حیدرآباد اور زیریں سندھ کے انتخابی معرکوں کا احوال
پیپلز پارٹی کی اکثریت کے باوجود شازیہ مری اور سسی پلیجو ہار گئیں
عام انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق حیدرآباد میں ایم کیو ایم اور زیریں سندھ میں پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا۔
زیریں سندھ میں پی پی پی نے دس جماعتی اتحاد کا بھر پور مقابلہ کرتے ہوئے کلین سوئپ کر دیا ہے، تاہم ضلع سانگھڑ میں ہمیشہ کی طرح فنکشنل لیگ کا پلڑا بھاری رہا، لیکن تھرپارکر سے زیریں سندھ کے سب سے غیر متوقع نتائج سامنے آئے ہیں، جہاں پیپلز مسلم لیگ کے امیدوار کو شکست ہوئی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار نے میدان مار لیا۔
ایم کیو ایم نے حیدرآباد سے قومی اسمبلی کی 3 اور سندھ اسمبلی کی 4 نشستیں حاصل کر کے اپنے نشستیں محفوظ رکھنے کی روایت برقرار رکھی۔ غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 219 سے ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی نے 141030 ووٹ حاصل کر کے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔
ان کے قریب ترین حریف پی پی پی کے علی محمد سہتو رہے جنہوں نے 14697 ووٹ حاصل کیے۔ این اے 220 سے ایم کیو ایم کے امیدوار سید وسیم حسین نے 135886 ووٹ، جب کہ جے یو پی کے صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے 10990ووٹ حاصل کیے۔ تاہم انھوں نے پولنگ کے دوران ساڑھے تین بجے ہی الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا اسی نشست سے پی پی پی کے صغیر احمد قریشی نے 10552 ووٹ حاصل کیے۔ صوبائی اسمبلی کے شہری چار حلقوں پر بھی ایم کیو ایم کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔
پی ایس 45 ہیراآباد پھلیلی پریٹ آباد سے حق پرست امیدوار دلاور قریشی نے تحریک انصاف کے عثمان کینڈی کو شکست دی۔ پی ایس 46 پکا قلعہ، تالاب نمبر تین سے حق پرست امیدوار راشد خلجی نے کامیابی حاصل کی، ان کے حریف بھی تحریک انصاف کے پرویز گھانگھرا رہے۔ شہر کی دونوں صوبائی اسمبلیوں کی نشست پر تحریک انصاف کا خاموش ووٹ بینک ظاہر ہوا ہے۔ پی ایس 48 لطیف آباد سے ایم کیو ایم کے زبیر احمد خان، پی ایس 49 سے صابر قائمخانی نے کامیابی حاصل کی، جبکہ ضلع کے دیہی و شہری علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 221 پر پی پی پی کے سید امیر علی شاہ جاموٹ سرخرو ٹھہرے۔
پی ایس 47 سے پی پی امیدوار جام خان شورو نے28223 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ ان کے مدمقابل قومی عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو نے 16324ووٹ حاصل کیے۔ ایاز لطیف پلیجو یہاں سے دس جماعتی اتحاد کے امیدوار تھے۔ انہوں نے نتائج کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ پی ایس 50 سے پی پی پی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے 32 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ جب کہ ان کے قریب ترین حریف سابق تعلقہ ناظم خاوند بخش جیہجو رہے جنہوں نے 13790ووٹ حاصل کیے۔
ضلع بدین میں پی پی پی نے کلین سوئپ کیا جہاں سے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر پی پی پی جیت گئی، جس میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی فتح قابل ذکر ہے جنہوں نے فنکشنل لیگ کے امیدوار کو شکست دے کر مسلسل جیتنے کی ہیٹ ٹرک بھی مکمل کر لی۔ اس کے علاوہ پی ایس 57 سے ذوالفقار مرزا کے بیٹے حسنین مرزا نے 50251 ووٹ حاصل کر کے میدان مارا، جبکہ ان کے حریف مسلم لیگ فنکشنل کے علی بخش عرف پپو شاہ 28878 ووٹ حاصل کر سکے۔
ٹنڈوالہ یار کے منظر نامے کا جائزہ لیں تو یہاں کے سارے حلقے بھی پیپلز پارٹی نے اپنے نام کر لیے یہاں پیپلز پارٹی کا مقابلہ فنکشنل کہ بجائے نواز لیگ سے تھا، تاہم ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تیر ہی جیت گیا۔ ٹنڈوالہیار کے قومی اسمبلی حلقہ این اے 223 پر پیپلز پارٹی کے عبدالستار بچانی نے 91297 ووٹ لیکر بھاری اکثریت سے کامیاب حاصل کی، ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی راحیلہ گل مگسی نے67441 ووٹ حاصل کیے۔
ضلع کی صوبائی حلقہ 51 پر بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار سید ضیا عباس شاہ کامیاب قرار پائے۔ انھوں نے اپنے مخالف مسلم لیگ ن کے امیدوار ڈاکٹر عرفان گل مگسی کے 27219 ووٹوں کے مقابلے میں 46548 ووٹ حاصل کیے۔ حلقہ پی ایس 52 پر پیپلز پارٹی کے امداد علی پتافی کامیاب قرار پائے، جنہوں نے 44004 ووٹ حاصل کیے، جبکہ نواز لیگ کی ڈاکٹر راحیلہ مگسی کو 26674 ہی مل سکے۔
وادی مہران کے ایک اور ضلع میرپورخاص پر بھی پیپلز پارٹی کا سہ رنگی پرچم کی فتح یابی رہی، تاہم یہاں میرپورخاص شہر کی نشست پی ایس 64 پر امیدوار وقار بلند کے انتقال کی وجہ سے الیکشن ملتوی کر دیے گئے تھے۔ میرپورخاص میں باقی دو قومی اسمبلی اور تین صوبائی نشستوں پر پی پی پی کے امیدوار ہی سرخرو ٹھہرے۔ زیریں سندھ میں اس بار جن نشستوں پر پیپلز پارٹی کو سخت مزاحمت کا سامنا تھا وہ ضلع مٹیاری سے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں تھیں۔
جہاں سے ہمیشہ کی طرح اس بار پھر پی پی پی کے مخدوم امین فہیم چٹان کی طرح کھڑے تھے ان کے ساتھ ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر ان کے بھائی مخدوم رفیق الزماں اور ایک نشست پر ان کے صاحبزادے مخدوم جمیل الزماں میدان میں تھے۔ ضلع مٹیاری میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 218 پر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کے صدر مخدوم امین فہیم 95843 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو گئے۔ فنکشنل لیگ کے عبدالرزاق میمن نے 72266 ووٹ حاصل کیے۔
یوں مخدوم امین فہیم نے اس نشست سے مسلسل ساتویں بار منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا اور وہ سندھ کے پہلے سیاستدان بن گیے جو 1988 سے مسلسل اپنی نشست جیتتے آ رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 43 کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پی پی پی پی کے مخدوم جمیل الزماں 46306 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو گئے۔ فنکشنل لیگ کے نذیر راہو نے 38298 ووٹ حاصل کیے۔ سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 44 پر پی پی پی کے مخدوم رفیق الزماں 42492 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو گئے۔ فنکشنل لیگ کے محمد علی شاہ جاموٹ 37206 ووٹ حاصل کر سکے۔
ضلع سانگھڑ میں اس بار بھی تین میں سے دو قومی اسمبلی کی نشستیں فنکشنل لیگ اور ایک پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی، لیکن صوبائی اسمبلی میں فنکشنل لیگ کی ایک نشست جو کہ جام مدد علی کی تھی اس پر غیر متوقع طور پر پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا۔
ضلع سانگھڑ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 234 پر فنکشنل لیگ کے پیر بخش جونیجو 90087 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ پی پی پی پی کے فدا حسین ڈیرو نے 65721 ووٹ حاصل کیے۔ این اے 235 پر فنکشنل مسلم لیگ کے پیر صدر الدین شاہ راشدی 74032 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ یہاں سے شکست کا مزا چکھنے والی پی پی پی کی سابق صوبائی وزیر شازیہ مری نے 61690 ووٹ حاصل کیے۔ این اے 236 سے پی پی پی کے روشن دین جونیجو جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
