ گھر کا پکا ہوا کھانا پسند کرتے ہیں۔
دفاتر میں کام کرنے والے اکثر افراد بھی بازار کے کھانے کے بجائے گھر کے پکے ہوئے صاف ستھرے کھانے کو ترجیح دیتے ہیں، کیوں کہ یہ ذائقے دار ہونے کے ساتھ صحت کے لیے بھی بہترین ہوتا ہے۔ اسی لیے اکثر دفاتر میں بھی خواتین اپنے گھر سے ٹفن تیار کرکے بھیجتی ہیں۔ کھانا پکانے کے اس کاروبار سے وابستہ خواتین نے اس کا آغاز کیسے کیا اور ان کا طریقۂ کار کیا ہے، یہ سب جاننے کے لیے ہم نے مختلف خواتین سے اس کی بابت معلوم کیا، ان کے جو جواب ملے، وہ ہم من و عن اپنے قائین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں:
٭سارہ فاروق:
''ساراز کچن'' کی روح رواں سارہ فاروق نے ہمیں بتایا کہ میرے بزنس کو ڈیڑھ سے دو سال ہوچکے ہیں۔ بہ فضل خدا ابتدا میں کپ کیکس اور آئس کریم سے آغاز کیا تھا اور اب نمکین اشیا اور فروزن آئٹمز بھی اس میں شامل کیے ہیں۔ خود کو مصروف رکھنے کے لیے میں کچھ کرنا چاہتی تھی تو اسی کے مدنظر میں نے اس بزنس کا آغاز کیا، کیوں کہ بزنس اگر اچھا ہوجائے تو معاشی طور پر استحکام بخشتا ہے۔ اس بزنس میں شرح منافع تو کم رکھنی پڑتی ہے، کیوں کہ مارکیٹ سے کم قیمت ہوگی تو لوگ خریدیں گے ورنہ نہیں۔ اس میں منافع بھی اسی وقت ہوسکتا ہے جب ایسی جگہ سے خریداری کریں جہاں سے کم دام میں اشیا دست یاب ہوں۔ گھر کے آس پاس یا محلے کی دکانوں سے خریدنے میں ہماری پسندیدہ اشیا کافی مہنگی ملتی ہیں، اس لیے میرا منافع اتنا زیادہ نہیں ہو پاتا۔ اور جب شرح منافع زیادہ رکھو تو آرڈر کم آتے ہیں۔ آرڈر لینے کا طریقہ یہ ہے کہ فیس بک پر میرے پیج پر لوگ آرڈر کردیتے ہیں۔
آئس کریم، کیک یا جس چیز کا بھی آرڈر دینا ہو، وہ لینے کے بعد میں ان کو کنفرمیشن میسیج کردیتی ہوں۔ دو دن قبل آرڈر لیتی ہوں ۔ جب میں نے بزنس اسٹارٹ کیا تو بہ فضل خدا میرے شوہر نے مجھے بہت سپورٹ کیا، میری امی کی طرف سے مجھے بہت حوصلہ افزائی ملی۔ ان کا کہنا تھا کہ ''تم ہمت کرو، خدا نے چاہا تو سب اچھا ہوجائے گا۔''
شادی سے قبل میرا کیکس کا بزنس تھا۔ آرڈر لیتی تھی، بیک کرتی تھی۔ یہ پیج ''ساراز کچن'' تو ابھی بنایا ہے اور آن لائن بزنس کر رہی ہوں البتہ شوق تو تھا۔ میری امی میری حوصلہ افزائی کرتی تھیں اور بار بار کہتی تھیں کہ ''تم کرسکتی ہو۔'' پھر میں نے شروع کیا اور بہ فضل خدا اچھا ہوا، آج آپ میرے پیج پر دیکھ سکتی ہیں۔ لائکس اور لوگوں کے ستائشی تبصرے موجود ہیں۔ اس کے ساتھ یہ نہیں ہوا کہ میرا گھر ڈسٹرب ہوتا، میں سب کو ساتھ لے کر چلتی ہوں، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ تم گھر کا کام نہیں کررہیں۔ میں نے کبھی کسی کو شکایت نہیں ہونے دی۔ ایسا ہوتا ہے تو میں رات میں آرڈر مکمل کرلیتی ہوں۔ میرے بزنس کے حوالے سے ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سب سے پہلا آرڈر میری امی مجھے دیتی تھیں۔ چاہے وہ کیکس ہوں، آئس کریم ہو، نئے فلیور کی آئس کریم ہو۔ میں کہتی تھی کہ امی میں آپ کو ایسے ہی دے رہی ہوں تو وہ کہتی تھیں:''نہیں بیٹا! تم نے بزنس اسٹارٹ کیا ہے۔ ہمارا آرڈر لوگی تو ہم لیں گے ورنہ نہیں۔ اور مجھے لگتا ہے، کیوں کہ وہ میرے لیے لکی ثابت ہوتا تھا۔ میں امی کا آرڈر لیتی تھی اور اس کے بعد مجھے خدا کے فضل و کرم سے بہت آرڈر مل جاتے تھے۔
٭شاعرین احمد:
''کچن آنٹی'' کے نام سے طالبات میں مقبول شاعرین کو اس کام کا آغاز کیے تقریباً چھے سال ہوگئے ہیں۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ اس کام کا آغاز کرنے کا خیال اس طرح آیا کہ جب میری بیٹی یہ فیصلہ کرنا چاہ رہی تھی کہ وہ کون سا مضمون منتخب کرے۔ وہ Castronomy and Culinary Management میں گریجویشن کرنا چاہتی تھی، اس لیے ہم نے پورا بزنس سیٹ کیا۔ کھانا پکانا، مینیو سیٹنگ، اشیا کی قیمت خرید وغیرہ۔ اس سے میری بیٹی کو یہ مدد ملی کہ اس نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ہاں یہ میرے لیے موزوں ہے جس کے متعلق مجھے پڑھنا بھی ہے اور کام بھی کرنا ہے، اور چوں کہ ہمارے گھر کے سامنے نجی یونی ورسٹی ہے تو ہمارے لیے بہ فضل خدا سب بہت آسان تھا۔ میرے مینیو میں کافی چیزیں شامل ہیں۔ مثلاً کھاؤسے، سنگاپورین رائس، ہر قسم کے پاستا، ریڈسوس، وائٹ سوس، مختلف قسم کی بریانی اور پلاؤ وغیرہ اور وہ بھی جو اسٹوڈنٹس کھانا چاہیں۔ ان کی پسند کے مطابق بھی بہت سی چیزیں بنتی ہیں۔ میری خاص ڈشز کھاؤسے اور کچھ بیکڈ پاستا ہیں۔ میرا کوئی بزنس پارٹنر نہیں ہے، کیوں کہ یہ کوئی بہت بڑا بزنس نہیں ہے۔ یہ میں گھر سے کر رہی ہوں تو سارا کام میں خود کرتی ہوں۔ ایک لڑکا ہے جو سبزیوں کو کاٹنے اور اسٹوڈنٹس تک تیار ڈشز پہنچانے میں میری مدد کرتا ہے۔ جب یہ طلبہ اور طالبات آکر یہ کہتے ہیں کہ آنٹی ہم فلاں چیز کبھی نہیں کھاتے تھے، لیکن آپ کے ہاتھ کا کھانا کھا کر ہمیں اچھا لگتا ہے۔ یا یہ بتاتے ہیں کہ آپ ہماری امی کی طرح پکاتی ہیں یا آپ کے کھانے کا ذائقہ بالکل گھر کے کھانے جیسا ہے تو بہت اچھا لگتا ہے۔ اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ جو لوگ اس بزنس میں آنا چاہتے ہیں، وہ ضرور آئیں۔ لیکن اپنی تمام ذمے داریوں کو نبھاتے ہوئے کام کریں اور منافع کا نہ سوچیں۔ منافع بہ تدریج ملتا ہے اور ضرور ملتا ہے، لیکن اس کے لیے الگ سے محنت کرنی پڑتی ہے۔ ایسی جگہ سے خریداری کریں جہاں سے سستا سامان ملے، اس لیے یا تو آپ شرح منافع پر نظر رکھیں یا اچھا کھانے پکانے پر توجہ دیں۔ میرے لیے یہ زیادہ اہم ہے کہ میرے کھانے کی تعریف ہو، میری نظر میں یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ میں زیادہ پیسے کماؤں، اس لیے میرے لیے یہ منافع بخش کاروبار نہیں ہے۔ آرڈر لینے کا طریقہ یہ ہے کہ میرے واٹس ایپ گروپس ہیں اور میسیجز گروپس ہیں۔ میں روز ایک نئی چیز بناتی ہوں تو ایک رات پہلے اس کا نام اور قیمت لکھ دیتی ہوں۔ یا تو میرے کسٹمر پہلے سے آرڈر دے دیتے ہیں یا عین وقت پر بھی آکر خرید لیتے ہیں تو اتنا ہوتا ہے کہ سب کو ہوجائے۔
٭وجیہہ زبیر:
وجیہہ زبیر کو اس کاروبار کا آغاز کیے دو ماہ ہوچکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے اپنی بیٹی کے نام سے اپنے گھر سے اس کام کا آغاز کیا۔ اس کا نام ''ہادیاز کچن'' (Hadia's Kitchen)ہے۔ رمضان میں سب رشتے دار مجھ سے فروزن فوڈ بنواتے ہیں۔ اس رمضان میں، میں نے باقاعدہ پیج بناکر کاروبار کا آغاز کردیا۔ کاروبار کا آغاز کرنے کی سب سے بڑی وجہ میری بیٹی کا اسکول ہے۔ دراصل ہادیہ کے اسکول میں پارٹی ہوئی تھی جس میں زیادہ تر بچے بازار کے بنے ہوئے پزا، سموسے، برگر، چکن اسٹکس وغیرہ لے کر آئے تھے۔ اس طرح کی غذا بچوں کے لیے مضر صحت ہوتی ہے۔ مرغی سے لے کر تمام اجزا معیاری نہیں ہوتے۔ بس کاروبار کا آغاز کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی۔ شروع میں صرف فروزن فوڈ تھا۔ لیکن اب بہ فضل خدا سب کچھ ہے۔ ہانڈی، اچار گوشت، شامی کباب۔ میرے ساتھ کوئی مددگار نہیں ہے۔ لیکن اشیا کی خریداری میں میرے شوہر میرا بہت ساتھ دیتے ہیں۔ اگر کسی کو اچھا کھانا پکانا آتا ہے تو اسے یہ کام ضرور کرنا چاہیے۔ اس میں منافع تو ہے۔ اگر کسی بھی کام کا ایمان داری سے آغاز کریں تو فائدہ تو ہوتا ہے۔ آرڈر پیج کے ذریعے آتے ہیں۔ فیس بک پیج ''ہادیاز کچن''(Hadia's Kitchen) کے ذریعے لوگ رابطہ کرتے ہیں اور اس طرح ہمارا کام آگے بڑھتا رہتا ہے۔
''تم کھیر بہت اچھی بناتی ہو۔ بیٹی کے سسرال والے آنے والے ہیں، ان کے لیے کھیر بنا دینا۔''
''بھابھی! آپ کے کیک کا جواب نہیں، بیٹی کی سال گرہ آنے والی ہے، کیک تو آپ ہی کو بنانا ہے۔''
