47 سال بعد نیا پاکستان
1947 کے بعد 1971 کے 47 سال بعد پی ٹی آئی کا نیا پاکستان تو نظر میں آگیا ہے۔
1947 میں نظریاتی طور پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا اور 1970 میں جنرل یحییٰ خان کے کرائے گئے انتخابات جنھیں منصفانہ قرار دیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت رکھنے والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہ کیے جانے پر پاکستان 1971 میں دو لخت ہوا جس کے بعد مغربی پاکستان تبدیل ہوکر آدھے سے بھی کم پاکستان بن گیا تھا جس کی بعض حلقوں کی جانب سے ذمے داری ذوالفقار علی بھٹو پر ڈالی جاتی ہے، جنھیں 1970 میں اکثریت صرف سندھ و پنجاب میں ملی تھی مگر ذوالفقارعلی بھٹو وزیراعظم بنادیے گئے اور نئے پاکستان کا نظریاتی وجود ختم ہوگیا تھا ۔
عوامی لیگ کو اقتدار نہ دینا نئے پاکستان کے قیام کی وجہ قرار دی گئی تھی اور 1971 کے 47 سال بعد اب 2018 میں عمران خان کا نیا پاکستان وجود میں آگیا ہے۔ جس کا مقصد کرپشن فری پاکستان قرار دیا جاتا ہے مگر حیرت یہ ہے کہ نئے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے وہی سیاست اقتداری ساتھی بنے ہیں جو اس سے قبل کی حکومتوں میں شامل تھے اور ان پر مبینہ طور پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔
47 سال بعد پی ٹی آئی جو نیا پاکستان بنانے جائے گی، اس کا تو بعد میں پتا چلے گا مگر اس وقت کچھ نئے حقائق بھی منظر عام پر آگئے ہیں۔ 25 جولائی کے انتخابات میں پی ٹی آئی واحد پارٹی ہے جس کو دھاندلیوں کی کوئی شکایت تھی نہ کوئی گلہ بلکہ ہر جماعت الزام لگارہی تھی کہ پی ٹی آئی کو فری ہینڈ ملا ہوا ہے جس کا نتیجہ سامنے آچکا ہے ۔ موجودہ انتخابی نتائج پر سابق حکمران جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے علاوہ کے پی کے کی سابق حکمران جماعتوں متحدہ مجلس عمل اور اے این پی کو بھی تحفظات ہیں جنھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مسلم لیگ ن کی نواز شریف حکومت میں ہی بلوچستان کی ن لیگی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اچانک آئی تھی جو سینیٹ کے انتخابات کی پیش قدمی تھی جو کامیاب رہی تھی جس کا الزام غیر سیاسی حلقوں پر لگایا جاتا تھا جس میں مسلم لیگ پیش پیش تھی اور پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے خفیہ طور پر مل کر مسلم لیگ ن کو سینیٹ میں اکثریت اور پھر اقتدار حاصل کرنے سے روک دیا تھا۔ جس کے لیے راتوں رات سیاسی وفاداری تبدیل ہوئی اور بلوچستان مسلم لیگ ن کی حکومت ختم کرائی گئی تھی۔ سندھ کے شہری علاقوں میں تین دہائیوں قبل غیر جمہوری حلقوں نے ایم کیو ایم بنوائی تھی جو کنٹرول سے باہر ہوگئی تو ایم کیو ایم کے سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کو سامنے لاکر ایم کیو ایم کی اس کے قائد سے جان چھڑوائی گئی۔
جس کے بعد ایک نئی پارٹی پی ایس پی وجود میں لائی گئی جس کے لیے متحدہ پاکستان کا کہناتھا کہ پی ایس پی کی لانڈری میں متحدہ کے ارکان اسمبلی اور ذمے داروں کی صفائی کراکر انھیں مسٹر کلین کرکے متحدہ کے مقابلے میں الیکشن لڑوایا گیا اور مصطفی کمال جو کراچی کے بعد سندھ کو بنانے کے بلند و بانگ دعوے کسی وجہ سے کررہے تھے اور پی ایس پی سمیت بری طرح شکست سے دوچار ہوئے ۔ پی ایس پی کراچی میں بری طرح ناکام ہوئی جس کے لیے مبینہ طور پر کہا جاتا تھا کہ اسے غیر جمہوری حلقوں کی حمایت حاصل ہے مگر غیر جمہوری حلقوں کی طرف سے ان کی کوئی حوصلہ افزائی نظر نہ آئی البتہ کراچی کی سیاست متحدہ کے ہاتھوں سے نکل گئی۔
ایم کیو ایم پاکستان کا جو حشر ہوا اور مکافات عمل کے ساتھ ان کے باہمی اختلافات کا نتیجہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ متحدہ کا فاروق ستار کو الگ کرنے کے بعد پہلا برا حشر سینیٹ کے انتخابات میں سامنے آیا جس کے بعد بہادر آباد اور پی آئی بی بد دلی سے آپس میں ملے بھی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔
ن لیگی شاہد خاقان عباسی کی حکومت فیض آباد دھرنے میں ڈیڑھ دو ہزار مظاہرین کے ہاتھوں جب بے بس ہوئی تھی تو کچھ حلقوں کی جانب سے الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔25 جولائی کو تحریک لبیک کو کوئی نشست ملک بھر میں کہیں سے مل سکی نہ سندھ میں پی ایس پی کوئی تیر مارسکی ۔کے پی کے اور پنجاب کے بعد سندھ میں پہلی بار پیپلزپارٹی کے بعد پی ٹی آئی دوسرے نمبر پرکامیاب ہوگئی جس کے لیے تمام سیاسی جماعتیں الزام لگارہی ہیں کہ وہ کسی منصوبے کے تحت اس مقام پر لائی گئی ہے۔
بلوچستان میں چند ماہ قبل اچانک جو نئی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی وجود میں آئی ہے اس کے لیے بھی وہی کچھ کہا جارہاہے جو تحریک انصاف، پی ایس پی کے متعلق کہا جاتا رہا ہے مگر یہ نئی پارٹی بلوچستان میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ البتہ بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں عمران خان کو کامیابی نہ ملی اور حسب سابق مخلوط حکومت ہی بلوچستان کا مقدر نظر آ رہا ہے۔
1947 کے بعد 1971 کے 47 سال بعد پی ٹی آئی کا نیا پاکستان تو نظر میں آگیا ہے اور مخالفین کہہ رہے ہیں کہ آنے والا وقت ایسا ہوگا جس میں نئے پاکستان کی پی ٹی آئی تنہا کھڑی ہو سکتی ہے صرف شیخ رشید اور چوہدری برادران عمران خان کے حلیف بنے ہیں جس کی وجہ ان کی نواز شریف سیاسی مخالفت ہی سمجھ میں آرہی ہے۔
جیپ گروپ کے لیے بہت کچھ کہا جارہاتھا مگر چوہدری نثار نئے پاکستان میں شکست سے دو چار ہوئے جن کے لیے بعض حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ جیپ گروپ کی وجہ سے وہ وزیراعظم کی صورت میں صادق سنجرانی بن سکتے تھے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ جن پر سر پرستی کے الزامات لگ رہے تھے ان کی سرپرستی پی ایس پی، اور بے اے پی کو تو کامیاب نہ کراسکی البتہ ان کی طرف سے بھی کہہ دیا گیا ہے کہ شکریہ ہم وطنو، پاکستان ایک بار پھر جیت گیا۔