بلوچستان میں مسلم لیگ ن مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی
بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 14 جنرل نشستوں اور صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں میں سے 50 پر انتخابی معرکہ ہوا، ایک نشست۔۔۔
ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی عام انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔
بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 14 جنرل نشستوں اور صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں میں سے 50 پر انتخابی معرکہ ہوا، ایک نشست پی بی 32 جھل مگسی پر اُمیدوار کے قتل کے باعث انتخابات ملتوی کردیئے گئے تھے۔
گیارہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں جس طرح بلوچستان میں ایک تاثر مل رہا تھا کہ یہاں ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہے گا لیکن خلاف توقع کوئٹہ ،پشین، ژوب ، لورالائی، چمن سمیت پشتون بیلٹ میں عوام میں کافی گہما گہمی اور جوش و خروش دیکھنے میں آیا جبکہ بلوچ بیلٹ تربت، گوادر ، خضدار، آواران، قلات، مستونگ میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق بلوچستان میں مجموعی طور پر ٹرن آؤٹ40 سے45 فیصد رہا ۔
بلوچستا ن میں ان عام انتخابات کے بعد قوم پرست جماعتوں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے جس نے دس نشست حاصل کیں جبکہ مسلم لیگ (ن) 9 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی ، نیشنل پارٹی 7، جمعیت علماء اسلام(ف) 6، مسلم لیگ (ق) 4، بی این پی مینگل کو 2 سیٹ ملیں جبکہ بی این پی عوامی ، اے این پی ،جاموٹ قومی موومنٹ اور مجلس وحدت المسلمین کے حصے میں ایک ایک نشست آئی۔ آٹھ آزاد اُمیدوار بھی کامیاب ہو کر بلوچستان اسمبلی تک رسائی حاصل کرچکے ہیں۔
2008ء میں بلوچستان میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھرنے والی مسلم لیگ (ق) کو چار جبکہ صوبے میں اپنی حکومت بنانے والی پیپلز پارٹی کے حصے میں ایک نشست بھی نہیں آئی۔ اسی طرح بی این پی عوامی جسے 2008ء میں5 نشستیں ملی تھیں اس مرتبہ وہ صرف ایک نشست حاصل کرسکی۔
قومی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کی کارکردگی پہلے کی نسبت بہتر رہی ۔جعفر آباد نصیر آباد سے سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی بھی قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب رہے جبکہ سابق وفاقی وزیرسردار عمر گورگیج،جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری،سابق وفاقی وزیر میر چنگیز جمالی ،جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حمد اللہ اور جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے سربراہ مولانا عصمت اللہ ناکام رہے۔
بلوچستان اسمبلی میں کامیاب ہوکر آنیو الے بڑے ناموں میں سابق وزراء اعلیٰ میر جان جمالی، صالح بھوتانی، اختر مینگل کے نام قابل ذکر ہیں جبکہ کئی نئے چہرے بھی اس مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ہیں ان میں سردار کمال خان بنگلزئی، نواب محمد خان شاہوانی، جاموٹ قومی موومنٹ کے ماجد ابڑو،اکبر آسکانی،مفتی گلاب ، حافظ معاذ اللہ، مولوی عبد المالک، منظور کاکڑ، نواب ایاز جوگیزئی،نصراللہ زیرے،رضا محمد بڑیچ،غلام دستگیر شامل ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی مخلوط حکومت ہی تشکیل پائے گی، آزاد حیثیت سے کامیاب ہو کر آنے والے ارکان کی زیادہ تر تعداد کا جھکاؤ مرکز میں حکومت بنانے والی پارٹی کی طرف ہوگا، ان تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ 8 آزاد اراکین کی اکثریت جلد ہی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلے گی جس کے بعد مسلم لیگ (ن) صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئے گی اور توقع ہے کہ آئندہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) ، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی مل کر مخلوط حکومت تشکیل دے گی،
