سندھ میں پیپلز پارٹی کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کا احترام ضروری

پاکستان پیپلزپارٹی نے 11مئی 2013ء کے انتخابات میں سندھ میں پہلے سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کرلی ہیں۔۔۔


G M Jamali May 14, 2013
پاکستان پیپلزپارٹی نے 11مئی 2013ء کے انتخابات میں سندھ میں پہلے سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کرلی ہیں۔ فوٹو : فائل

پاکستان پیپلزپارٹی نے 11مئی 2013ء کے انتخابات میں سندھ میں پہلے سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کرلی ہیں لیکن باقی تین صوبوں میں اسے نشستیں نہیں ملی ہیں ۔

میڈیا اور دیگر شعبوں کے مبصرین مسلسل یہ تاثر دے رہے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران پیپلزپارٹی نے اچھی حکمرانی نہیں کی ، اس لیے عوام نے اسے مسترد کردیا ہے لیکن سندھ کے حوالے سے یہ دلیل درست ثابت نہیں ہوتی ہے۔ اگر خراب حکمرانی کی بنیاد پر عوام پیپلز پارٹی کو مسترد کرتے تو سندھ میں پیپلزپارٹی کو ایک سیٹ بھی نہ ملتی کیونکہ سندھ کے عوام پیپلز پارٹی کی حکومت سے زیادہ متاثر ہوتے، پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں تھی لہٰذا وہاں پیپلز پارٹی کو کچھ نہ کچھ نشستیں ملتیں ۔

اگر حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کسی سیاسی جماعت کو مسترد کرتے یا اسے پہلے سے زیادہ ووٹ دیتے تو سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی کچھ سیٹیں کم ہوتیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ پنجاب میں اگر مسلم لیگ (ن) کو بہتر حکمرانی کی وجہ سے زیادہ نشستیں ملی ہیں تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ سندھ میں بھی اچھی حکمرانی کی وجہ سے زیادہ نشستیں ملی ہیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خراب حکمرانی کی وجہ سے لوگوں نے پیپلز پارٹی کو مسترد کردیا ہے تو انہیں اپنی دلیل پرنظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ ان کی یہ دلیل بہت کمزور ہے۔

ملک بھر کے 100 سے زائد حلقوں میں دھاندلی کی اطلاعات الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ فرشتوں کے بھرپور کردار کی باتیں سر عام ہوگئی ہیں ۔ سندھ کے عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے کہ پیپلز پارٹی کو کمزور حکومت کا تحفہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ مختلف سیاسی جماعتوں کی بلیک میلنگ کا شکار رہے جبکہ نوازشریف کو ہر بار ایسی اکثریت دی جاتی ہے کہ کسی سے اتحاد کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔

پاکستان کے حالیہ عام انتخابات میں جو نتائج سامنے آئے ہیں ، ان کے عوامل بہت مختلف ہیں اور ان کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ان نتائج کی وجہ سے کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) پنجابیوں کی پارٹی ہے اور پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہوگئی ہے ۔

اس طرح کے حالات پیدا کرنے کے لیے بعض قوتیں طویل عرصے سے کوششیں کر رہی تھیں ۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کئی عشروں کی بدامنی کے باعث وہاں کی حقیقی جمہوری قوتوں کو کمزورکردیا گیا ہے اور وہاں کے عوام کے مینڈیٹ کے حصے بخرے کردیئے گئے ہیں ۔ اگر سندھ کے لوگ لسانی بنیادوں پر سوچتے تو قوم پرست سیاسی جماعتوں کو زیادہ نشستیں ملتیں ، جن کے ساتھ میاں نواز شریف نے اتحاد کیا ہواہے ۔ لیکن قوم پرستوں کو ایک نشست بھی نہیں ملی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ سندھ کے عوام پاکستان کے حصے بخرے کرنے والے لوگوں کے جھانسے میں نہیں آئے ۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کے اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود اسے حکومت بنانے سے روکا جا رہا ہے، اس ضمن میں کوششیں تیز ہوگئی ہیں ۔ اس طرح کی کوششیں کرنے والوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ پاکستان میں جو انتخابی مینڈیٹ آیا ہے ، اس سے پہلے ہی پاکستان میں نسلی اور لسانی عصبیتیں پروان چڑھی ہیں ۔ اگر سندھ میں اس طرح کی کوششیں جاری رکھی گئیں تو اس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے ۔ انتخابات سے پہلے ایک ایسا ماحول بنایا گیا ، جس میں پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی ۔

سکیورٹی خطرات کے باعث پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری باہر نہیں نکل سکے کیونکہ پیپلز پارٹی پہلے ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر المیہ سے دوچار ہوچکی ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو یہ احساس ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد آزاد ہیں اور جمہوری کارکن سیاست نہیں کرسکتے ہیں ۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہیدکرنے والے طاقتور حلقے اسی طرح کی کوئی دوسری بہیمانہ کارروائی کرنے سے بھی نہیں ہچکچائیں گے۔ سندھ کے لوگ یہ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا ہے وہ ایک بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت ہوا ہے۔ اگر اس مرحلے پر پیپلزپارٹی کو سندھ میں حکومت کے قیام کے لیے روکا گیا یا بعدازاں اسے ناکام بنانے کی کوشش کی گئی تو پھر میں احساس محرومی اور زیادہ بڑھے گا اور احتجاجی سیاست پروان چڑھے گی۔

اس وقت پیپلز پارٹی کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ ان کے جیتے ہوئے امیدواروں کے نتائج تبدیل کیے جا رہے ہیں تاکہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہ کرسکے اور اگر وہ حکومت بنائے تو دوسری سیاسی جماعتوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوجائے یا پھر حکومت نہ بنائے ۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ٹھٹھہ میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں حمید سومرو ، سسی پلیجو اور پروین لغاری اور نوشہروفیروز میں ڈاکٹر عبدالستار راجپر کے نتائج تبدیل کیے گئے ، جبکہ ٹھٹھہ کے صوبائی اسمبلی کہ حلقہ پی ایس 88 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار سید اویس مظفر کو پہلے جاری کردہ انتخابی نتائج کے مطابق اپنے حریف امیدوار پر 18 ہزار ووٹوں کی برتری تھی لیکن بعدازاں ان کی برتری کم کرکے 7 ہزار کردی گئی ۔

پیپلز پارٹی کی قیادت یہ بھی الزام لگا رہی ہے کہ بعض قوتیں سندھ کے مختلف اضلاع میں ہارے ہوئے امیدواروں سے احتجاجی مظاہرے کروا رہی ہیں تاکہ انتخابی نتائج بدلنے کا جواز پیدا کیا جاسکے اور کراچی میں انتخابات کے دوران ہونے والی بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جاسکے ۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو چاہیے کہ وہ سندھ میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتوں کا ہرگز ساتھ نہ دے اور کھلے دل کے ساتھ پیپلز پارٹی کو اس طرح سندھ میں حکومت کرنے دے ، جس طرح گزشتہ پانچ سال کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومت نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو نہ صرف کھلے دل سے حکومت کرنے دی بلکہ اس کی ہر ممکن معاونت کی ۔ سندھ کے حالات بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ سندھ میں حکومت سازی کے عمل میں رخنہ نہ ڈالا جائے اور پیپلز پارٹی کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کے خلاف کوئی مصنوعی سیٹ اپ بنانے سے گریز کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں