غریبوں کا سمندر ہو…
تبدیلی کے نام پر ووٹ دینے والی عوام نے بھی عمران خان سے بہت زیادہ امیدیں باندھ لی ہیں۔
انتخابات سے قبل ملک بھر میں تبدیلی کو جو ہوائیں چل رہی تھیں ، اْس سے اس بات کااندازہ تو ہو چلاتھا کہ''وزیر اعظم عمران خان '' کا نعرہ حقیقت بننے جا رہا ہے۔ عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد کے نتیجے میں تحریک انصاف نے اس بارملک بھر سے اتنی نشتوں پرکامیابی حاصل کر لی ہے کہ مرکز سمیت پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں حکومت بنا سکتی ہے۔
تحریک انصاف نے پنجاب میں مسلم لیگ ن اور کراچی میں ایم کیوایم کے بڑے قائدین کو شکست دے کر جو حیران کن کامیابی حاصل کی ہے اس پر خود تحریک انصاف کے امیدواروں کو اپنی کامیابی کا یقین نہیں آرہا تو دوسری طرف مسلم لیگ ن کے لیے یہ بات ناقابل یقین اور ناقابل برداشت ہے کہ اب تخت لاہور بھی ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
پنجاب سے آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے امیدوار ہی یہ فیصلہ کریںگے کہ وہ تخت لاہور پر کس کو بٹھاتے ہیں۔ مگرقوی امید ہے کہ تخت لاہور پر تحریک انصاف ہی راج کرے گی۔ عمران خان کے لیے پہلا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے کس شخص کو وزیر اعلیٰ کے منصب پر بٹھاتے ہیں کیونکہ اس دوڑ میں تحریک انصاف کے کئی ہیوی ویٹ امیدوار شامل ہیں۔
یہ ایک مشکل فیصلہ ہے کیوں کہ پارٹی کے اندر پہلے ہی اختلافات ہیں مگر وزیر اعلیٰ پنجاب کی دوڑ کی وجہ سے مزید اختلافات میں اضافہ ہوگا ۔ یہی صورت حل کراچی کی لیڈر شپ اور خیبر پختون خواں میں بھی موجود ہے کہ مقامی لیڈر شپ میں انتہائی درجہ کی بداعتمادی اور اختلافات ہیں۔
پارٹی کے اندرونی اختلافات کے ساتھ ساتھ عمران خان کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج آئی ایم ایف کا جن بھی ہے پاکستانی معیشت کوچلانے اور بیرونی قرضوں کی قسطیں اتارنے کے لیے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرض لینا ہوگا جس کی وجہ سے عام آدمی پر ٹیکس کا مزید بوجھ بڑھے گا ، مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔عمران خان نے الیکشن کمپین میں عوام سے جو وعدے کیے اب انھیں پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔
تبدیلی کے نام پر ووٹ دینے والی عوام نے بھی عمران خان سے بہت زیادہ امیدیں باندھ لی ہیں اور جب وہ پوری نہیں ہوگی تو ان میں مایوسی اور بے چینی پیدا ہوگی۔عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں نیب زدہ بھی شامل ہیں وہ بھی مرکزی کابینہ کا حصہ بننا چاہتے ہیں جس کی مخالفت خود پارٹی کے اندر سے ہوگی بلکہ اپوزیشن بھی شور مچائے گی۔ جو لوگ عمران خان کو یہاں تک پہنچانے میں مدد گار ثابت ہوئے ہیں۔
ان کی بھی کچھ توقعات اور ڈیمانڈ ہوں گی جیسے پورا کرنا عمران خان کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ اگر انھوں نے عوامی توقعات کے برعکس کسی کی خواہشات پر فیصلے کرنا شروع کیے اور احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین سے انتقام لینا شروع کیا تو مشکلات اور بڑھ جائیں گی۔
خان صاحب کوانتہائی سخت اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا اپوزیشن وہ سب عملدہرائے گی جو گزشتہ پانچ سال عمران خان دھرنوں، احتجاج اور جلسوں کی شکل میں کرتے رہے ہیں۔عمران خان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اپوزیشن کی سیاست کرنے ، دھرنے دینے اور احتجاج کرنے سے کہیں زیادہ مشکل کام حکومتی امور چلانا ہونا ہے۔یقیناً خان صاحب کے لیے اقتدار کانٹوں کی سیج سے کم نہ ہوگی۔