اپنوں کے درمیان مختلف کھانوں کی فرمائشیں بہت مان سے کی جاتی ہیں۔ برس ہا برس سے کھانا پکاکر پڑوسیوں، سہیلیوں یا خاندان میں بھیجنا ہماری روایت کا حصہ رہا ہے، اسی لیے کئی خواتین خاندان بھر میں اپنے ہاتھ کے تیار کردہ بہترین کھانوں کے ذائقے کی وجہ سے مشہور ہوتی ہیں۔ بدلتے وقت نے جہاں ہماری اقدار پر اثر ڈالا، وہیں بڑھتی ہوئی منہگائی کی وجہ سے کئی خواتین نے کھانا پکانے کو کاروبار کی شکل دے دی ہے اور اپنی معاشی خوش حالی کے لیے کوشاں ہیں، جب کہ کچھ خواتین نے اس کاروبار کا شوقیہ آغاز کیا ہے۔ عام طور پر لوگ گھر کا پکا ہوا کھانا پسند کرتے ہیں۔
دفاتر میں کام کرنے والے اکثر افراد بھی بازار کے کھانے کے بجائے گھر کے پکے ہوئے صاف ستھرے کھانے کو ترجیح دیتے ہیں، کیوں کہ یہ ذائقے دار ہونے کے ساتھ صحت کے لیے بھی بہترین ہوتا ہے۔ اسی لیے اکثر دفاتر میں بھی خواتین اپنے گھر سے ٹفن تیار کرکے بھیجتی ہیں۔ کھانا پکانے کے اس کاروبار سے وابستہ خواتین نے اس کا آغاز کیسے کیا اور ان کا طریقۂ کار کیا ہے، یہ سب جاننے کے لیے ہم نے مختلف خواتین سے اس کی بابت معلوم کیا، ان کے جو جواب ملے، وہ ہم من و عن اپنے قائین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں:
٭سارہ فاروق:
''ساراز کچن'' کی روح رواں سارہ فاروق نے ہمیں بتایا کہ میرے بزنس کو ڈیڑھ سے دو سال ہوچکے ہیں۔ بہ فضل خدا ابتدا میں کپ کیکس اور آئس کریم سے آغاز کیا تھا اور اب نمکین اشیا اور فروزن آئٹمز بھی اس میں شامل کیے ہیں۔ خود کو مصروف رکھنے کے لیے میں کچھ کرنا چاہتی تھی تو اسی کے مدنظر میں نے اس بزنس کا آغاز کیا، کیوں کہ بزنس اگر اچھا ہوجائے تو معاشی طور پر استحکام بخشتا ہے۔ اس بزنس میں شرح منافع تو کم رکھنی پڑتی ہے، کیوں کہ مارکیٹ سے کم قیمت ہوگی تو لوگ خریدیں گے ورنہ نہیں۔ اس میں منافع بھی اسی وقت ہوسکتا ہے جب ایسی جگہ سے خریداری کریں جہاں سے کم دام میں اشیا دست یاب ہوں۔ گھر کے آس پاس یا محلے کی دکانوں سے خریدنے میں ہماری پسندیدہ اشیا کافی مہنگی ملتی ہیں، اس لیے میرا منافع اتنا زیادہ نہیں ہو پاتا۔ اور جب شرح منافع زیادہ رکھو تو آرڈر کم آتے ہیں۔ آرڈر لینے کا طریقہ یہ ہے کہ فیس بک پر میرے پیج پر لوگ آرڈر کردیتے ہیں۔
آئس کریم، کیک یا جس چیز کا بھی آرڈر دینا ہو، وہ لینے کے بعد میں ان کو کنفرمیشن میسیج کردیتی ہوں۔ دو دن قبل آرڈر لیتی ہوں ۔ جب میں نے بزنس اسٹارٹ کیا تو بہ فضل خدا میرے شوہر نے مجھے بہت سپورٹ کیا، میری امی کی طرف سے مجھے بہت حوصلہ افزائی ملی۔ ان کا کہنا تھا کہ ''تم ہمت کرو، خدا نے چاہا تو سب اچھا ہوجائے گا۔''
