پاکستان…کل‘ آج اور کل
تربیت کے حوالے سے بچوں کی سوچ اور طرز عمل میں صفائی‘ ہمت‘...
لاہور:
ابھی ابھی میں ایک ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ سے فارغ ہوا ہوں جس کا موضوع تھا کہ ہم زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اسپورٹس کے میدان میں بھی زوال اور افراتفری کا شکار کیوں اور کیسے ہیں؟ کیوں اٹھارہ کروڑ آبادی والا یہ ملک ان ستر ملکوں کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہے جنہوں نے اولمپکس 2012 میں کم از کم ایک میڈل تو جیتا ہے۔ یہ صورت حال بظاہر بے حد گھمبیر اور مایوس کن بلکہ شرمناک ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ آج سے صرف اٹھارہ بیس برس پہلے ہمارا یہی وطن عزیز چار کھیلوں یعنی کرکٹ' ہاکی' اسکواش اور اسنوکر میں بیک وقت ورلڈ چیمپیئن ہوا کرتا تھا۔ یہ بات میں نے ''پدرم سلطان بود'' کے حوالے سے نہیں بلکہ یہ واضح کرنے کے لیے بیان کی ہے کہ مسئلہ مٹی کی زرخیزی کا نہیں بلکہ اس طریق کار اور رویے کا ہے جو ہمارے نام نہاد رہنمائوں اور پالیسی ساز اداروں کا ہے کہ جن کی نااہلی' موقع پرستی اور لوٹ مار کی وجہ سے ہماری نرسریاں ختم اور متعلقہ ادارے ایک ایسی دلدل کی شکل اختیار کر گئے کہ ہم مسلسل نیچے ہی نیچے گرتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ تو ہے ہمارے ''آج'' کی صورت حال لیکن میں آج وطن عزیز کی 65 ویں سالگرہ کے موقع پر اس گزشتہ کل کی بات کرنا چاہتا ہوں جب ابھی انتشار کا موجودہ منظرنامہ ایک زندہ حقیقت کی شکل میں نہیں ڈھلا تھا اور اس کے ساتھ ہی میں آیندہ کل کے اس تصوراتی منظر کی ایک جھلک بھی پیش کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
ایک ہی آدم خاکی کی اولاد ہونے کے ناتے سے آج دنیا کے مختلف علاقوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے ہمارے بھائی بند ''عروج'' کے اس منظر کا حصہ بن چکے ہیں مگر ہم ابھی تک (انفرادی سطح پر ناموری حاصل کرنے والی مستثنیات سے قطع نظر) بطور ایک قوم اور معاشرے کے' اس عالمی دوڑ میں Also Ran والی صف میں ہی شامل ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے ان شعبوں میں بھی نرسریاں اور موثر' فعال ادارے نہیں بنائے جن میں ہمیں قدرت کی طرف سے ایک عمدہ آغاز مل گیا تھا۔ آج کے ترقی یافتہ ملکوں کی ہمہ جہت ترقی کے راز کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو تین بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں۔
-1 نرسری: یعنی ابتدائی سطح سے ہی بچوں کو ان کی استعداد اور قدرتی صلاحیتوں کے مطابق تربیت کے بھرپور مواقع مہیا کرنا اور انھیں اس راستے پر ڈال دینا جہاں وہ بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔
-2 سہولیات اور حوصلہ افزائی: گائوں اسکول اور شہر کی سطح پر بچوں کو وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں جن سے انھیں آگے بڑھنے اور اپنی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملے اور اس کے ساتھ ساتھ تربیت کے حوالے سے بھی ان کی سوچ اور طرز عمل میں صفائی' ہمت' استقلال اور معاشرتی آداب کی پابندی کو فروغ دیا جائے اور کشمکش کی صورت حال میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں۔
-3 موثر' فعال اور منظم اداروں کا قیام:
اقبال نے کہا تھا
جہاں تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
وہ ادارے جو سنگ و خشت کی عالی شان عمارتوں میں سفارش' کنبہ پروری اور سیاسی دخل اندازی کی وجہ سے نااہل یا کم اہل لوگوں کی ''شکارگاہ'' بنا دیے جائیں وہ کبھی بھی اس Talent کی حفاظت' پرورش' ترقی اور تربیت نہیں کر سکتے جو نچلی سطح پر قائم نرسریوں کی Output ہو یا غیرمعمولی انفرادی صلاحیتوں کی بنا پر اوپر آتی ہے۔ پروفیشنل اداروں میں سیاست کی بنیاد پر کی جانے والی تقرریاں سارے نظام کا بیڑا غرق کر دیتی ہیں مثال کی ضرورت ہو تو ریلوے اور اسپورٹس سے متعلق اداروں کو دیکھا جا سکتا ہے کہ گزشتہ بیس برس میں کرکٹ میں ہم پہلے سے پانچویں' ہاکی میں ساتویں اور اسکواش میں غالباً 30 ویں درجے تک آگئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ اولمپکس میں ہمارے کسی اتھلیٹ کو برونز میڈل تک نصیب نہیں ہوا۔
اس ساری گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ہم نے ان 65 برسوں میں اپنے سرمائے میں اضافہ کرنے کے بجائے وہ تھوڑی بہت پونجی بھی گنوا دی ہے جو کبھی ہمارے پاس ہوا کرتی تھی لیکن کسی فلسفی کا قول ہے کہ اپنا منہ سورج کی طرف رکھو تاکہ تمہارا سایہ تم سے پیچھے گرے میں سمجھتا ہوں کہ یہ اصول افراد کے ساتھ ساتھ قوموں پر بھی صادق آتا ہے انفرادی سطح پر آج بھی ہمارے پاس دنیا کو دکھانے کے لیے کئی روشن مثالیں موجود ہیں اور یہی اس تاریک تصویر کا وہ روشن پہلو ہے جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں آنے والے کل کو دیکھنا اور اس میں عزت اور عظمت سے زندہ رہنے کے لیے اپنا لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا اگر ہم فوری طور پر صرف دو اصولوں یعنی میرٹ اور انصاف پر ہی قائم ہو جائیں تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا آنے والا کل پہلے روشن اور پھر روشن تر ہوتا چلا جائے گا۔
یوں تو اس تبدیلی کے عمل سے پورے معاشرے کو گزرنا ہو گا لیکن اگر میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اسے اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے تو مثبت تبدیلیوں کا یہ سفر ناقابل تصور حد تک تیز رفتار اور تخلیقی امکانات سے بھرپور ہو سکتا ہے۔ میں نے 6 برس قبل یوم پاکستان یعنی 23 مارچ کے حوالے سے ایک نظم لکھی تھی تب اس مبارک دن کی چھیاسٹھویں سال گرہ تھی آج یوم آزادی کے 65 برس مکمل ہو رہے ہیں اور یوں گویا ہم چھیاسٹھویں برس میں داخل ہو رہے ہیں تو آئیے اس نظم کو اسی حوالے سے پڑھتے ہیں اور مل کر دعا بھی کرتے ہیں کہ اگلی سالگرہ کے موقع پر ہم پاکستان کا وہ روپ دیکھ سکیں کہ جس کے لیے یہ وطن قائم ہوا تھا۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
چھیاسٹھ سال پہلے ایک دن ایسا بھی آیا تھا
جب اک سورج نکلنے پر
چمکتی دھوپ پھیلی تھی تو منظر جگمگایا تھا
اگرچہ میں نے وہ منظر بچشم خود نہیں دیکھا
مگر جب یاد کرتا ہوں تو سانسیں گنگناتی ہیں
کئی صدیوں سے صحرا میں بکھرتی ریت کی صورت
کروڑوں لوگ تھے جن کا
نہ کوئی نام لیتا تھا نہ کچھ پہچان تھی باقی
ہر اک رستے میں وحشت تھی
سبھی آنکھوں میں حسرت تھی
نہ آبا سی ہنرمندی نہ اگلی شان تھی باقی
کھلا سر پر جو اس اعلان کا خوشبو بھرا سایا
ہلالی سبز پرچم کا وہ ٹھنڈا دلربا سایا
تو ان کی جاں میں جاں آئی
لہو میں پھر سے کوئی گمشدہ سی روشنی پھیلی
دہن میں پھر زباں آئی
چھیاسٹھ سال پہلے کا وہ اک احسان مت بھولو
خدا کی خاص رحمت ہے یہ پاکستان' مت بھولو
ابھی ابھی میں ایک ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ سے فارغ ہوا ہوں جس کا موضوع تھا کہ ہم زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اسپورٹس کے میدان میں بھی زوال اور افراتفری کا شکار کیوں اور کیسے ہیں؟ کیوں اٹھارہ کروڑ آبادی والا یہ ملک ان ستر ملکوں کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہے جنہوں نے اولمپکس 2012 میں کم از کم ایک میڈل تو جیتا ہے۔ یہ صورت حال بظاہر بے حد گھمبیر اور مایوس کن بلکہ شرمناک ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ آج سے صرف اٹھارہ بیس برس پہلے ہمارا یہی وطن عزیز چار کھیلوں یعنی کرکٹ' ہاکی' اسکواش اور اسنوکر میں بیک وقت ورلڈ چیمپیئن ہوا کرتا تھا۔ یہ بات میں نے ''پدرم سلطان بود'' کے حوالے سے نہیں بلکہ یہ واضح کرنے کے لیے بیان کی ہے کہ مسئلہ مٹی کی زرخیزی کا نہیں بلکہ اس طریق کار اور رویے کا ہے جو ہمارے نام نہاد رہنمائوں اور پالیسی ساز اداروں کا ہے کہ جن کی نااہلی' موقع پرستی اور لوٹ مار کی وجہ سے ہماری نرسریاں ختم اور متعلقہ ادارے ایک ایسی دلدل کی شکل اختیار کر گئے کہ ہم مسلسل نیچے ہی نیچے گرتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ تو ہے ہمارے ''آج'' کی صورت حال لیکن میں آج وطن عزیز کی 65 ویں سالگرہ کے موقع پر اس گزشتہ کل کی بات کرنا چاہتا ہوں جب ابھی انتشار کا موجودہ منظرنامہ ایک زندہ حقیقت کی شکل میں نہیں ڈھلا تھا اور اس کے ساتھ ہی میں آیندہ کل کے اس تصوراتی منظر کی ایک جھلک بھی پیش کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
ایک ہی آدم خاکی کی اولاد ہونے کے ناتے سے آج دنیا کے مختلف علاقوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے ہمارے بھائی بند ''عروج'' کے اس منظر کا حصہ بن چکے ہیں مگر ہم ابھی تک (انفرادی سطح پر ناموری حاصل کرنے والی مستثنیات سے قطع نظر) بطور ایک قوم اور معاشرے کے' اس عالمی دوڑ میں Also Ran والی صف میں ہی شامل ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے ان شعبوں میں بھی نرسریاں اور موثر' فعال ادارے نہیں بنائے جن میں ہمیں قدرت کی طرف سے ایک عمدہ آغاز مل گیا تھا۔ آج کے ترقی یافتہ ملکوں کی ہمہ جہت ترقی کے راز کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو تین بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں۔
-1 نرسری: یعنی ابتدائی سطح سے ہی بچوں کو ان کی استعداد اور قدرتی صلاحیتوں کے مطابق تربیت کے بھرپور مواقع مہیا کرنا اور انھیں اس راستے پر ڈال دینا جہاں وہ بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔
-2 سہولیات اور حوصلہ افزائی: گائوں اسکول اور شہر کی سطح پر بچوں کو وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں جن سے انھیں آگے بڑھنے اور اپنی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملے اور اس کے ساتھ ساتھ تربیت کے حوالے سے بھی ان کی سوچ اور طرز عمل میں صفائی' ہمت' استقلال اور معاشرتی آداب کی پابندی کو فروغ دیا جائے اور کشمکش کی صورت حال میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں۔
-3 موثر' فعال اور منظم اداروں کا قیام:
اقبال نے کہا تھا
جہاں تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
وہ ادارے جو سنگ و خشت کی عالی شان عمارتوں میں سفارش' کنبہ پروری اور سیاسی دخل اندازی کی وجہ سے نااہل یا کم اہل لوگوں کی ''شکارگاہ'' بنا دیے جائیں وہ کبھی بھی اس Talent کی حفاظت' پرورش' ترقی اور تربیت نہیں کر سکتے جو نچلی سطح پر قائم نرسریوں کی Output ہو یا غیرمعمولی انفرادی صلاحیتوں کی بنا پر اوپر آتی ہے۔ پروفیشنل اداروں میں سیاست کی بنیاد پر کی جانے والی تقرریاں سارے نظام کا بیڑا غرق کر دیتی ہیں مثال کی ضرورت ہو تو ریلوے اور اسپورٹس سے متعلق اداروں کو دیکھا جا سکتا ہے کہ گزشتہ بیس برس میں کرکٹ میں ہم پہلے سے پانچویں' ہاکی میں ساتویں اور اسکواش میں غالباً 30 ویں درجے تک آگئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ اولمپکس میں ہمارے کسی اتھلیٹ کو برونز میڈل تک نصیب نہیں ہوا۔
اس ساری گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ہم نے ان 65 برسوں میں اپنے سرمائے میں اضافہ کرنے کے بجائے وہ تھوڑی بہت پونجی بھی گنوا دی ہے جو کبھی ہمارے پاس ہوا کرتی تھی لیکن کسی فلسفی کا قول ہے کہ اپنا منہ سورج کی طرف رکھو تاکہ تمہارا سایہ تم سے پیچھے گرے میں سمجھتا ہوں کہ یہ اصول افراد کے ساتھ ساتھ قوموں پر بھی صادق آتا ہے انفرادی سطح پر آج بھی ہمارے پاس دنیا کو دکھانے کے لیے کئی روشن مثالیں موجود ہیں اور یہی اس تاریک تصویر کا وہ روشن پہلو ہے جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں آنے والے کل کو دیکھنا اور اس میں عزت اور عظمت سے زندہ رہنے کے لیے اپنا لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا اگر ہم فوری طور پر صرف دو اصولوں یعنی میرٹ اور انصاف پر ہی قائم ہو جائیں تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا آنے والا کل پہلے روشن اور پھر روشن تر ہوتا چلا جائے گا۔
یوں تو اس تبدیلی کے عمل سے پورے معاشرے کو گزرنا ہو گا لیکن اگر میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اسے اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے تو مثبت تبدیلیوں کا یہ سفر ناقابل تصور حد تک تیز رفتار اور تخلیقی امکانات سے بھرپور ہو سکتا ہے۔ میں نے 6 برس قبل یوم پاکستان یعنی 23 مارچ کے حوالے سے ایک نظم لکھی تھی تب اس مبارک دن کی چھیاسٹھویں سال گرہ تھی آج یوم آزادی کے 65 برس مکمل ہو رہے ہیں اور یوں گویا ہم چھیاسٹھویں برس میں داخل ہو رہے ہیں تو آئیے اس نظم کو اسی حوالے سے پڑھتے ہیں اور مل کر دعا بھی کرتے ہیں کہ اگلی سالگرہ کے موقع پر ہم پاکستان کا وہ روپ دیکھ سکیں کہ جس کے لیے یہ وطن قائم ہوا تھا۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
چھیاسٹھ سال پہلے ایک دن ایسا بھی آیا تھا
جب اک سورج نکلنے پر
چمکتی دھوپ پھیلی تھی تو منظر جگمگایا تھا
اگرچہ میں نے وہ منظر بچشم خود نہیں دیکھا
مگر جب یاد کرتا ہوں تو سانسیں گنگناتی ہیں
کئی صدیوں سے صحرا میں بکھرتی ریت کی صورت
کروڑوں لوگ تھے جن کا
نہ کوئی نام لیتا تھا نہ کچھ پہچان تھی باقی
ہر اک رستے میں وحشت تھی
سبھی آنکھوں میں حسرت تھی
نہ آبا سی ہنرمندی نہ اگلی شان تھی باقی
کھلا سر پر جو اس اعلان کا خوشبو بھرا سایا
ہلالی سبز پرچم کا وہ ٹھنڈا دلربا سایا
تو ان کی جاں میں جاں آئی
لہو میں پھر سے کوئی گمشدہ سی روشنی پھیلی
دہن میں پھر زباں آئی
چھیاسٹھ سال پہلے کا وہ اک احسان مت بھولو
خدا کی خاص رحمت ہے یہ پاکستان' مت بھولو