پاک بھارت خفیہ اداروں کے مابین اشتراک کار کی تجویز

مغربی طاقتیں بالخصوص امریکا دونوں ہمسایہ ملکوں کے انٹیلی جنس...

بھارت اور پاکستان کے انٹیلی جنس سربراہوں کی ملاقات سے مطلوبہ مقصد بڑی حد تک حاصل ہوسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

ایک خبر کے مطابق پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کے خفیہ اداروں کے سربراہوں کے درمیان اشتراک کار کی تجویز پر غور کر رہے ہیں۔ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد اب بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے چند ماہ بعد متوقع دورہ پاکستان سے کافی امیدیں وابستہ ہو گئی ہیں۔ ذرایع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کے دورے سے قبل دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس سربراہوں کی ملاقات کا اہتمام کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ایک پاکستانی عہدے دار نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے سیکیورٹی اداروں کے درمیان اشتراک کار سمیت کئی تجاویز زیر غور ہیں تاہم اس نے کہا کہ اس مرحلے پر کوئی حتمی بات کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ایک اور عہدیدار نے انکشاف کیا کہ مغربی طاقتیں بالخصوص امریکا دونوں ہمسایہ ملکوں کے انٹیلی جنس سربراہوں کی ملاقات کرانے میں زبردست دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ امریکا چاہتا ہے اگلے برسوں میں امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہر صورت میں مستحکم رہیں لہٰذا یہ بین الاقوامی کھلاڑی سمجھتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے انٹیلی جنس سربراہوں کی ملاقات سے مطلوبہ مقصد بڑی حد تک حاصل ہوسکتا ہے۔


اس سلسلے میں کوششیں امریکا کے کہنے پر ہو رہی ہیں یا دونوں ملکوں کی قیادت کو از خود انٹیلی جنس رابطے بڑھانے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ایسے رابطے بڑھنے سے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب آنے کا موقع ملے گا اور باہمی طور پر جو غلط فہمیاں وقتاً فوقتاً جنم لیتی رہتی ہیں وہ پہلے کم اور بالآخر ختم ہو جائیں گی۔ اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ انٹیلی جنس شیئرنگ کے نتیجے میں ممبئی جیسے واقعات سے بچا جا سکے گا اور ان نان اسٹیٹ ایکٹرز کی سرگرمیوں کے بارے میں بروقت معلومات حاصل اور شیئر کی جا سکیں گی۔ پاکستان کو شکوہ ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی صوبہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں ملوث ہے اور اس سلسلے میں اسے افغانستان کے بعض عناصر کی حمایت' تائید اور مدد بھی حاصل ہوتی ہے۔ اگر دونوں ملکوں کے خفیہ اداروں کے مابین اشتراک کار قائم ہو جائے تو اس سلسلے میں بھی کھل کر بات کی جا سکے گی۔

پاکستان اور بھارت کے مابین اس طرح کے روابط بڑھانے کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد کی صورتحال میں افغانستان کے ساتھ ساتھ ان دونوں ملکوں کو بھی طالبان اور القاعدہ کی جانب سے چیلنجنگ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو اس نئی پیدا ہونے والی صورتحال میں ایک بار پھر ابھرنے اور اس خطے میں طاقت بڑھانے کی کوشش کریں گے تاکہ اپنے طویل المیعاد ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں۔ یہ امید بھی کی جا سکتی ہے کہ اگر بھارتی وزیر اعظم کے مجوزہ دورہ پاکستان سے قبل دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس سربراہوں کی ملاقات کا اہتمام کر لیا گیا تو پھر من موہن سنگھ کے اس دورے کو زیادہ بامقصد اور بارآور بنایا جا سکے گا۔
Load Next Story