صدر آصف علی زرداری کی الیکشن حکمت عملی ناکام

حالیہ انتخابات میں سیاسی معاملات پر گہری گرفت رکھنے والے صدر آصف علی زرداری کی حکمت عملی بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔

حالیہ انتخابات میں سیاسی معاملات پر گہری گرفت رکھنے والے صدر آصف علی زرداری کی حکمت عملی بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
پاکستان میں 11 مئی کو منعقدہ عام انتخابات کو ہماری قومی تاریخ میں کئی حوالوں سے سنگ میل کی حیثیت حاصل رہے گی۔

ان انتخابات میں عوامی غیض و غضب سابق حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ق) اور عوامی نیشنل پارٹی کو گزشتہ 5 سالہ بدترین لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روز گاری، ریکارڈ کرپشن، دہشت گردی، اقرباء پروری اور دیگر گونا گوں مسائل کے باعث بہا کر لے گیا۔

عوام نے ان جماعتوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے بری طرح مسترد کر دیا ہے، ان انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹ گئے، کئی عشروں کے وہ سیاسی خاندان جو ملک کی سیاست پر قابض تھے وہ ان انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہو چکے ہیں، اجارہ داریاں دم توڑ چکی ہیں ، انتخابی نتائج نے ہر شخص کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے، انتخابی نتائج سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اس بار عوام نے صرف اور صرف کارکردگی اور میرٹ کی بنیاد پر ووٹ دیا ہے، پنجاب سے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) کا ملک بھر اور اے این پی کا خیبر پختونخوا سے مکمل صفایا کر دیا گیا ہے، عوام نے مسلم لیگ ن کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے، میاں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن کر ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے جا رہے ہیں۔

حالیہ انتخابات میں سیاسی معاملات پر گہری گرفت رکھنے والے صدر آصف علی زرداری کی حکمت عملی بری طرح ناکام ہو گئی ہے، ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی قیادت دانستہ انتخابی مہم چلانے کے بجائے مکمل طور پر غائب رہی، پیپلز پارٹی کی قیادت کی یہ حکمت عملی تھی کہ تحریک انصاف مسلم لیگ ن کا ووٹ تقسیم کرے گی اور اس کا براہ راست فائدہ پیپلز پارٹی اٹھائے گی، تاہم پیپلز پارٹی کی تمام تدبیریں الٹی ہو گئیں، سیاسی تجزیہ نگاروں کی یہ رائے 100 فیصد درست ہے کہ ان انتخابات میں غالباً پہلی بار کرپٹ اور بدیانت سیاستدانوں کو عوام نے مسترد کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جمہوریت واقعی بہترین انتقام ہے۔

حالیہ عام انتخابات بڑی حد تک شفاف اور آزادانہ ہوئے ہیں، پاکستان تحریک انصاف میدان انتخابات میں تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے، سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ خیال تھا کہ تحریک انصاف 25 سے 30 قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کر پائے گی جبکہ دوسری طرف جہاں عمران خان اس حد تک پُرامید تھے کہ اس سونامی کے نتیجے میں ان کی جماعت ملک بھر میں کلین سویپ کر جائے گی اور وہ وزیر اعظم بن جائیں گے۔

تاہم عمران خان کا وزیر اعظم بننے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، انتخابی نتائج کے مطابق مرکز اور صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ نواز کو واضح برتری حاصل ہو چکی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کو تیسری بار وزاارت عظمیٰ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہے، مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے مرکز اور صوبہ پنجاب میں حکومت سازی کے لئے سیاسی رابطوں کا آغاز کر دیا ہے، میاں نواز شریف نے کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ کہا ہے کہ وہ ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے کے لئے تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے، انہوں نے بدترین لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روز گاری، اقتصادی بحرانوں کو ختم کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دے دی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وہ سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر سب کو ساتھ چلنے کی دعوت دے رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا تاحال میاں نواز شریف کی اسی پیشکش پر واضح ردعمل سامنے نہیں آیا ہے ، یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں مثبت ردعمل کا جلد اظہار کریں گی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اکثریت حاصل کرنے کیلئے آزاد ارکان اسمبلی سے رابطے شروع کر دیئے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ابھی تک مرکز میں مخلوط حکومت بنانے کا عندیہ نہیں دیا ہے، میاں نواز شریف حکومت سازی کے لئے سیاسی بیساکھیوں کا سہارا لینے سے اجتناب کر رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) چونکہ واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی اس لئے یہ غالب امکان ہے کہ مرکز میں وہ مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر چھوٹی جماعتوں کو اقتدار میں شریک کریں گے۔

ان انتخابات میں تحریک انصاف کے ملک کی تیسری سیاسی قوت کے طور پر سامنے آنے کے بعد سیاسی حلقے حیرت کا شکار ہو گئے ہیں، تحریک انصاف کی کامیابی پر مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں اضطراب پایا جاتا ہے، صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نے اے این پی کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ہے اور اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے، اے این پی اور مسلم لیگ (ق) کا ان انتخابات میں وجود ہی ختم ہو گیا ہے، صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کے امیدواروں نے مسلم لیگ (ن) کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقوں میں شاندار کامیابی حاصل کر کے اپنا وجود ثابت کر دیا ہے۔

یہ کامیابی مسلم لیگ (ن) کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے، ان انتخابات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اب عوام سیاسی طور پر باشعور ہو چکے ہیں اور انہیں سبز باغ دکھا کر بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا، مسلم لیگ (ن) کے نامزد وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ایک ایسے وقت وزارت عظمیٰ مل رہی ہے جب پاکستان اندرونی اور بیرونی طور پر بے شمار چیلنجز کا شکار ہے، ملکی تاریخ کا بدترین توانائی کا بحران ہے، اقتصادی فرنٹ پر بے شمار مشکلات کا سامنا ہے، بدترین دہشت گردی اور انتہا پسندی کا دور دورہ ہے، میاں نواز شریف کوملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لئے ساری توانائیاں صرف کرنا ہوںگی۔


زبوں حال معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے میاں نواز شریف کو امکانی طور پر بعض مشکل فیصلے کرنے ہوںگے، ملکی تاریخ میں یہ امر خوش آئند ہے کہ انتخابی مراحل خوش اسلوبی سے حل ہو گئے ہیں اور پُرامن انتقال اقتدار کا مرحلہ آئندہ چند روز تک مکمل ہو جائے گا، نواز شریف نے گزشتہ 5 سالوں کے دوران تمام تر نشیب و فراز کے باوجود جمہوریت کو پٹڑی سے نہ اترنے دیا اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کو جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام اور تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے 5 سالہ مدت پوری کرنے دی ۔

سابق حکمران جماعت کا انتخاب میں عوام نے ووٹ کے ذریعے جس طرح احتساب کیا ہے اگر مسلم لیگ ن نے اپنے منشور کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا اور عوام کو ریلیف نہ دیا تو آئندہ انتخابات میں یہی حشر مسلم لیگ (ن) کا بھی ہو سکتا ہے، باور کیا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف اپنے اعلانات کے تحت اس بار ضرور ڈلیور کریں گے، میاں نواز شریف کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اب ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، وہ سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی چارٹر کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

صدر آصف علی زرداری کی الیکشن حکمت عملی ناکام

اسلام آباد سے ملک منظور احمدکا تجزیہ

پاکستان میں 11 مئی کو منعقدہ عام انتخابات کو ہماری قومی تاریخ میں کئی حوالوں سے سنگ میل کی حیثیت حاصل رہے گی۔ ان انتخابات میں عوامی غیض و غضب سابق حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ق) اور عوامی نیشنل پارٹی کو گزشتہ 5 سالہ بدترین لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روز گاری، ریکارڈ کرپشن، دہشت گردی، اقرباء پروری اور دیگر گونا گوں مسائل کے باعث بہا کر لے گیا۔ عوام نے ان جماعتوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے بری طرح مسترد کر دیا ہے، ان انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹ گئے، کئی عشروں کے وہ سیاسی خاندان جو ملک کی سیاست پر قابض تھے وہ ان انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہو چکے ہیں، اجارہ داریاں دم توڑ چکی ہیں ، انتخابی نتائج نے ہر شخص کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے، انتخابی نتائج سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اس بار عوام نے صرف اور صرف کارکردگی اور میرٹ کی بنیاد پر ووٹ دیا ہے، پنجاب سے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) کا ملک بھر اور اے این پی کا خیبر پختونخوا سے مکمل صفایا کر دیا گیا ہے، عوام نے مسلم لیگ ن کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے، میاں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن کر ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے جا رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں سیاسی معاملات پر گہری گرفت رکھنے والے صدر آصف علی زرداری کی حکمت عملی بری طرح ناکام ہو گئی ہے، ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی قیادت دانستہ انتخابی مہم چلانے کے بجائے مکمل طور پر غائب رہی، پیپلز پارٹی کی قیادت کی یہ حکمت عملی تھی کہ تحریک انصاف مسلم لیگ ن کا ووٹ تقسیم کرے گی اور اس کا براہ راست فائدہ پیپلز پارٹی اٹھائے گی، تاہم پیپلز پارٹی کی تمام تدبیریں الٹی ہو گئیں، سیاسی تجزیہ نگاروں کی یہ رائے 100 فیصد درست ہے کہ ان انتخابات میں غالباً پہلی بار کرپٹ اور بدیانت سیاستدانوں کو عوام نے مسترد کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جمہوریت واقعی بہترین انتقام ہے۔

حالیہ عام انتخابات بڑی حد تک شفاف اور آزادانہ ہوئے ہیں، پاکستان تحریک انصاف میدان انتخابات میں تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے، سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ خیال تھا کہ تحریک انصاف 25 سے 30 قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کر پائے گی جبکہ دوسری طرف جہاں عمران خان اس حد تک پُرامید تھے کہ اس سونامی کے نتیجے میں ان کی جماعت ملک بھر میں کلین سویپ کر جائے گی اور وہ وزیر اعظم بن جائیں گے، تاہم عمران خان کا وزیر اعظم بننے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، انتخابی نتائج کے مطابق مرکز اور صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ نواز کو واضح برتری حاصل ہو چکی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کو تیسری بار وزاارت عظمیٰ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہے، مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے مرکز اور صوبہ پنجاب میں حکومت سازی کے لئے سیاسی رابطوں کا آغاز کر دیا ہے، میاں نواز شریف نے کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ کہا ہے کہ وہ ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے کے لئے تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے، انہوں نے بدترین لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روز گاری، اقتصادی بحرانوں کو ختم کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دے دی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وہ سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر سب کو ساتھ چلنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا تاحال میاں نواز شریف کی اسی پیشکش پر واضح ردعمل سامنے نہیں آیا ہے ، یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں مثبت ردعمل کا جلد اظہار کریں گی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اکثریت حاصل کرنے کیلئے آزاد ارکان اسمبلی سے رابطے شروع کر دیئے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ابھی تک مرکز میں مخلوط حکومت بنانے کا عندیہ نہیں دیا ہے، میاں نواز شریف حکومت سازی کے لئے سیاسی بیساکھیوں کا سہارا لینے سے اجتناب کر رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) چونکہ واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی اس لئے یہ غالب امکان ہے کہ مرکز میں وہ مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر چھوٹی جماعتوں کو اقتدار میں شریک کریں گے۔

ان انتخابات میں تحریک انصاف کے ملک کی تیسری سیاسی قوت کے طور پر سامنے آنے کے بعد سیاسی حلقے حیرت کا شکار ہو گئے ہیں، تحریک انصاف کی کامیابی پر مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں اضطراب پایا جاتا ہے، صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نے اے این پی کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ہے اور اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے، اے این پی اور مسلم لیگ (ق) کا ان انتخابات میں وجود ہی ختم ہو گیا ہے، صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کے امیدواروں نے مسلم لیگ (ن) کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقوں میں شاندار کامیابی حاصل کر کے اپنا وجود ثابت کر دیا ہے،

یہ کامیابی مسلم لیگ (ن) کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے، ان انتخابات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اب عوام سیاسی طور پر باشعور ہو چکے ہیں اور انہیں سبز باغ دکھا کر بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا، مسلم لیگ (ن) کے نامزد وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ایک ایسے وقت وزارت عظمیٰ مل رہی ہے جب پاکستان اندرونی اور بیرونی طور پر بے شمار چیلنجز کا شکار ہے، ملکی تاریخ کا بدترین توانائی کا بحران ہے، اقتصادی فرنٹ پر بے شمار مشکلات کا سامنا ہے، بدترین دہشت گردی اور انتہا پسندی کا دور دورہ ہے، میاں نواز شریف کوملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لئے ساری توانائیاں صرف کرنا ہوں گی،

زبوں حال معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے میاں نواز شریف کو امکانی طور پر بعض مشکل فیصلے کرنے ہوںگے، ملکی تاریخ میں یہ امر خوش آئند ہے کہ انتخابی مراحل خوش اسلوبی سے حل ہو گئے ہیں اور پُرامن انتقال اقتدار کا مرحلہ آئندہ چند روز تک مکمل ہو جائے گا، نواز شریف نے گزشتہ 5 سالوں کے دوران تمام تر نشیب و فراز کے باوجود جمہوریت کو پٹڑی سے نہ اترنے دیا اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کو جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام اور تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے 5 سالہ مدت پوری کرنے دی ۔

سابق حکمران جماعت کا انتخاب میں عوام نے ووٹ کے ذریعے جس طرح احتساب کیا ہے اگر مسلم لیگ ن نے اپنے منشور کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا اور عوام کو ریلیف نہ دیا تو آئندہ انتخابات میں یہی حشر مسلم لیگ (ن) کا بھی ہو سکتا ہے، باور کیا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف اپنے اعلانات کے تحت اس بار ضرور ڈلیور کریں گے، میاں نواز شریف کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اب ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، وہ سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی چارٹر کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
Load Next Story