پرستی

ہر قوم کا ایک مزاج ہے اور اس کے مطابق دنیا میں اس کا مقام آپ چاہیں تو ترقی کہہ لیں جس کا ہمیں بہت شوق ہے۔

ہر انسان کچھ نہ کچھ ''پرست'' ہوتا ہے اور یہ ''پرستی'' اس کی فطرت کے مطابق ہونی چاہیے۔ کوئی ''علم پرست'' ہے تو ظاہر ہے کہ وہ دلچسپی علم سے رکھتا ہے، علم بڑھانا چاہتا ہے۔ علم دوست ہے اور شاید اس کا اوڑھنا بچھونا علم ہے اور وہ صاحب علم لوگوں کی صحبت سے استفادہ کرتا ہے اور ترسیل علم کا دو طرفہ کام انجام دے رہا ہے۔

کوئی ''جاہ پرست'' ہے اور منصب اور مقام کے چکر میں رہتا ہے اور ایسے سارے نام آپ جانتے ہیں واقف ہیں چاہیں وہ کوئی ہوں کسی بھی ''آڑ'' میں آکر یہ کام انجام دے رہے ہوں۔ میں نام نہیں لکھوں گا مگر کمال یہ ہے کہ نام لکھے بغیر ہی آپ انھیں جانتے پہچانتے ہیں۔ عقیدہ، مسلک، سیاست سب آپ کو پتا ہے اور آپ ان کو خود ان سے زیادہ سمجھتے ہیں۔

ہر قوم کا ایک مزاج ہے اور اس کے مطابق دنیا میں اس کا مقام آپ چاہیں تو ترقی کہہ لیں جس کا ہمیں بہت شوق ہے اور تقریروں کی حد تک اور کاغذوں کی حد تک ہمارے تمام لیڈروں نے پاکستان کو 23 ویں صدی میں پہنچا دیا ہے۔ اور ساری دنیا پاکستان کے پیچھے چل رہی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ میدان سیاست میں جو حقیقتاً بڑا دھوکہ باز ہے وہ اتنا ہی ''پاپولر'' ہے اور اسے یہ کون بناتا ہے؟ قوم، کیونکہ ہم انتہائی غیر سنجیدہ اور کھیل تماشوں کے شوقین ہیں۔ ایک بار ووٹ دے کر پانچ سال تک جس کو ووٹ دیا اس کی تلاش میں جھڑکیاں کھاتے رہتے ہیں۔ اس کے گماشتوں کے ہاتھوں سے ''پٹ'' کر ان کے حق میں زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں، ہے ایسی کوئی زندہ دل قوم پاکستانیوں کے علاوہ؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

70 سال ہوچکے لیڈروں اور ووٹرز کی تیسری نسل ہے۔ مجال ہے جو کوئی ٹس سے مس ہوا ہو۔ لیڈروں کے وہی ہتھکنڈے اور ووٹرز کے وہی شکوے کیا مستقل مزاجی ہے ہر دو طرف ورلڈریکارڈ ہے شاید نوٹ کیا جانا چاہیے۔ لیڈروں کے لیے ایک ماہ کی دھوپ چھاؤں جس میں چھاؤں ان کے ہی حصے میں آتی ہے اور ووٹرز کے لیے ایک ماہ کا سیاسی تھیٹر اور پانچ سال کا دھوپ کا سفر اس کا بھی ایک نام ہے اور وہ ہے ''لیڈر پرستی۔''

ہر ایک کا کوئی لیڈر ہے اور اگر عوام میں سے کوئی لیڈر بننے کی کوشش کرے تو اسے خاصا سبق سیکھنا پڑتا ہے اور وہ کوئی آسان بات نہیں ہے، کوئی مثال نہیں دیں گے کہ احتیاط ملحوظ خاطر ہے، مگر یہ ایک عام بات کہہ لیں کہ بیرا ہوٹل کا مالک۔۔۔۔آسانی سے تو نہیں بن سکتا، اس کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور جو بیلتا ہے وہ جانتا ہے۔

ایک دو ماہ کے اس سارے ڈرامے کا قوم پانچ سال انتظار کرتی ہے اور پھر پانچ سال تک یہ کرنے کے بعد پھر اس ڈرامے کو کامیاب کر دیتی ہے اور کچھ نہیں ہوسکتا تو عوام کی یہ تفریح سالانہ ہی کر دی جائے۔ ہماری اس بات کو بھی وہی مذاق سمجھیے گا جو آپ کے ہمارے لیڈر ہمارے ساتھ کرتے ہیں۔ ہم ہر چند کہ لیڈر نہیں ہیں مگر مذاق کا حق تو رکھتے ہیں۔


اب ایک ہے حسن پرستی یہ ہرکام اور شعبے میں پائی جاتی ہے۔ بعض بے وقوف فرائض کو حسن خدمت کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت مار کھاتے ہیں، دو نمبر لوگ عزت اور مان کے ساتھ ساتھ مال بھی پاتے ہیں یہ تو کام کے حسن اور حسن کمال کا ذکر تھا۔ عام حسن کے بارے میں کئی مقدمات چل رہے ہیں۔ ان پر گفتگو بے کار ہے۔ بس ایک بات یاد آگئی چلتے چلتے کہ ڈالر گرل کو کوئی قانون پاکستان نہیں لاسکا۔

ایک اور جو چیز ہے ہمارے ارد گرد وہ ہے قوم پرستی یہ وہ زہر قاتل ہے جس نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ اگر یہ وبا علاقائی نہ ہوتی تو پاکستان بہت ترقی یافتہ اور دنیا کا مہذب ترین ملک ہوتا اور اس کے سارے حصے اور لوگ بہت زیادہ متحد اور مربوط ہوتے مگر انگریز جاتے جاتے نفرت کا ایک ایسا بیج بو کر گیا جس کی آبیاری ان کے سرفراز کردہ لوگوں نے خوب کی اور عوام کو متحد نہیں ہونے دیا۔

لارڈ صاحب، سر، خان صاحب، اور ایسے بہت سے وفاداری کے تمغہ یافتہ لوگوں نے ایک دائمی خلیج تو رکھی ہی رکھی۔ عوام میں طبقات پیدا کردیے، زبان، نسل رسم و رواج، تہذیب کے الگ الگ بت کھڑے کردیے جو ایک دوسرے کا مذاق اڑا رہے ہیں عرصہ دراز سے کسی کو کچھ بھی کہہ کر پکار لو، قبرکی مٹی جسم کو کھا جاتی ہے عام بات ہے علاقوں کی بنیاد پر اب سیاست تباہی کا پیش خیمہ ہے۔

بڑا صوبہ، چھوٹا صوبہ، شمالی صوبہ، جنوبی صوبہ، بھانت بھانت کی آوازوں سے ملک گونج رہا ہے بن بلائے مہمان لاکھوں کی تعداد میں ملک کے امن و امان اور معاشی حالات کے لیے خطرہ ہیں۔ روٹی، پانی، کون سا مسئلہ ہے جو سر نہیں اٹھا رہا مگر صاحب حیثیت لوگوں کو غریب اکثریت سے صرف ووٹ چاہیے ہوتے ہیں اور بس پانچ سال ڈربہ بند۔ سب کی طرح میں بھی کچھ نہ کچھ پرست ضرور ہوں اور وہ میری تحریر اور عمل چغلی کھاتے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں بھی ہوں۔ اور میں ملک پرست ہوں پاکستان پرست ہوں۔ ساری زندگی مائیک اور قلم سے پاکستان پرستی کی ہے اور یہ جرم کیے جا رہا ہوں۔ 1965 میں سر فخر سے بلند تھا۔ 1971 میں گریباں چاک اور قدم قدم پر ملک کی سلامتی کی تسبیح اور پھر تاریک ترین دور جمہوریت سردار۔

آج بھی پاکستان پرستی کا پرچارک ہوں یہی کہتا ہوں لکھتا ہوں آپ اور میں کوئی بھی ہیں ہمارے طور طریقے کتنے بھی الگ ہوں ہم ایک ملک میں رہتے ہیں کچھ ضمیر فروش، ملک فروش ہر وقت اس کا سودا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور مجھے اور آپ کو غلام بنانے کی سازش میں مصروف رہتے ہیں۔ تھوڑے ذاتی فائدے کے لیے سب کچھ دے دینے کو تیار رہتے ہیں۔

ہم کچھ بھی ہیں، کوئی بھی ہیں، ہزار اختلافات ہوں ملک ہمارا ہے یہ ہماری شناخت ہے۔ ہم اس سے جانے پہچانے جاتے ہیں تو ان ٹوپیوں، پگڑیوں اور دوسرے تمام دھوکوں سے خود کو بچاؤ ، ملک کو بچاؤ اور متحد ہو۔ ایسے فیصلے کرو ہمیشہ جن سے ملک اور قوم کو فائدہ ہو قوم پرستی ہار جائے۔ پاکستان جیت جائے۔ پاکستان پرستی جیت جائے (آمین)
Load Next Story