ٹیکنالوجی نے الیکشن 2018ء کو کیسے مشکوک بنایا

نتائج جلد پہنچانے کی تمنا میں بنائے گئے سافٹ ویئرز کی خرابی نے جب خودساختہ دھاندلی کو جنم دے ڈالا


نتائج جلد پہنچانے کی تمنا میں بنائے گئے سافٹ ویئرز کی خرابی نے جب خودساختہ دھاندلی کو جنم دے ڈالا۔ فوٹو : فائل

میں 25 جولائی کو صبح ہی پولنگ سٹیشن پہنچ گیا۔ سوچا تھا کہ ووٹ دینے کی اپنی ذمے داری جلد ادا کر دوں۔ کچھ دشواریوں کے بعد یہ فریضہ خوش اسلوبی سے طے ہوا۔

اس دن ناخوشگوار واقعات جنم لینے کے باوجود پاکستان بھر میں ووٹ ڈالنے کا سلسلہ شام تک جاری رہا۔ شام چھ بجے کے بعد بھی کئی پولنگ اسٹیشنوں کے باہر مرد وزن ووٹروں کا ہجوم تھا۔ یہ سچائی اس امر کی غماز ہے کہ ہم وطنوں نے جوش و خروش سے ووٹ ڈالا۔

اس وقت تک ووٹنگ مجموعی طور پر منظم اور پُر امن طریقے سے جاری رہی تھی مگر رات گئے جدید ٹیکنالوجی نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ الیکشن کمیشن نے ہر پولنگ اسٹیشن سے نتائج جلد از جلد مرکزی دفتر منگوانے کیلئے دو سافٹ ویئر تیار کرائے تھے مگر عین وقت پر وہ دغا دے گئے۔

دونوں سافٹ ویئرز کے بل بوتے پر الیکشن کمیشن نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ووٹنگ ختم ہونے کے بعد رات دو بجے تک تقریباً سبھی حلقوں کے نتائج سامنے آ جائیں گے۔سافٹ ویئر خراب ہونے سے ایسا نہ ہو ا تو ملک بھر میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں جو جلد افواہوں میں بدل گئیں۔یہ افواہ سب سے زیادہ خوفناک اور شدید رہی کہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر نتائج بدلے جارہے ہیں اور دھاندلی کا آغاز ہو چکا۔ پورے پاکستان میں گومگوں کی کیفیت طاری ہو گئی۔

الیکشن کمیشن کے کارپردازوں کا فرض تھا کہ وہ دونوں سافٹ وئیر اپنانے سے قبل انھیں کڑے تجربات سے گزارتے اور ان کے معیار کی سخت جانچ پڑتال کرتے۔ عین وقت پر دھوکا دے جانے سے آشکارا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔یہ غیر سنجیدگی،بے پروائی اور ذمے داری سے غفلت کی واضح مثال ہے۔سب سے بڑھ کر ٹیکنالوجی کی بظاہر معمولی رکاوٹ حقیقتاً نہایت تباہ کن ثابت ہوئی اور اس نے الیکشن 18 ء کا پورا عمل مشکوک بنا ڈالا۔

پاکستان الیکشن کمیشن نے حالیہ انتخابات کے موقع پر جو دو سافٹ وئیر استعمال کیے ان کے نام ''آر ٹی ایس''یعنی رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم(Result Transmission System) اور ''آر ایم ایس''یعنی رزلٹ مینجمنٹ سسٹم(Result Management System) ہیں۔ان دونوں کا مقصد ووٹنگ ختم ہونے کے بعد پریزائیڈنگ افسر ، ریٹرنگ افسر اور الیکشن کمیشن کے مابین تال میل پیدا کرنا تھا۔

آگے بڑھنے سے پیشتر یہ بتاتے چلیں کہ پولنگ اسٹیشن کا ناظم ''پریزائیڈنگ افسر'' کہلاتا ہے جبکہ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے کے انچارج کو ''ریٹرنگ افسر'' کہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ان دونوں افسروں کا تقرر کرتا ہے۔ ان دونوں کا انچارج ''ضلعی ریٹرنگ افسر'' ہوتا ہے۔ یہ ایک ضلع میں الیکشن کے متعلقہ امور کا نگران ہے۔

عموماً ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو ضلعی ریٹرنگ افسر اور ریٹرنگ افسر بنایا جاتا ہے۔ الیکشن 18ء میں ووٹروں کی سہولت کے لیے پاکستان بھر میں 85307 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے۔ گویا 25 جولائی کو اتنے ہی پریزائڈنگ افسر اپنی ذمے داریاں نبھانے میں مشغول رہے جبکہ ریٹرنگ افسر اور ضلعی ریٹرنگ افسر بھی انتخابی معاملات دیکھتے رہے۔

الیکشن کمیشن نے صوبہ خیبرپختونخواہ میں25 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کو ضلعی ریٹرنگ افسر کا عہدہ تفویض کیا جبکہ قومی اسمبلی کی نشستوں کیلئے 39 اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کی خاطر 99 ریٹرنگ افسر مقرر ہوئے۔ دیگر صوبوں میں معاملہ کچھ یوں رہا:

٭صوبہ پنجاب:۔36 ضلعی ریٹرنگ افسر۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 144 اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے لیے 297 ریٹرنگ افسر۔

٭ صوبہ سندھ:۔ 27 ضلعی ریٹرنگ افسر۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 61 اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کی خاطر 130 ریٹرنگ افسر۔

٭ صوبہ بلوچستان:۔34 ضلعی ریٹرنگ افسر، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کیلئے 67 ریٹرنگ افسر۔

٭ وفاقی علاقہ اسلام آباد:۔ 1 ضلعی ریٹرنگ افسر اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کیلئے 3 ریٹرنگ افسر۔

آر ٹی ایس سافٹ وئیر الیکشن کمیشن کے شعبہ آئی ٹی اور قومی ادارے، نادرا کے ماہرین نے مل کر ایک سال کی مدت میں تیار کیا۔ یہ سمارٹ فون پر اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم پر چلنے والی ایپ ہے۔ ہر پولنگ اسٹیشن کے پریزائڈنگ افسر یا اسسٹنٹ پریزائڈنگ افسر کے سمارٹ فون میں یہ سافٹ ویئر فیڈ کیا گیا۔ ہر ریٹرننگ افسر کے سمارٹ فون میں بھی یہ ایپ بھری گئی۔آر ٹی ایس سافٹ ویئر بنیادی طور پر اس لیے تخلیق کیا گیا تاکہ ہر پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ جلد از جلد پہلے ریٹرنگ افسر پھر الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر پہنچ جائے۔ مرکزی دفتر پھر ایک حلقے کے تمام پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹ جمع کرکے نتیجے کا اعلان کر دیتا مگر یہ سافٹ ویئر عین وقت پر دھوکا دے گیا۔

الیکشن کمیشن کی رو سے ملک بھر میں پھیلے پولنگ اسٹیشنوں میں مصروف کار عملے کے 85 ہزار سمارٹ فون آر ٹی ایس سے منسلک تھے۔ ہونا یہ تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں کے ہر پریزائیڈنگ افسر یا اس کے نائبین نے اپنے سمارٹ فون میں فارم 45 کی تصویر آر ٹی ایس میں اپ لوڈ کرنا تھی۔ فارم 45 خاتمہ الیکشن کے بعد ووٹوں کی گنتی کا ایک اہم جزو ہے۔اسی فارم پر درج ہوتا ہے کہ پولنگ اسٹیشن میں کس کس امیدوار کو کتنے ووٹ پڑے ۔ یہ معلومات فارم پر ترتیب سے لکھی جاتی ہے۔ جب تمام معلومات لکھی جائے، تو فارم پر پریزائیڈنگ افسر، اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر دستخط کرتے ہیں۔ نیز امیدوار یا ان کے نمائندوں (پولنگ ایجنٹوں) کے بھی دستخط ہوتے ہیں۔ یہ فارم پھر متعلقہ ریٹرنگ افسر کو بھجوایا جاتا ہے۔

الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ انتخابات سے قبل آر ٹی ایس سافٹ ویئر کو تجربات سے گزارا گیا تھا اور اس نے 90 فیصد تک درستی کا مظاہرہ کیا۔ یہ سافٹ ویئر سمارٹ فون کے جی پی ایس (گلوبل پوزیشنگ سسٹم) کی مدد سے خود کار طور پر نوٹ کرلیتا ہے کہ فارم 45 کس وقت اور کس جگہ سے ریٹرنگ افسر اور الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر بھجوایا گیا۔

آر ایس ایم سافٹ ویئر 85 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہوا۔ یہ سافٹ ویئر الیکشن کمیشن کے شعبہ آئی ٹی نے تیار کیا۔ رقم کا بیشتر حصہ یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام نے فراہم کیا۔ اس سافٹ ویئر کے ذریعے ریٹرننگ افسروں نے فارم 47 کی تصویر بذریعہ سمارٹ فون الیکشن کمیشن کو بھجوانی تھی۔فارم 47 پر صوبائی یا قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں مجموعی ووٹوں کی تفصیل لکھی جاتی ہے۔ جب ایک حلقے میں تمام پولنگ اسٹیشنوں سے فارم 45 موصول ہوجائیں تو ان کی بنیاد پر فارم 47 تیار ہوتا ہے۔