اس حوالے سے آئندہ کی وزارت اعلیٰ کیلئے جو نام لئے جارہے ہیں ان میں مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری،نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک اور مسلم لیگ )(ن) کے جان محمد جمالی اور نوابزادہ جنگیز مری قابل ذکر ہیں ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پشتونخواملی عوامی پارٹی جو کہ جنرل نشستوں میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے وہ بھی وزارت اعلیٰ کیلئے اپنا اُمیدوار سامنے لاسکتی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، جماعت اسلامی، بی این پی عوامی اور جمعیت علماء اسلام نظریاتی نے بلوچستان میں ہونے والے انتخابی نتائج کویکسر مستردکرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا ہے کہ بلوچستان میں صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد نہیں ہوسکا اور الیکشن کے بجائے سلیکشن کی گئی ہے۔
اس حوالے سے ان جماعتوں نے اپنے اپنے طور پر احتجاجی عمل کا آغاز کردیا ہے، بی این پی مینگل نے اس حوالے سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا بھی دیا ، مرکزی رہنماؤں نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران الیکشن میں ہونے والی دھاندلیوں کے حوالے سے ثبوت بھی میڈیا کو دکھائے اس موقع پر ان رہنماؤں نے کہا کہ بی این پی اس حوالے سے آئندہ کا لائحہ عمل بھی طے کرے گی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گیارہ مئی کو الیکشن کے انعقاد کے دوران جمہوری وطن پارٹی پہلے ہی بلوچستان میں ہونے والے انتخابات پر عدم اعتماد کااظہار کرتے ہوئے بائیکاٹ کا اعلان کرچکی ہے۔ جے ڈبلیو پی کے سربراہ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی کا کہنا تھا کہ ڈیرہ بگٹی ایجنسی میں ان کے اُمیدوار کو پارٹی انتخابی نشان پہیہ کے بجائے بارہ سنگھا کا نشان دیا گیا جبکہ دالبندین میں ان کی خواتین ووٹرز پر تشدد کیا گیا تاکہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ نہ کرسکیں اس کے علاوہ کئی جگہوں پر پارٹی کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی اس لئے اُنہوں نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتیں جمعیت علماء اسلام نظریاتی، بی این پی مینگل، بی این پی عوامی، جے ڈبلیو پی اور دیگر کا مطالبہ ہے کہ کئی حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے لہٰذا وہاں انتخابات کو کالعدم قرار دے کر ازسر نو انتخابات کرائے جائیں اس حوالے سے ان سیاسی جماعتوں نے آپس میں رابطوں کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 14 جنرل نشستوں اور صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں میں سے 50 پر انتخابی معرکہ ہوا، ایک نشست پی بی 32 جھل مگسی پر اُمیدوار کے قتل کے باعث انتخابات ملتوی کردیئے گئے تھے۔
گیارہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں جس طرح بلوچستان میں ایک تاثر مل رہا تھا کہ یہاں ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہے گا لیکن خلاف توقع کوئٹہ ،پشین، ژوب ، لورالائی، چمن سمیت پشتون بیلٹ میں عوام میں کافی گہما گہمی اور جوش و خروش دیکھنے میں آیا جبکہ بلوچ بیلٹ تربت، گوادر ، خضدار، آواران، قلات، مستونگ میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق بلوچستان میں مجموعی طور پر ٹرن آؤٹ40 سے45 فیصد رہا ۔
بلوچستا ن میں ان عام انتخابات کے بعد قوم پرست جماعتوں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے جس نے دس نشست حاصل کیں جبکہ مسلم لیگ (ن) 9 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی ، نیشنل پارٹی 7، جمعیت علماء اسلام(ف) 6، مسلم لیگ (ق) 4، بی این پی مینگل کو 2 سیٹ ملیں جبکہ بی این پی عوامی ، اے این پی ،جاموٹ قومی موومنٹ اور مجلس وحدت المسلمین کے حصے میں ایک ایک نشست آئی۔ آٹھ آزاد اُمیدوار بھی کامیاب ہو کر بلوچستان اسمبلی تک رسائی حاصل کرچکے ہیں۔
2008ء میں بلوچستان میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھرنے والی مسلم لیگ (ق) کو چار جبکہ صوبے میں اپنی حکومت بنانے والی پیپلز پارٹی کے حصے میں ایک نشست بھی نہیں آئی۔ اسی طرح بی این پی عوامی جسے 2008ء میں5 نشستیں ملی تھیں اس مرتبہ وہ صرف ایک نشست حاصل کرسکی۔
قومی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کی کارکردگی پہلے کی نسبت بہتر رہی ۔جعفر آباد نصیر آباد سے سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی بھی قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب رہے جبکہ سابق وفاقی وزیرسردار عمر گورگیج،جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری،سابق وفاقی وزیر میر چنگیز جمالی ،جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حمد اللہ اور جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے سربراہ مولانا عصمت اللہ ناکام رہے۔
بلوچستان اسمبلی میں کامیاب ہوکر آنیو الے بڑے ناموں میں سابق وزراء اعلیٰ میر جان جمالی، صالح بھوتانی، اختر مینگل کے نام قابل ذکر ہیں جبکہ کئی نئے چہرے بھی اس مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ہیں ان میں سردار کمال خان بنگلزئی، نواب محمد خان شاہوانی، جاموٹ قومی موومنٹ کے ماجد ابڑو،اکبر آسکانی،مفتی گلاب ، حافظ معاذ اللہ، مولوی عبد المالک، منظور کاکڑ، نواب ایاز جوگیزئی،نصراللہ زیرے،رضا محمد بڑیچ،غلام دستگیر شامل ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی مخلوط حکومت ہی تشکیل پائے گی، آزاد حیثیت سے کامیاب ہو کر آنے والے ارکان کی زیادہ تر تعداد کا جھکاؤ مرکز میں حکومت بنانے والی پارٹی کی طرف ہوگا، ان تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ 8 آزاد اراکین کی اکثریت جلد ہی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلے گی جس کے بعد مسلم لیگ (ن) صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئے گی اور توقع ہے کہ آئندہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) ، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی مل کر مخلوط حکومت تشکیل دے گی،
اس حوالے سے آئندہ کی وزارت اعلیٰ کیلئے جو نام لئے جارہے ہیں ان میں مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری،نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک اور مسلم لیگ )(ن) کے جان محمد جمالی اور نوابزادہ جنگیز مری قابل ذکر ہیں ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پشتونخواملی عوامی پارٹی جو کہ جنرل نشستوں میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے وہ بھی وزارت اعلیٰ کیلئے اپنا اُمیدوار سامنے لاسکتی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، جماعت اسلامی، بی این پی عوامی اور جمعیت علماء اسلام نظریاتی نے بلوچستان میں ہونے والے انتخابی نتائج کویکسر مستردکرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا ہے کہ بلوچستان میں صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد نہیں ہوسکا اور الیکشن کے بجائے سلیکشن کی گئی ہے۔
اس حوالے سے ان جماعتوں نے اپنے اپنے طور پر احتجاجی عمل کا آغاز کردیا ہے، بی این پی مینگل نے اس حوالے سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا بھی دیا ، مرکزی رہنماؤں نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران الیکشن میں ہونے والی دھاندلیوں کے حوالے سے ثبوت بھی میڈیا کو دکھائے اس موقع پر ان رہنماؤں نے کہا کہ بی این پی اس حوالے سے آئندہ کا لائحہ عمل بھی طے کرے گی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گیارہ مئی کو الیکشن کے انعقاد کے دوران جمہوری وطن پارٹی پہلے ہی بلوچستان میں ہونے والے انتخابات پر عدم اعتماد کااظہار کرتے ہوئے بائیکاٹ کا اعلان کرچکی ہے۔ جے ڈبلیو پی کے سربراہ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی کا کہنا تھا کہ ڈیرہ بگٹی ایجنسی میں ان کے اُمیدوار کو پارٹی انتخابی نشان پہیہ کے بجائے بارہ سنگھا کا نشان دیا گیا جبکہ دالبندین میں ان کی خواتین ووٹرز پر تشدد کیا گیا تاکہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ نہ کرسکیں اس کے علاوہ کئی جگہوں پر پارٹی کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی اس لئے اُنہوں نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتیں جمعیت علماء اسلام نظریاتی، بی این پی مینگل، بی این پی عوامی، جے ڈبلیو پی اور دیگر کا مطالبہ ہے کہ کئی حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے لہٰذا وہاں انتخابات کو کالعدم قرار دے کر ازسر نو انتخابات کرائے جائیں اس حوالے سے ان سیاسی جماعتوں نے آپس میں رابطوں کا بھی فیصلہ کیا ہے۔