عمران خان جس تبدیلی اور بے رحم احتساب کی بات کیا کرتے تھے اس پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے ان کی کامیابی اس بات میں پوشیدہ ہے کہ قوم سے کیے وعدوں کو جلد پورا کریں۔بنی گالہ سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ 22 سال کی جدوجہد کے بعد اللہ نے مجھے موقع دیا ہے کہ میں اپنے خواب کو پورا کر سکوں۔انھوں نے کہا کہ میں پاکستان کو ایسی فلاحی ریاست بنانا چاہتا ہوں جس طرح ہمارے نبی ؐ نے بنائی تھی لیکن ہماری ریاست میں یہ نظام الٹا ہے جہاں آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
ہمارے ملک میں ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے اسکولوں سے باہر ہے، دنیا میں سب سے زیادہ ہماری خواتین زچہ و بچہ کے مرحلے میں مر جاتی ہیں اور پینے کا صاف پانی نہ ملنے کے باعث دنیا میں سب سے زیادہ پاکستانی بچے مر جاتے ہیں۔ ملک میں ساری پالیسیاں کمزور طبقے اور غریب کسانوں کے لیے بنیں گی۔ ہماری کوشش ہو گی کہ سب سے زیادہ پیسہ انسانی ترقی پر خرچ ہو کیونکہ کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا جہاں ایک چھوٹا سا جزیرہ امیروں کا ہو اور غریبوں کا سمندر ہو۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں غربت بہت زیادہ ہے،ملکی و غیر ملکی اداروں کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 6 کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر تیسرا پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔غربت کے خاتمے کے نام پر ہر سال اربوں ڈالر مختص کیے جاتے ہیں۔
اس رقم کا بڑا حصہ تعلیم و تحقیق، ورکشاپس اور سیمینارز کے نام پر غربت کے خلاف برسرپیکار ہضم کر جاتے ہیں۔ جب کہ عوام خطِ غربت کے نیچے دھنستے جا رہے ہیں اور حکمرانوں دولت مند بنتے جارہے ہیں عالی شان زندگی بسر کررہے یہ سب عیاشیاں پاکستان کے ٹیکس پر ہورہی ہیں، پاکستان میں دولت اور غربت کا کھیل پہلو بہ پہلو جاری ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ ''ورلڈ ڈیولپمنٹ انڈیکیٹر'' کے مطابق ملک کی 29.50 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔پاکستان کے 60 فیصد افراد کی آمدن یومیہ 2 ڈالر یا 200 روپے سے بھی کم ہے، جب کہ 21 فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے، جو ایک اعشاریہ 25 ڈالر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
اس وقت سری لنکا میں شرح غربت 23 اعشاریہ 9 فیصد اور نیپال میں 57 اعشاریہ5فیصد ہے۔ جب کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے 31 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ سروے کے مطابق 20 غریب ترین اضلاع میں سے 16 بلوچستان میں ہیں۔ بلوچستان میں کل آبادی کا 52 فیصد، سندھ میں 33 فیصد، خیبر پی کے میں 32 فیصد جب کہ پنجاب کی کل آبادی کا 19 فیصد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے میں غربت کی آگ میں جلنے والی آبادی کا بڑا حصہ دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتا ہے۔
پنجاب کے گرد غربت کا شکنجہ اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے۔عمران خان اگر غربت کی پیش قدمی کو روکنے میں کامیاب رہے تو یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہو گی جس کا وعدہ انھوں نے اپنے خطاب میں کیا۔ عمران خان کے راستے میں مشکلات پہاڑ جیسی ہیں لیکن اگر یقین پختہ ہو اور کچھ کرگزرنے کا جذبہ ہو تو بلند پہاڑ بھی زیر ہوجاتے ہیں۔