پاکستان الیکشن کمیشن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سبھی پریزائڈنگ اور ریٹرنگ افسران کو یہ مشق کرائی گئی کہ انہوں نے آر ٹی ایس اور آر ایم ایس ایپس کو کس طرح استعمال کرنا ہے لیکن 25 جولائی کی رات دونوں سافٹ ویئر مطلوبہ ذمے داری انجام نہیں دے سکے۔ اس تکنیکی خرابی نے جلد ہی سنگین مسئلے کی صورت اختیار کرلی۔ حتیٰ کہ ٹیکنالوجی میں در آنے والی اس تکنیکی خرابی کو دھاندلی کا روپ دیتے ہوئے ہارنے والی جماعتوں کے رہنماؤں نے شور مچادیا۔ وجہ یہ کہ وہ نتائج بروقت نہ ملنے پر گھبرا گئے اور بے سوچے سمجھے پورے الیکشن کی ایکسرسائز کو شک وشبے کا شکار بنادیا۔

ہونا یہ چاہیے کہ تھا کہ جب رات نو دس بجے دونوں سافٹ ویئر دغا دے گئے، تو جلد الیکشن کمیشن کا مجاز نمائندہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے سامنے آکر پوری قوم کو بتاتا کہ ہمارے سافٹ ویئرز نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے لہٰذا نتائج آنے میں دیر ہوسکتی ہے۔یہ پریس کانفرنس جلد از جلد ہونی چاہیے تھی کیونکہ الیکشن کمیشن نے رات دو بجے تک تمام نتائج مکمل کردینے کا اعلان کر رکھا تھا۔انتہائی حیرت ہے کہ کمیشن کے کسی ذمے دار فرد نے فوراً یہ پریس کانفرنس کرنا ضروری نہ سمجھا۔الیکشن کمیشن کی سنگین کوتاہی کے باعث جب نتائج آنے کا سلسلہ رک گیا تو ملک بھر میں لوگ گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔ چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور یہ تاثر جنم لینے لگا کہ بعداز الیکشن پولنگ اسٹیشنوں میں دھاندلی کا عمل شروع ہوچکا۔

یہ عیاں ہے کہ الیکشن کمیشن نے ضرورت سے زیادہ آر ٹی ایس اور آر ایم ایس سافٹ ویئرز پر انحصار کررکھا تھا۔ اسی لیے بعض پولنگ اسٹیشنوں میں چند ہی فارم 45 ہی دیئے گئے۔ وجہ یہ کہ سمارٹ فون سے لی گئی فارم 45 کی تصویر ہی کی سافٹ کاپی امیدوار یا اس کے پولنگ ایجنٹ کو فراہم کی جانی تھی۔اسی لیے زیادہ فارم تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔گویا سافٹ ویئرز کی خرابی صورت الیکشن کمیشن کے پاس پلان بی یا سی موجود ہی نہ تھا، اس لیے مسئلہ زیادہ الجھ گیا۔

لگتا ہے کہ رات کو جب یہ عیاں ہوا کہ دونوں سافٹ ویئرز کام نہیں کررہے، تو کئی پولنگ اسٹیشنوں میں انتخابی عملے کے مابین گھبراہٹ اور افراتفری پھیل گئی۔ دن بھر کام میں مسلسل مشغول رہنے کی وجہ سے انتخابی عملہ تھکن اور ٹینشن کا شکار تھا۔ اس امر نے بھی افراتفری پھیلانے میں حصہ لیا۔ اس دوران کئی پولنگ اسٹیشنوں میں پولنگ ایجنٹ فارم 45 کا مطالبہ کرنے لگے۔ جب فارم نہ ملا، تو ان کی انتخابی عملے سے تو تو میں میں ہوئی۔بعض پولنگ اسٹیشنوں میں انتخابی عملے نے سادہ کاغذ پر حاصل کیے گئے ووٹوں کی تفصیل پولنگ ایجنٹوں کو تھمادی۔ بعض جگہوں پر غصّے میں آکر انتخابی عملے نے بے صبرے پولنگ ایجنٹوں کو کمروں سے باہر نکال کر دروازے بند کردیئے۔ اسی لیے اس افواہ نے جنم لیا کہ انتخابی عملہ دروازے بند کرکے نتیجہ تبدیل کررہا ہے۔