سانگھڑ سے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 78 پر فنکشنل لیگ کے سعید خان نظامانی، پی ایس 79 سے فنکشنل لیگ کے ہی وریام فقیر نے کامیابی حاصل کی۔ پی ایس 80 پر فنکشنل لیگ کے حاجی خدا بخش راجڑ 49951 ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے۔
پی ایس81 پر غیر متوقع پر پیپلز پارٹی کے محمد خان جونیجو نے مسلم لیگ فنکشنل کے جام مدد علی کو 506 ووٹوں سے شکست دی۔ سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 82 پر پی پی پی کے فراز ڈیرو، حلقہ 83 پر پیپلز پارٹی کے شاہد خان تھہیم نے میدان مارا۔ این اے 235 اور پی ایس 80 سے شکست پانے والے پی پی پی کے امیدواروں سابق صوبائی وزیر شازیہ مری اور علی حسن ہنگورجو نے تعلقہ کھپرو کے 26 پولنگ اسٹیشن پر جعلی ووٹ کاسٹ کرنے کے خلاف درخواست ریٹرننگ افسر کے پاس جمع کرا دی۔ درخواست میں مذکورہ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کے انگوٹھوں کے نشانات کی نادرا سے تصدیق کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
نوابشاہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 213 پر صدر زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے 111667 ووٹ لے کر ہیٹ ٹرک مکمل کی جہاں، ایم کیو ایم کے عنایت علی رند نے 34019 ووٹ حاصل کیے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 214 بھی پیپلزپارٹی کے نام رہا۔
پی ایس 24 سے پی پی پی کے امیدوار طارق مسعود آرائیں 35517 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ ایم کیو ایم کے عاصم کبیر خانزادہ نے 26622 ووٹ حاصل کیے۔ پی ایس 25 سے سلیم رضا جلبانی نے کامیابی حاصل کی۔ پی ایس 26 سے پی پی پی کے سید فصیح حسین شاہ نے فنکشنل لیگ کے آصف شاہ جیلانی کو شکست دی۔ پی ایس 27 پر پی پی پی کے غلام قادر چانڈیو،حلقہ 28 پر پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر خان محمد بہادر ڈاہری نے کامیابی سمیٹی۔
ضلع جامشورو سے بھی پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تینوں نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ این اے 231 پر پی پی پی کے امیدوار ملک اسد سکندر نے 128668ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ ان کے قریب ترین حریف سندھ یونائیٹیڈ پارٹی کے سربراہ جلال محمود شاہ نے 58168 ووٹ حاصل کیے۔ جامشورو سے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 71 کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر سکندر شورو نے 43735 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کر لی، جب کہ جلال محمود شاہ کو 28290 ووٹ حاصل ہوئے۔
عمرکوٹ میں مختلف نتائج کے امکانات کے باوجود میدان پیپلزپارٹی کے ہاتھ رہا۔ این اے 228 پر پیپلز پارٹی کے نواب محمد یوسف تالپور نے97967 ووٹ حاصل کر کے میدان مار لیا اور اپنے جیتنے کی ہیٹ ٹرک بھی مکمل کی، یہاں سے تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی 84574 ووٹ حاصل کر سکے۔ ٹنڈو محمد خان سے قومی اسمبلی کے حلقہ 222 سے پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے99914 ووٹ حاصل کرکے مسلسل چھٹی بار کامیابی سمیٹی۔
ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ 237 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار صادق علی میمن نے شیرازی و ملکانی اتحاد کے ریاض شاہ شیرازی کو شکست دی، جب کہ حلقہ این اے 238 پر شیرازی و ملکانی اتحاد کے امیدوار سید ایاز شاہ شیرازی نے کامیابی حاصل کی۔ پی ایس 85 سے شیرازی و ملکانی اتحاد کے امیدوار امیر حیدر شاہ شیرازی نے سسی پلیجو کو شکست دی۔ پی ایس 86 سے سید شاہ حسین شاہ شیرازی، پی ایس87 پر محمد علی ملکانی، پی ایس 88 پر پیپلز پارٹی کے اویس مظفر نے کامیابی حاصل کر لی۔
جہاں سے شیرازی و ملکانی اتحاد کے امیدوار عثمان ملکانی صرف 20990 ووٹ حاصل کر سکے۔ نتائج دیکھ کر تو بظاہر لگتا ہے کہ شیرازی و ملکانی اتحاد نے قومی اسمبلی کی ایک اور پانچ میں سے چار صوبائی اسمبلی کی نشست جیت لیں جبکہ پی پی پی کے حصے میں ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست ہاتھ آئی۔ اویس مظفر، سسی پلیجو اور دیگر نے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کر دیا ان کا کہنا تھا کہ شیرازی گروپ کے ایما پر نتائج میں ہیرا پھیری کی گئی ہے۔
مٹھی میں 2008 میں قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں پر ارباب گروپ کا قبضہ تھا، لیکن اب یہاں سے ان کی بادشاہت ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست پی پی پی نے جیت لی ہے، جبکہ ایک ارباب غلام رحیم نے جیتی ہے جبکہ دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پی پی پی کو سبقت حاصل ہے۔ مٹھی میں این اے 229 پر غیر متوقع طور پر پی پی پی کے فقیر شیر محمد بلالانی نے میدان مار لیا۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ تھرپار کر سے پی پی پی نے ارباب خاندان کو قومی اسمبلی کی نشست پر ہرایا ہے۔ این اے 230 پر39 پولنگ اسٹیشن کے بھرے ہوئے بیلٹ باکس چھین کر جلا دیے گئے۔ جس کی وجہ سے ابھی تک نہ صرف اس نشست پر کوئی نتیجہ نہیں آ سکا۔
بلکہ پی ایس 63 کے نتائج بھی نہیں آ سکے، لیکن این اے 230 پر غوثیہ جماعت کے روحانی پیشوا و تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کو پی پی پی کے امیدوار پیر نور محمد شاہ جیلانی پر سبقت حاصل ہے۔ سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 60 پر پیپلز مسلم لیگ کے سربراہ و سابق وزیر اعلا ارباب غلام رحیم 51673 ووٹ لے کر کامیاب ہو گیے ان کے مخالف پی پی پی کے انجینئر گیان چند نے 34646 ووٹ حاصل کیے۔ پی ایس61 پر پی پی پی پی کے مہیش کمار ملانی نے 40917 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ ان کے مخالف امیدوار ارباب نعمت اللہ نے 28609 ووٹ حاصل کیے۔ پی ایس 62 پر 6 پولنگ اسٹیشن پر کاسٹ کیے جانے والے بیلٹ پیپر چھین کر جلا دیے گیے تھے جس کی وجہ سے تمام پولنگ اسٹیشنز کے نتائج نہیں آ سکے۔
زیریں سندھ میں پی پی پی نے دس جماعتی اتحاد کا بھر پور مقابلہ کرتے ہوئے کلین سوئپ کر دیا ہے، تاہم ضلع سانگھڑ میں ہمیشہ کی طرح فنکشنل لیگ کا پلڑا بھاری رہا، لیکن تھرپارکر سے زیریں سندھ کے سب سے غیر متوقع نتائج سامنے آئے ہیں، جہاں پیپلز مسلم لیگ کے امیدوار کو شکست ہوئی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار نے میدان مار لیا۔
ایم کیو ایم نے حیدرآباد سے قومی اسمبلی کی 3 اور سندھ اسمبلی کی 4 نشستیں حاصل کر کے اپنے نشستیں محفوظ رکھنے کی روایت برقرار رکھی۔ غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 219 سے ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی نے 141030 ووٹ حاصل کر کے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔
ان کے قریب ترین حریف پی پی پی کے علی محمد سہتو رہے جنہوں نے 14697 ووٹ حاصل کیے۔ این اے 220 سے ایم کیو ایم کے امیدوار سید وسیم حسین نے 135886 ووٹ، جب کہ جے یو پی کے صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے 10990ووٹ حاصل کیے۔ تاہم انھوں نے پولنگ کے دوران ساڑھے تین بجے ہی الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا اسی نشست سے پی پی پی کے صغیر احمد قریشی نے 10552 ووٹ حاصل کیے۔ صوبائی اسمبلی کے شہری چار حلقوں پر بھی ایم کیو ایم کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔
پی ایس 45 ہیراآباد پھلیلی پریٹ آباد سے حق پرست امیدوار دلاور قریشی نے تحریک انصاف کے عثمان کینڈی کو شکست دی۔ پی ایس 46 پکا قلعہ، تالاب نمبر تین سے حق پرست امیدوار راشد خلجی نے کامیابی حاصل کی، ان کے حریف بھی تحریک انصاف کے پرویز گھانگھرا رہے۔ شہر کی دونوں صوبائی اسمبلیوں کی نشست پر تحریک انصاف کا خاموش ووٹ بینک ظاہر ہوا ہے۔ پی ایس 48 لطیف آباد سے ایم کیو ایم کے زبیر احمد خان، پی ایس 49 سے صابر قائمخانی نے کامیابی حاصل کی، جبکہ ضلع کے دیہی و شہری علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 221 پر پی پی پی کے سید امیر علی شاہ جاموٹ سرخرو ٹھہرے۔
پی ایس 47 سے پی پی امیدوار جام خان شورو نے28223 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ ان کے مدمقابل قومی عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو نے 16324ووٹ حاصل کیے۔ ایاز لطیف پلیجو یہاں سے دس جماعتی اتحاد کے امیدوار تھے۔ انہوں نے نتائج کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ پی ایس 50 سے پی پی پی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے 32 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ جب کہ ان کے قریب ترین حریف سابق تعلقہ ناظم خاوند بخش جیہجو رہے جنہوں نے 13790ووٹ حاصل کیے۔
ضلع بدین میں پی پی پی نے کلین سوئپ کیا جہاں سے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر پی پی پی جیت گئی، جس میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی فتح قابل ذکر ہے جنہوں نے فنکشنل لیگ کے امیدوار کو شکست دے کر مسلسل جیتنے کی ہیٹ ٹرک بھی مکمل کر لی۔ اس کے علاوہ پی ایس 57 سے ذوالفقار مرزا کے بیٹے حسنین مرزا نے 50251 ووٹ حاصل کر کے میدان مارا، جبکہ ان کے حریف مسلم لیگ فنکشنل کے علی بخش عرف پپو شاہ 28878 ووٹ حاصل کر سکے۔
ٹنڈوالہ یار کے منظر نامے کا جائزہ لیں تو یہاں کے سارے حلقے بھی پیپلز پارٹی نے اپنے نام کر لیے یہاں پیپلز پارٹی کا مقابلہ فنکشنل کہ بجائے نواز لیگ سے تھا، تاہم ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تیر ہی جیت گیا۔ ٹنڈوالہیار کے قومی اسمبلی حلقہ این اے 223 پر پیپلز پارٹی کے عبدالستار بچانی نے 91297 ووٹ لیکر بھاری اکثریت سے کامیاب حاصل کی، ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی راحیلہ گل مگسی نے67441 ووٹ حاصل کیے۔
ضلع کی صوبائی حلقہ 51 پر بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار سید ضیا عباس شاہ کامیاب قرار پائے۔ انھوں نے اپنے مخالف مسلم لیگ ن کے امیدوار ڈاکٹر عرفان گل مگسی کے 27219 ووٹوں کے مقابلے میں 46548 ووٹ حاصل کیے۔ حلقہ پی ایس 52 پر پیپلز پارٹی کے امداد علی پتافی کامیاب قرار پائے، جنہوں نے 44004 ووٹ حاصل کیے، جبکہ نواز لیگ کی ڈاکٹر راحیلہ مگسی کو 26674 ہی مل سکے۔
وادی مہران کے ایک اور ضلع میرپورخاص پر بھی پیپلز پارٹی کا سہ رنگی پرچم کی فتح یابی رہی، تاہم یہاں میرپورخاص شہر کی نشست پی ایس 64 پر امیدوار وقار بلند کے انتقال کی وجہ سے الیکشن ملتوی کر دیے گئے تھے۔ میرپورخاص میں باقی دو قومی اسمبلی اور تین صوبائی نشستوں پر پی پی پی کے امیدوار ہی سرخرو ٹھہرے۔ زیریں سندھ میں اس بار جن نشستوں پر پیپلز پارٹی کو سخت مزاحمت کا سامنا تھا وہ ضلع مٹیاری سے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں تھیں۔
جہاں سے ہمیشہ کی طرح اس بار پھر پی پی پی کے مخدوم امین فہیم چٹان کی طرح کھڑے تھے ان کے ساتھ ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر ان کے بھائی مخدوم رفیق الزماں اور ایک نشست پر ان کے صاحبزادے مخدوم جمیل الزماں میدان میں تھے۔ ضلع مٹیاری میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 218 پر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کے صدر مخدوم امین فہیم 95843 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو گئے۔ فنکشنل لیگ کے عبدالرزاق میمن نے 72266 ووٹ حاصل کیے۔
یوں مخدوم امین فہیم نے اس نشست سے مسلسل ساتویں بار منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا اور وہ سندھ کے پہلے سیاستدان بن گیے جو 1988 سے مسلسل اپنی نشست جیتتے آ رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 43 کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پی پی پی پی کے مخدوم جمیل الزماں 46306 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو گئے۔ فنکشنل لیگ کے نذیر راہو نے 38298 ووٹ حاصل کیے۔ سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 44 پر پی پی پی کے مخدوم رفیق الزماں 42492 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو گئے۔ فنکشنل لیگ کے محمد علی شاہ جاموٹ 37206 ووٹ حاصل کر سکے۔
ضلع سانگھڑ میں اس بار بھی تین میں سے دو قومی اسمبلی کی نشستیں فنکشنل لیگ اور ایک پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی، لیکن صوبائی اسمبلی میں فنکشنل لیگ کی ایک نشست جو کہ جام مدد علی کی تھی اس پر غیر متوقع طور پر پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا۔
ضلع سانگھڑ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 234 پر فنکشنل لیگ کے پیر بخش جونیجو 90087 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ پی پی پی پی کے فدا حسین ڈیرو نے 65721 ووٹ حاصل کیے۔ این اے 235 پر فنکشنل مسلم لیگ کے پیر صدر الدین شاہ راشدی 74032 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ یہاں سے شکست کا مزا چکھنے والی پی پی پی کی سابق صوبائی وزیر شازیہ مری نے 61690 ووٹ حاصل کیے۔ این اے 236 سے پی پی پی کے روشن دین جونیجو جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
سانگھڑ سے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 78 پر فنکشنل لیگ کے سعید خان نظامانی، پی ایس 79 سے فنکشنل لیگ کے ہی وریام فقیر نے کامیابی حاصل کی۔ پی ایس 80 پر فنکشنل لیگ کے حاجی خدا بخش راجڑ 49951 ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے۔
پی ایس81 پر غیر متوقع پر پیپلز پارٹی کے محمد خان جونیجو نے مسلم لیگ فنکشنل کے جام مدد علی کو 506 ووٹوں سے شکست دی۔ سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 82 پر پی پی پی کے فراز ڈیرو، حلقہ 83 پر پیپلز پارٹی کے شاہد خان تھہیم نے میدان مارا۔ این اے 235 اور پی ایس 80 سے شکست پانے والے پی پی پی کے امیدواروں سابق صوبائی وزیر شازیہ مری اور علی حسن ہنگورجو نے تعلقہ کھپرو کے 26 پولنگ اسٹیشن پر جعلی ووٹ کاسٹ کرنے کے خلاف درخواست ریٹرننگ افسر کے پاس جمع کرا دی۔ درخواست میں مذکورہ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کے انگوٹھوں کے نشانات کی نادرا سے تصدیق کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
نوابشاہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 213 پر صدر زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے 111667 ووٹ لے کر ہیٹ ٹرک مکمل کی جہاں، ایم کیو ایم کے عنایت علی رند نے 34019 ووٹ حاصل کیے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 214 بھی پیپلزپارٹی کے نام رہا۔
پی ایس 24 سے پی پی پی کے امیدوار طارق مسعود آرائیں 35517 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ ایم کیو ایم کے عاصم کبیر خانزادہ نے 26622 ووٹ حاصل کیے۔ پی ایس 25 سے سلیم رضا جلبانی نے کامیابی حاصل کی۔ پی ایس 26 سے پی پی پی کے سید فصیح حسین شاہ نے فنکشنل لیگ کے آصف شاہ جیلانی کو شکست دی۔ پی ایس 27 پر پی پی پی کے غلام قادر چانڈیو،حلقہ 28 پر پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر خان محمد بہادر ڈاہری نے کامیابی سمیٹی۔
ضلع جامشورو سے بھی پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تینوں نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ این اے 231 پر پی پی پی کے امیدوار ملک اسد سکندر نے 128668ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ ان کے قریب ترین حریف سندھ یونائیٹیڈ پارٹی کے سربراہ جلال محمود شاہ نے 58168 ووٹ حاصل کیے۔ جامشورو سے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 71 کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر سکندر شورو نے 43735 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کر لی، جب کہ جلال محمود شاہ کو 28290 ووٹ حاصل ہوئے۔
عمرکوٹ میں مختلف نتائج کے امکانات کے باوجود میدان پیپلزپارٹی کے ہاتھ رہا۔ این اے 228 پر پیپلز پارٹی کے نواب محمد یوسف تالپور نے97967 ووٹ حاصل کر کے میدان مار لیا اور اپنے جیتنے کی ہیٹ ٹرک بھی مکمل کی، یہاں سے تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی 84574 ووٹ حاصل کر سکے۔ ٹنڈو محمد خان سے قومی اسمبلی کے حلقہ 222 سے پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے99914 ووٹ حاصل کرکے مسلسل چھٹی بار کامیابی سمیٹی۔
ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ 237 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار صادق علی میمن نے شیرازی و ملکانی اتحاد کے ریاض شاہ شیرازی کو شکست دی، جب کہ حلقہ این اے 238 پر شیرازی و ملکانی اتحاد کے امیدوار سید ایاز شاہ شیرازی نے کامیابی حاصل کی۔ پی ایس 85 سے شیرازی و ملکانی اتحاد کے امیدوار امیر حیدر شاہ شیرازی نے سسی پلیجو کو شکست دی۔ پی ایس 86 سے سید شاہ حسین شاہ شیرازی، پی ایس87 پر محمد علی ملکانی، پی ایس 88 پر پیپلز پارٹی کے اویس مظفر نے کامیابی حاصل کر لی۔
جہاں سے شیرازی و ملکانی اتحاد کے امیدوار عثمان ملکانی صرف 20990 ووٹ حاصل کر سکے۔ نتائج دیکھ کر تو بظاہر لگتا ہے کہ شیرازی و ملکانی اتحاد نے قومی اسمبلی کی ایک اور پانچ میں سے چار صوبائی اسمبلی کی نشست جیت لیں جبکہ پی پی پی کے حصے میں ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست ہاتھ آئی۔ اویس مظفر، سسی پلیجو اور دیگر نے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کر دیا ان کا کہنا تھا کہ شیرازی گروپ کے ایما پر نتائج میں ہیرا پھیری کی گئی ہے۔
مٹھی میں 2008 میں قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں پر ارباب گروپ کا قبضہ تھا، لیکن اب یہاں سے ان کی بادشاہت ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست پی پی پی نے جیت لی ہے، جبکہ ایک ارباب غلام رحیم نے جیتی ہے جبکہ دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پی پی پی کو سبقت حاصل ہے۔ مٹھی میں این اے 229 پر غیر متوقع طور پر پی پی پی کے فقیر شیر محمد بلالانی نے میدان مار لیا۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ تھرپار کر سے پی پی پی نے ارباب خاندان کو قومی اسمبلی کی نشست پر ہرایا ہے۔ این اے 230 پر39 پولنگ اسٹیشن کے بھرے ہوئے بیلٹ باکس چھین کر جلا دیے گئے۔ جس کی وجہ سے ابھی تک نہ صرف اس نشست پر کوئی نتیجہ نہیں آ سکا۔
بلکہ پی ایس 63 کے نتائج بھی نہیں آ سکے، لیکن این اے 230 پر غوثیہ جماعت کے روحانی پیشوا و تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کو پی پی پی کے امیدوار پیر نور محمد شاہ جیلانی پر سبقت حاصل ہے۔ سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 60 پر پیپلز مسلم لیگ کے سربراہ و سابق وزیر اعلا ارباب غلام رحیم 51673 ووٹ لے کر کامیاب ہو گیے ان کے مخالف پی پی پی کے انجینئر گیان چند نے 34646 ووٹ حاصل کیے۔ پی ایس61 پر پی پی پی پی کے مہیش کمار ملانی نے 40917 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ ان کے مخالف امیدوار ارباب نعمت اللہ نے 28609 ووٹ حاصل کیے۔ پی ایس 62 پر 6 پولنگ اسٹیشن پر کاسٹ کیے جانے والے بیلٹ پیپر چھین کر جلا دیے گیے تھے جس کی وجہ سے تمام پولنگ اسٹیشنز کے نتائج نہیں آ سکے۔