شادی سے قبل میرا کیکس کا بزنس تھا۔ آرڈر لیتی تھی، بیک کرتی تھی۔ یہ پیج ''ساراز کچن'' تو ابھی بنایا ہے اور آن لائن بزنس کر رہی ہوں البتہ شوق تو تھا۔ میری امی میری حوصلہ افزائی کرتی تھیں اور بار بار کہتی تھیں کہ ''تم کرسکتی ہو۔'' پھر میں نے شروع کیا اور بہ فضل خدا اچھا ہوا، آج آپ میرے پیج پر دیکھ سکتی ہیں۔ لائکس اور لوگوں کے ستائشی تبصرے موجود ہیں۔ اس کے ساتھ یہ نہیں ہوا کہ میرا گھر ڈسٹرب ہوتا، میں سب کو ساتھ لے کر چلتی ہوں، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ تم گھر کا کام نہیں کررہیں۔ میں نے کبھی کسی کو شکایت نہیں ہونے دی۔ ایسا ہوتا ہے تو میں رات میں آرڈر مکمل کرلیتی ہوں۔ میرے بزنس کے حوالے سے ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سب سے پہلا آرڈر میری امی مجھے دیتی تھیں۔ چاہے وہ کیکس ہوں، آئس کریم ہو، نئے فلیور کی آئس کریم ہو۔ میں کہتی تھی کہ امی میں آپ کو ایسے ہی دے رہی ہوں تو وہ کہتی تھیں:''نہیں بیٹا! تم نے بزنس اسٹارٹ کیا ہے۔ ہمارا آرڈر لوگی تو ہم لیں گے ورنہ نہیں۔ اور مجھے لگتا ہے، کیوں کہ وہ میرے لیے لکی ثابت ہوتا تھا۔ میں امی کا آرڈر لیتی تھی اور اس کے بعد مجھے خدا کے فضل و کرم سے بہت آرڈر مل جاتے تھے۔
٭شاعرین احمد:
''کچن آنٹی'' کے نام سے طالبات میں مقبول شاعرین کو اس کام کا آغاز کیے تقریباً چھے سال ہوگئے ہیں۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ اس کام کا آغاز کرنے کا خیال اس طرح آیا کہ جب میری بیٹی یہ فیصلہ کرنا چاہ رہی تھی کہ وہ کون سا مضمون منتخب کرے۔ وہ Castronomy and Culinary Management میں گریجویشن کرنا چاہتی تھی، اس لیے ہم نے پورا بزنس سیٹ کیا۔ کھانا پکانا، مینیو سیٹنگ، اشیا کی قیمت خرید وغیرہ۔ اس سے میری بیٹی کو یہ مدد ملی کہ اس نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ہاں یہ میرے لیے موزوں ہے جس کے متعلق مجھے پڑھنا بھی ہے اور کام بھی کرنا ہے، اور چوں کہ ہمارے گھر کے سامنے نجی یونی ورسٹی ہے تو ہمارے لیے بہ فضل خدا سب بہت آسان تھا۔ میرے مینیو میں کافی چیزیں شامل ہیں۔ مثلاً کھاؤسے، سنگاپورین رائس، ہر قسم کے پاستا، ریڈسوس، وائٹ سوس، مختلف قسم کی بریانی اور پلاؤ وغیرہ اور وہ بھی جو اسٹوڈنٹس کھانا چاہیں۔ ان کی پسند کے مطابق بھی بہت سی چیزیں بنتی ہیں۔ میری خاص ڈشز کھاؤسے اور کچھ بیکڈ پاستا ہیں۔ میرا کوئی بزنس پارٹنر نہیں ہے، کیوں کہ یہ کوئی بہت بڑا بزنس نہیں ہے۔ یہ میں گھر سے کر رہی ہوں تو سارا کام میں خود کرتی ہوں۔ ایک لڑکا ہے جو سبزیوں کو کاٹنے اور اسٹوڈنٹس تک تیار ڈشز پہنچانے میں میری مدد کرتا ہے۔ جب یہ طلبہ اور طالبات آکر یہ کہتے ہیں کہ آنٹی ہم فلاں چیز کبھی نہیں کھاتے تھے، لیکن آپ کے ہاتھ کا کھانا کھا کر ہمیں اچھا لگتا ہے۔ یا یہ بتاتے ہیں کہ آپ ہماری امی کی طرح پکاتی ہیں یا آپ کے کھانے کا ذائقہ بالکل گھر کے کھانے جیسا ہے تو بہت اچھا لگتا ہے۔ اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ جو لوگ اس بزنس میں آنا چاہتے ہیں، وہ ضرور آئیں۔ لیکن اپنی تمام ذمے داریوں کو نبھاتے ہوئے کام کریں اور منافع کا نہ سوچیں۔ منافع بہ تدریج ملتا ہے اور ضرور ملتا ہے، لیکن اس کے لیے الگ سے محنت کرنی پڑتی ہے۔ ایسی جگہ سے خریداری کریں جہاں سے سستا سامان ملے، اس لیے یا تو آپ شرح منافع پر نظر رکھیں یا اچھا کھانے پکانے پر توجہ دیں۔ میرے لیے یہ زیادہ اہم ہے کہ میرے کھانے کی تعریف ہو، میری نظر میں یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ میں زیادہ پیسے کماؤں، اس لیے میرے لیے یہ منافع بخش کاروبار نہیں ہے۔ آرڈر لینے کا طریقہ یہ ہے کہ میرے واٹس ایپ گروپس ہیں اور میسیجز گروپس ہیں۔ میں روز ایک نئی چیز بناتی ہوں تو ایک رات پہلے اس کا نام اور قیمت لکھ دیتی ہوں۔ یا تو میرے کسٹمر پہلے سے آرڈر دے دیتے ہیں یا عین وقت پر بھی آکر خرید لیتے ہیں تو اتنا ہوتا ہے کہ سب کو ہوجائے۔
٭وجیہہ زبیر:
وجیہہ زبیر کو اس کاروبار کا آغاز کیے دو ماہ ہوچکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے اپنی بیٹی کے نام سے اپنے گھر سے اس کام کا آغاز کیا۔ اس کا نام ''ہادیاز کچن'' (Hadia's Kitchen)ہے۔ رمضان میں سب رشتے دار مجھ سے فروزن فوڈ بنواتے ہیں۔ اس رمضان میں، میں نے باقاعدہ پیج بناکر کاروبار کا آغاز کردیا۔ کاروبار کا آغاز کرنے کی سب سے بڑی وجہ میری بیٹی کا اسکول ہے۔ دراصل ہادیہ کے اسکول میں پارٹی ہوئی تھی جس میں زیادہ تر بچے بازار کے بنے ہوئے پزا، سموسے، برگر، چکن اسٹکس وغیرہ لے کر آئے تھے۔ اس طرح کی غذا بچوں کے لیے مضر صحت ہوتی ہے۔ مرغی سے لے کر تمام اجزا معیاری نہیں ہوتے۔ بس کاروبار کا آغاز کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی۔ شروع میں صرف فروزن فوڈ تھا۔ لیکن اب بہ فضل خدا سب کچھ ہے۔ ہانڈی، اچار گوشت، شامی کباب۔ میرے ساتھ کوئی مددگار نہیں ہے۔ لیکن اشیا کی خریداری میں میرے شوہر میرا بہت ساتھ دیتے ہیں۔ اگر کسی کو اچھا کھانا پکانا آتا ہے تو اسے یہ کام ضرور کرنا چاہیے۔ اس میں منافع تو ہے۔ اگر کسی بھی کام کا ایمان داری سے آغاز کریں تو فائدہ تو ہوتا ہے۔ آرڈر پیج کے ذریعے آتے ہیں۔ فیس بک پیج ''ہادیاز کچن''(Hadia's Kitchen) کے ذریعے لوگ رابطہ کرتے ہیں اور اس طرح ہمارا کام آگے بڑھتا رہتا ہے۔