یہ سارا سنگین مسئلہ اسی لیے پیدا ہوا اور پھر پھیلتا چلا گیا کہ الیکشن کمیشن نے فوراً میڈیا پر نمودار ہوکر عوام اور سیاسی جماعتوں کو مطلع نہیں کیا کہ کس قسم کی خرابی جنم لے چکی اور اس کی وجہ سے نتائج ملنے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ کئی گھنٹے بعد سیکرٹری الیکشن کمیشن نے پریس کانفرنس کی لیکن تب بھی اصل مسئلے کو کم ہی اجاگر کیا، ادھر ادھر کی گفتگو زیادہ ہوتی رہی۔

الیکشن کمیشن نے بعد میں تفصیل سے بتایا کہ جب کراچی تا خیبر پھیلے سبھی پریزائڈنگ افسر فارم 45کی تصاویر تقریباً ایک ساتھ اپ لوڈ کرنے لگے تو ہجوم کی وجہ سے دونوں سافٹ وئیرز پر مشتمل کمیشن کا آن لائن سسٹم بیٹھ گیا۔اس دعوی میں وزن ہے۔دنیا کے دیگر ممالک میں ہونے والے الیکشنوں میں بھی یک دم بہت زیادہ ٹریفک بڑھنے سے کچھ سرکاری محکموں یا سیاسی جماعتوں کی ویب سائٹیں کریش کر جاتی ہیںمگر عام طور پہ یہ تعطل عارضی ہوتا ہے اور خرابی جلد دور کر لی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے آئی ٹی ماہرین تو گھنٹوں گذر جانے کے بعد بھی سافٹ وئیرز کو جام کر دینے والی خرابی نہیں پکڑ سکے۔اسی لیے الیکشن کمیشن نے ''تین دن'' بعد بروز ہفتہ انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کیا۔

ووٹروں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان کے الیکشن 18ء دنیا کے پانچویں بڑے انتخابات تھے۔پرُامن اور منصفانہ انتخابات کرانے کی خاطر الیکشن کمیشن نے اس عمل پر اکیس ارب روپے کا زرکثیر خرچ کیا۔اس خرچ میں دونوں سافٹ وئیرز پہ اٹھنے والی لاگت یعنی دو ارب روپے شامل ہیں۔افسوس کہ بے پناہ اخراجات آنے کے باوجود الیکشن کمیشن قوم کی اُمیدوں اور توقعات پہ پورا نہ اتر سکا۔یاد رہے،الیکشن 2008ء پہ 1ارب 84کروڑ روپے جبکہ الیکشن 2013ء پر 4 ارب74 کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔

ووٹر کو پولنگ اسٹیشن کا نام وپتا فراہم کرنے کی غرض سے الیکشن کمیشن نے8300موبائل فون میسجنگ سروس تیار کر رکھی ہے۔اس سروس کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔الیکشن سے صرف تین دن پہلے تک 8300 ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں کا مکمل نام وپتا فراہم نہیں کر سکی۔ پھر عین انتخاب کے دن یہ سروس بھی رش ہونے سے کریش کر گئی۔گویا میسجنگ سروس کے سافٹ وئیر کی ساخت بھی کمزور تھی اور وہ بڑھتے ہجوم کا دباؤ برداشت نہیں کر سکا۔چنانچہ لاکھوں لوگوں کو اپنے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔

ممکن ہے کہ اس وجہ سے ہزارہا مرد وزن نے بددل ہو کر ووٹ نہیں ڈالا۔ الیکشن کمیشن کو یہ تعین ضرور کرنا چاہیے کہ کن وجوہ اور افراد کی کوتاہی کے باعث تینوں سافٹ ویئر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ذمے داروں کو سزا نہ دی جائے تو آئندہ بھی ایسی کوتاہیاں ضرور جنم لیتی ہیں۔

الیکشن18ء میں سامنے آنے والی غلطیوں اور کوتاہیوں سے پاکستان الیکشن کمیشن نے ضرور یہ سبق لیا ہو گا کہ انتخابات کرانے کا عمل کوئی روزمرہ کا عام معاملہ نہیں بلکہ نہایت سنجیدہ اور قومی نوعیت کا حساس عمل ہے لہٰذا اس موقع پر بہت احتیاط اور فرض شناسی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔خاص طور پہ اگلے انتخابات میں الیکشن کمیشن کوئی نئی ٹیکنالوجی اپنائے ،تو اسے پے در پے اور کڑے تجربات سے گزارے تاکہ وہ عین وقت پر دغا نہ دے جائے۔

ٹیکنالوجی یقیناً انسان کو فائدہ پہنچاتی اور اس کے کام سہل کرتی ہے۔لیکن اسے درست طرح نہ اپنایا جائے تو وہ زبردست نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ کارپردازان ِالیکشن کمیشن یاد رکھیں کہ بعض اوقات معمولی سی کوتاہی سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ الیکشن 18ء اس امر کی چشم کشا مثال ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں