پیپلز پارٹی عہدیداروں کے استعفے تنظیم نو کی ضرورت
پیپلزپارٹی کو پنجاب میں بدترین شکست ہوئی ہے اور 97 ء کا الیکشن ایک بار پھر دوہرایا گیا ہے۔
پیپلزپارٹی کو پنجاب میں بدترین شکست ہوئی ہے اور 97 ء کا الیکشن ایک بار پھر دوہرایا گیا ہے ۔
فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت پیپلزپارٹی کا ووٹر ووٹ ڈالنے ہی نہیں آیا تھا اس الیکشن میں ووٹرضرور نکلا مگر پیپلزپارٹی کو ووٹ نہیں پڑ سکا ۔ اس صورتحال کے اصل ذمہ دار پیپلزپارٹی کے دو سابق وزرائے اعظم ، سابق وزراء اور پارٹی لیڈر شپ ہے وہ 5سال میں مسائل حل نہیں کرسکے جس پر عام آدمی نے ووٹ کے ذریعے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔
سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے بطور وزیراعظم پارٹی کو نظر انداز کیا دونوں وزرائے اعظم اپنے خاندان اور دوستوں کو نوازنے میں لگے رہے وہ ملتان اور گوجرخاں سے باہر نظر نہ آئے جبکہ وزراء اپنی وزارتوں تک محدود رہے۔ حکومت میں بیڈ گورننس تھی۔ یوسف رضا گیلانی اپنی وزارت عظمیٰ کے چار سال ہر ہفتے لاہور آتے تھے مگر کبھی پارٹی کارکنوں سے ملاقات نہ کی ۔ میاں مصباح الرحمٰن کے خاندان کے تمام افراد کو سرکاری عہدے دیئے گئے اور جب الیکشن لڑنے کا وقت آیا تو وہ الیکشن سے بھاگ گئے۔
لطیف کھوسہ خود گورنر تھے، ان کے ایک بیٹے کو برطانیہ میں کمرشل اتاشی اور دوسرے کو واپڈا کا لیگل ایڈوائزر لگایا گیا مگر ان کی گورنر شپ کے دور میں کوئی سیاسی سرگرمیاں نہیں ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو خط و کتابت کے ذریعے بھی کارکنوں سے رابطہ رکھتے تھے مگر ایوان صدر کے پولیٹیکل سٹاف نے کبھی کسی کارکن کے خط کا جواب تک نہیں دیا۔ فریال تالپور کو کارکنوں کے مسائل میں بڑی دلچسپی تھی مگر ان تک رسائی نہیں ہونے دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر زرداری نے بھی ملک کو درپیش صورتحال کے پیش نظر پارٹی کو وقت نہیں دیا جتنا بے نظیر بھٹو دیا کرتی تھیں۔
پیپلزپارٹی نے ملک کے لئے 5سال مفاہمت کی سیاست کی مگر عوام نے اس سیاست کو کمپرومائز اور مفاد کی سیاست قرار دیا۔ اس طرح پیپلزپارٹی کو (ق) لیگ کے ساتھ سمجھوتے کا بڑا نقصان ہوا، پارٹی میں نچلی سطح پر اس اتحاد کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔ پیپلزپارٹی کو ق لیگ سے ایڈجسٹمنٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ (ق) لیگ کا اتحاد پیپلزپارٹی کے لئے بوجھ ثابت ہوا اور اس سے پارٹی کا امیج خراب ہوا۔گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود الیکشن نتائج پر گورنر شپ سے مستعفی ہوگئے ہیں اور اچھی روایت قائم کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ عوام نے لوڈ شیڈنگ ،مہنگائی اور بیروزگاری کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے پیپلزپارٹی پر غصہ نکالا ہے یہ عوام کا حق ہے یہ غصہ اگلی بار کسی اور پر بھی نکل سکتاہے۔
مخدوم احمد محمود نے آئندہ پیپلزپارٹی کے ورکر کے طور پر سیاست کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کو فعال بنانے کے لئے کام کریں گے۔گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود کا خاندان بدترین صورتحال میں بھی پیپلزپارٹی کو رحیم یار خاں سے 2 قومی اور4 صوبائی اسمبلی کی نشتیں دلانے میں کامیاب رہا ۔ سید یوسف رضا گیلانی کا استعفیٰ بھی اچھا اقدام ہے ۔ پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو ، صدر خیبر پختون خواہ انور سیف اللہ سمیت دیگر کئی پارٹی عہدیداروں نے بھی استعفے دے دئیے ہیں۔
اس وقت جو پارٹی عہدیدار استعفے دے رہے ہیں سب کو منظور کرکے نئے سرے سے تنطیم نو کی جائے اس مقصد کیلئے گراس روٹ لیول تک تبدیلی لانا پڑے گی۔ پیپلزپارٹی کو نظریاتی لوگوں کی ضرورت ہے پارٹی کے کمٹڈ اور چوری نہ کھانے والے لوگ آگے لائے جائیں جو پارٹی کی آئیڈیالوجی اور نظریاتی احساس کو سمجھتے ہوں۔ پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم میں لیڈر شپ نظر نہیں آرہی تھی۔ رحمٰن ملک کو انتخابی مہم میں بھیجا گیا مگر اس کو پسند نہیں کیا گیا۔ دراصل کارکنوں میں پارٹی کی لگن ختم ہوئی ہے جو الیکشن میں بھی نظر آیا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ الیکشن میں پولنگ ایجنٹ خرید کر لائے گئے حتٰی کہ بعض تنظیمی عہدیدار دوسروں کے ہاتھ بک گئے۔ پنجاب میں ایسی تنظیمی لیڈر شپ دی گئی جن کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور انہیں ورکرز کا علم تک نہیں تھا ۔
میاں منظور احمد وٹو کو بھی پنجاب کا صدر بنانے سے منفی اثرات پڑے۔ منظور وٹو کے سارے عزیز رشتہ دار دوسری پارٹیوں کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ امتیاز صفدر وڑائچ کو ہٹا کر وٹو کو صدر بنانے سے عام جیالا ناراض تھا۔ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں تنظیم کی تقسیم کا بھی نقصا ن ہوا ہے۔ عوام نے تاثر لیا کہ وہ پنجاب کو توڑنے آگئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ الیکشن میں واقعاتی عمل کی بجائے معجزاتی عمل سے سیاست پر یقین کرنے لگی تھی۔ الیکشن میں کوئی رہنمائی نہیں کررہا تھا۔ پارٹی امیدوار انفرادی طور پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں جماعتوں نے بھرپور وسائل استعمال کئے پی ٹی آئی اور ن لیگ نے سنٹرلائز مہم چلائی ۔ پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو بے یارو مددگار چھوڑدیا گیا۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی کارکنوں کو نظرا نداز کیا گیا۔
پارٹی کے اندر نئے خون اور جوش کی ضرورت ہے جو آنے والے وقت میں بلاول بھٹو کے ساتھی بن سکیں، اب پیپلزپارٹی کو یہ بھی طے کرنا ہے کہ کیا رحمٰن ملک ، ڈاکٹر عاصم حسین، فاروق ایچ نائیک، فرزانہ راجہ اور لطیف کھوسہ نے پارٹی کو چلانا ہے۔ اس وقت ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ کیا پیپلزپارٹی بڑی اپوزیشن پارٹی بھی بن سکے گی یا نہیں؟ سندھ حکومت میں پیپلزپارٹی کے لئے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اچھی گورننس دیں۔ سندھ کا وزیراعلیٰ میرٹ پر بنایاجائے اور سابق روایات کو نہ دہرایا جائے۔
یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا صدر زرداری خود پیچھے رہ کر بلاول بھٹو کو موقع دیں گے اور بلاول بھٹو کو پنجاب میں بیٹھ کر سیاست کرنا ہوگی ۔ اگر وہ بڑے جلسے نہیں کرسکتے تووہ بلاول ہاؤس لاہور یا اضلاع میں 500افراد کی میٹنگ کریں۔ بے نظیر بھٹو 97ء میں پارٹی کو واپس لائی تھیں۔ دیکھنا ہے کہ بلاول بھٹو پارٹی کو واپس لاسکیں گے یا نہیں۔
فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت پیپلزپارٹی کا ووٹر ووٹ ڈالنے ہی نہیں آیا تھا اس الیکشن میں ووٹرضرور نکلا مگر پیپلزپارٹی کو ووٹ نہیں پڑ سکا ۔ اس صورتحال کے اصل ذمہ دار پیپلزپارٹی کے دو سابق وزرائے اعظم ، سابق وزراء اور پارٹی لیڈر شپ ہے وہ 5سال میں مسائل حل نہیں کرسکے جس پر عام آدمی نے ووٹ کے ذریعے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔
سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے بطور وزیراعظم پارٹی کو نظر انداز کیا دونوں وزرائے اعظم اپنے خاندان اور دوستوں کو نوازنے میں لگے رہے وہ ملتان اور گوجرخاں سے باہر نظر نہ آئے جبکہ وزراء اپنی وزارتوں تک محدود رہے۔ حکومت میں بیڈ گورننس تھی۔ یوسف رضا گیلانی اپنی وزارت عظمیٰ کے چار سال ہر ہفتے لاہور آتے تھے مگر کبھی پارٹی کارکنوں سے ملاقات نہ کی ۔ میاں مصباح الرحمٰن کے خاندان کے تمام افراد کو سرکاری عہدے دیئے گئے اور جب الیکشن لڑنے کا وقت آیا تو وہ الیکشن سے بھاگ گئے۔
لطیف کھوسہ خود گورنر تھے، ان کے ایک بیٹے کو برطانیہ میں کمرشل اتاشی اور دوسرے کو واپڈا کا لیگل ایڈوائزر لگایا گیا مگر ان کی گورنر شپ کے دور میں کوئی سیاسی سرگرمیاں نہیں ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو خط و کتابت کے ذریعے بھی کارکنوں سے رابطہ رکھتے تھے مگر ایوان صدر کے پولیٹیکل سٹاف نے کبھی کسی کارکن کے خط کا جواب تک نہیں دیا۔ فریال تالپور کو کارکنوں کے مسائل میں بڑی دلچسپی تھی مگر ان تک رسائی نہیں ہونے دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر زرداری نے بھی ملک کو درپیش صورتحال کے پیش نظر پارٹی کو وقت نہیں دیا جتنا بے نظیر بھٹو دیا کرتی تھیں۔
پیپلزپارٹی نے ملک کے لئے 5سال مفاہمت کی سیاست کی مگر عوام نے اس سیاست کو کمپرومائز اور مفاد کی سیاست قرار دیا۔ اس طرح پیپلزپارٹی کو (ق) لیگ کے ساتھ سمجھوتے کا بڑا نقصان ہوا، پارٹی میں نچلی سطح پر اس اتحاد کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔ پیپلزپارٹی کو ق لیگ سے ایڈجسٹمنٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ (ق) لیگ کا اتحاد پیپلزپارٹی کے لئے بوجھ ثابت ہوا اور اس سے پارٹی کا امیج خراب ہوا۔گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود الیکشن نتائج پر گورنر شپ سے مستعفی ہوگئے ہیں اور اچھی روایت قائم کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ عوام نے لوڈ شیڈنگ ،مہنگائی اور بیروزگاری کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے پیپلزپارٹی پر غصہ نکالا ہے یہ عوام کا حق ہے یہ غصہ اگلی بار کسی اور پر بھی نکل سکتاہے۔
مخدوم احمد محمود نے آئندہ پیپلزپارٹی کے ورکر کے طور پر سیاست کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کو فعال بنانے کے لئے کام کریں گے۔گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود کا خاندان بدترین صورتحال میں بھی پیپلزپارٹی کو رحیم یار خاں سے 2 قومی اور4 صوبائی اسمبلی کی نشتیں دلانے میں کامیاب رہا ۔ سید یوسف رضا گیلانی کا استعفیٰ بھی اچھا اقدام ہے ۔ پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو ، صدر خیبر پختون خواہ انور سیف اللہ سمیت دیگر کئی پارٹی عہدیداروں نے بھی استعفے دے دئیے ہیں۔
اس وقت جو پارٹی عہدیدار استعفے دے رہے ہیں سب کو منظور کرکے نئے سرے سے تنطیم نو کی جائے اس مقصد کیلئے گراس روٹ لیول تک تبدیلی لانا پڑے گی۔ پیپلزپارٹی کو نظریاتی لوگوں کی ضرورت ہے پارٹی کے کمٹڈ اور چوری نہ کھانے والے لوگ آگے لائے جائیں جو پارٹی کی آئیڈیالوجی اور نظریاتی احساس کو سمجھتے ہوں۔ پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم میں لیڈر شپ نظر نہیں آرہی تھی۔ رحمٰن ملک کو انتخابی مہم میں بھیجا گیا مگر اس کو پسند نہیں کیا گیا۔ دراصل کارکنوں میں پارٹی کی لگن ختم ہوئی ہے جو الیکشن میں بھی نظر آیا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ الیکشن میں پولنگ ایجنٹ خرید کر لائے گئے حتٰی کہ بعض تنظیمی عہدیدار دوسروں کے ہاتھ بک گئے۔ پنجاب میں ایسی تنظیمی لیڈر شپ دی گئی جن کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور انہیں ورکرز کا علم تک نہیں تھا ۔
میاں منظور احمد وٹو کو بھی پنجاب کا صدر بنانے سے منفی اثرات پڑے۔ منظور وٹو کے سارے عزیز رشتہ دار دوسری پارٹیوں کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ امتیاز صفدر وڑائچ کو ہٹا کر وٹو کو صدر بنانے سے عام جیالا ناراض تھا۔ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں تنظیم کی تقسیم کا بھی نقصا ن ہوا ہے۔ عوام نے تاثر لیا کہ وہ پنجاب کو توڑنے آگئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ الیکشن میں واقعاتی عمل کی بجائے معجزاتی عمل سے سیاست پر یقین کرنے لگی تھی۔ الیکشن میں کوئی رہنمائی نہیں کررہا تھا۔ پارٹی امیدوار انفرادی طور پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں جماعتوں نے بھرپور وسائل استعمال کئے پی ٹی آئی اور ن لیگ نے سنٹرلائز مہم چلائی ۔ پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو بے یارو مددگار چھوڑدیا گیا۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی کارکنوں کو نظرا نداز کیا گیا۔
پارٹی کے اندر نئے خون اور جوش کی ضرورت ہے جو آنے والے وقت میں بلاول بھٹو کے ساتھی بن سکیں، اب پیپلزپارٹی کو یہ بھی طے کرنا ہے کہ کیا رحمٰن ملک ، ڈاکٹر عاصم حسین، فاروق ایچ نائیک، فرزانہ راجہ اور لطیف کھوسہ نے پارٹی کو چلانا ہے۔ اس وقت ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ کیا پیپلزپارٹی بڑی اپوزیشن پارٹی بھی بن سکے گی یا نہیں؟ سندھ حکومت میں پیپلزپارٹی کے لئے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اچھی گورننس دیں۔ سندھ کا وزیراعلیٰ میرٹ پر بنایاجائے اور سابق روایات کو نہ دہرایا جائے۔
یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا صدر زرداری خود پیچھے رہ کر بلاول بھٹو کو موقع دیں گے اور بلاول بھٹو کو پنجاب میں بیٹھ کر سیاست کرنا ہوگی ۔ اگر وہ بڑے جلسے نہیں کرسکتے تووہ بلاول ہاؤس لاہور یا اضلاع میں 500افراد کی میٹنگ کریں۔ بے نظیر بھٹو 97ء میں پارٹی کو واپس لائی تھیں۔ دیکھنا ہے کہ بلاول بھٹو پارٹی کو واپس لاسکیں گے یا نہیں۔