پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار کو شکست
الطاف انڑپی پی کی حمایت سے محرومی کے باوجود میدان مارگئے
عام انتخابات میں دیگر شہروں کی طرح لاڑکانہ میں بھی پیپلزپارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کی اور یہ ثابت کیا کہ حالات کیسے بھی ہوں عوام ان کے ساتھ ہیں، لیکن سخت مقابلے کے ذریعے پارٹی قیادت کو بھی معلوم چل گیا ہے کہ موجودہ کام یابی کے پیچھے بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑی ہے۔
مخالف امیدواروں نے بھی خوب محنت کی اور کانٹے دار مقابلے کیے۔ تاہم انہیں انتخابات کی شفافیت پر گہرے تحفظات ہیں۔
لاڑکانہ کی دو قومی اور چار صوبائی نشستوں پر پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کی، تاہم تاریخ میں پہلی مرتبہ لاڑکانہ میں ایک صوبائی نشست پر بھی شکست ہوئی۔ لاڑکانہ کی قومی حلقہ این اے 204 پر پیپلزپارٹی کے ایاز سومرو نے 50118 ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی جبکہ ان کے مد مقابل فنکشنل لیگ کے امیدوار مہتاب اکبر راشدی نے 32006 اور آزاد امیدوار معظم عباسی نے28744 ووٹ حاصل کیے۔
این اے 205 ڈوکری واہ کے حلقہ پر پیپلزپارٹی کے نظیر احمد بگھیو 65720 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، جبکہ ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے ناراض امیدوار سابق سینیٹر ڈاکٹر صفدر عباسی23561 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے، صوبائی نشستوں میں پی ایس 35 باقارانی پر پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار سہیل انور سیال، سابق صوبائی وزیر حاجی الطاف انڑ سے شکست کھا گئے۔ حاجی الطاف انڑ نے 23622 جب کہ سہیل سیال نے 21178 ووٹ حاصل کیے۔ اس حلقہ کی دل چسپ بات یہ تھی کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے پہلے حاجی الطاف انڑ کو ٹکٹ جاری کیا۔
جنھیں انتخابات میں تیر کا نشان حاصل تھا، تاہم بعد میں اختلافات کے باعث پارٹی قیادت نے الطاف انڑ سے حمایت واپس لے لی اور ان کے مد مقابل تحصیل باقرانی پی پی کے صدر سہیل سیال کوامیدوار نام زد کیا جن کا انتخابی نشان ڈھول تھا، تاہم وہ کام یاب نہ ہوسکے اور یوں یہ نشست پیپلزپارٹی کے غلط فیصلوں کے باعث ان کے ہاتھوں سے نکل گئی۔ اس حلقے پر تیسرے نمبر پر آنے والے آزاد امیدوار حاجی شفقت حسین انڑ تھے جنھوں نے10471ووٹ حاصل کیے، پی ایس 56شہر لاڑکانہ پر بھی پیپلزپارٹی، فنکشنل لیگ، جے یو آئی اور ق لیگ میں کانٹے دار مقابلہ ہوا جبکہ آزاد امیدوار اور درگاہ غریب آباد کے گدی نشین سائیں محمد دیدہ دل غفاری بھی کئی امیدواروں کے سرکا درد بنے۔
تاہم کام یابی پیپلزپارٹی سے وابستہ اسپیکر سندھ اسمبلی نثار کھوڑو کے حق میں آئی۔ پی ایس 37 رتو ڈیرو پر مسلم لیگ نواز کے نواب زادہ امیر بخش بھٹو اور پی پی کے امیدوار محمد علی بھٹو میں کانٹے دار مقابلہ ہوا۔ 11مئی کو رات گئے تک ن لیگ کے امیدوار امیر بخش بھٹو کو واضح برتری حاصل تھی، تاہم 12مئی کی رات 11بجے جاری کردہ نتائج میں محمد علی بھٹو کام یاب بتائے گئے، پی پی کے محمد علی بھٹو نے39120جبکہ ن لیگ کے امیر بخش بھٹو نے34915ووٹ لیے۔ اسی طرح پی ایس 41پر پیپلزپارٹی کے امیدوار عزیز احمد جتوئی نے کام یابی حاصل کی، جب کہ ان کے مقابلے میں الطاف انڑ کے بیٹے عادل انڑ نے7753ووٹ لیے۔
لاڑکانہ ضلع کی 6 نشستوں پر کُل 178 امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا، جن میں سے 44 امیدواروں نے دو قومی، جب کہ 134نے چار صوبائی نشستوں پر قسمت آزمائی، سب سے کم امیدوار این اے 205 پر 19، جب کہ سب سے زیادہ پی ایس 41 پر 43 تھے۔ ان امیدواروں میں سے چند ایسے بھی تھے، جنہوں نے ایک بھی ووٹ حاصل نہیں کیا، جب کہ چند محض ایک ووٹ حاصل کر سکے۔ لاڑکانہ کی دو قومی اور چار صوبائی نشستوں پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد گیارہ لاکھ 20ہزار 385ہے۔ جن میںسے 5 لاکھ 60 ہزار 755 ووٹرز نے اس انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کیا، جن میں اگر پی پی مخالف ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر تمام مخالفین اتحاد کرلیتے تو شاید وہ کام یابی حاصل کر پاتے۔
پیپلزپارٹی میں ٹکٹ کی تقسیم کے بعد پیپلزپارٹی سے وابستہ عباسی خاندان نے آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، جب کہ فنکشنل لیگ سے وابستہ راشدی خاندان کے مہتاب اکبر راشدی، سید اکبر شاہ راشدی اور رافع اکبر راشدی کو بھی بے پناہ پذیرائی ملی، ایک جانب جہاں پیپلزپارٹی کے نام زد امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے میں بے پناہ دشواریاں تھیں اور عوام کی مزاحمت کا سامنا تھا وہیں عباسی، راشدی خاندان اور بھٹو برادری کی مقبولیت دیکھنے میں آرہی تھی، لیکن انتخابی نتائج اس کے برعکس آئے۔
جس پر 13مئی کو جمعیت علمائے اسلام صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل اے این 207اور پی ایس 36کے امیدوار ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے فوری طورپر فوج کی نگرانی میں لاڑکانہ میں دوبارہ الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا، ان کا کہنا تھا آخر کس طرح صرف دو گھنٹے کے اندر فریال تالپور کے87ہزار سے زائد ووٹوں کی گنتی کرلی گئی؟ اسی طرح لاڑکانہ سے این اے204کے امیدوار مہتاب اکبر راشدی، معظم عباسی، این اے کے امیدوار ڈاکٹر صفدر عباسی، پی ایس 37کے امیدوار نوابزادہ امیر بخش بھٹو، غنویٰ بھٹو، سردار ممتاز بھٹو، ق لیگ کے بابو سرور سیال اور خود پیپلزپارٹی کے رہنما شہید بینظیر بھٹو کے کزن اور سابق ایم این اے شاہد حسین بھٹو نے انتخابی نتائج کا بائیکاٹ کر کے لاڑکانہ میں دوبارہ الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا۔
مذکورہ امیدواروں نے بتایاکہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تحریری درخواستیں مع ثبوت ارسال کرچکے اور اگر مطالبات منظور نہیں ہوئے تو پھر احتجاج کا راستہ اپنایا جائے گا۔ بہر حال لاڑکانہ کی عوام کا سرکاری نتیجہ سامنے آچکا ہے۔ اگر پیپلزپارٹی نے عوامی مینڈیٹ کو اپنی سابقہ مفاہمتی پالیسی کے ساتھ جاری رکھا تو پھر ان کے لیے مشکلات کم نہیں ہوسکیں گی۔
مخالف امیدواروں نے بھی خوب محنت کی اور کانٹے دار مقابلے کیے۔ تاہم انہیں انتخابات کی شفافیت پر گہرے تحفظات ہیں۔
لاڑکانہ کی دو قومی اور چار صوبائی نشستوں پر پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کی، تاہم تاریخ میں پہلی مرتبہ لاڑکانہ میں ایک صوبائی نشست پر بھی شکست ہوئی۔ لاڑکانہ کی قومی حلقہ این اے 204 پر پیپلزپارٹی کے ایاز سومرو نے 50118 ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی جبکہ ان کے مد مقابل فنکشنل لیگ کے امیدوار مہتاب اکبر راشدی نے 32006 اور آزاد امیدوار معظم عباسی نے28744 ووٹ حاصل کیے۔
این اے 205 ڈوکری واہ کے حلقہ پر پیپلزپارٹی کے نظیر احمد بگھیو 65720 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، جبکہ ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے ناراض امیدوار سابق سینیٹر ڈاکٹر صفدر عباسی23561 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے، صوبائی نشستوں میں پی ایس 35 باقارانی پر پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار سہیل انور سیال، سابق صوبائی وزیر حاجی الطاف انڑ سے شکست کھا گئے۔ حاجی الطاف انڑ نے 23622 جب کہ سہیل سیال نے 21178 ووٹ حاصل کیے۔ اس حلقہ کی دل چسپ بات یہ تھی کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے پہلے حاجی الطاف انڑ کو ٹکٹ جاری کیا۔
جنھیں انتخابات میں تیر کا نشان حاصل تھا، تاہم بعد میں اختلافات کے باعث پارٹی قیادت نے الطاف انڑ سے حمایت واپس لے لی اور ان کے مد مقابل تحصیل باقرانی پی پی کے صدر سہیل سیال کوامیدوار نام زد کیا جن کا انتخابی نشان ڈھول تھا، تاہم وہ کام یاب نہ ہوسکے اور یوں یہ نشست پیپلزپارٹی کے غلط فیصلوں کے باعث ان کے ہاتھوں سے نکل گئی۔ اس حلقے پر تیسرے نمبر پر آنے والے آزاد امیدوار حاجی شفقت حسین انڑ تھے جنھوں نے10471ووٹ حاصل کیے، پی ایس 56شہر لاڑکانہ پر بھی پیپلزپارٹی، فنکشنل لیگ، جے یو آئی اور ق لیگ میں کانٹے دار مقابلہ ہوا جبکہ آزاد امیدوار اور درگاہ غریب آباد کے گدی نشین سائیں محمد دیدہ دل غفاری بھی کئی امیدواروں کے سرکا درد بنے۔
تاہم کام یابی پیپلزپارٹی سے وابستہ اسپیکر سندھ اسمبلی نثار کھوڑو کے حق میں آئی۔ پی ایس 37 رتو ڈیرو پر مسلم لیگ نواز کے نواب زادہ امیر بخش بھٹو اور پی پی کے امیدوار محمد علی بھٹو میں کانٹے دار مقابلہ ہوا۔ 11مئی کو رات گئے تک ن لیگ کے امیدوار امیر بخش بھٹو کو واضح برتری حاصل تھی، تاہم 12مئی کی رات 11بجے جاری کردہ نتائج میں محمد علی بھٹو کام یاب بتائے گئے، پی پی کے محمد علی بھٹو نے39120جبکہ ن لیگ کے امیر بخش بھٹو نے34915ووٹ لیے۔ اسی طرح پی ایس 41پر پیپلزپارٹی کے امیدوار عزیز احمد جتوئی نے کام یابی حاصل کی، جب کہ ان کے مقابلے میں الطاف انڑ کے بیٹے عادل انڑ نے7753ووٹ لیے۔
لاڑکانہ ضلع کی 6 نشستوں پر کُل 178 امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا، جن میں سے 44 امیدواروں نے دو قومی، جب کہ 134نے چار صوبائی نشستوں پر قسمت آزمائی، سب سے کم امیدوار این اے 205 پر 19، جب کہ سب سے زیادہ پی ایس 41 پر 43 تھے۔ ان امیدواروں میں سے چند ایسے بھی تھے، جنہوں نے ایک بھی ووٹ حاصل نہیں کیا، جب کہ چند محض ایک ووٹ حاصل کر سکے۔ لاڑکانہ کی دو قومی اور چار صوبائی نشستوں پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد گیارہ لاکھ 20ہزار 385ہے۔ جن میںسے 5 لاکھ 60 ہزار 755 ووٹرز نے اس انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کیا، جن میں اگر پی پی مخالف ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر تمام مخالفین اتحاد کرلیتے تو شاید وہ کام یابی حاصل کر پاتے۔
پیپلزپارٹی میں ٹکٹ کی تقسیم کے بعد پیپلزپارٹی سے وابستہ عباسی خاندان نے آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، جب کہ فنکشنل لیگ سے وابستہ راشدی خاندان کے مہتاب اکبر راشدی، سید اکبر شاہ راشدی اور رافع اکبر راشدی کو بھی بے پناہ پذیرائی ملی، ایک جانب جہاں پیپلزپارٹی کے نام زد امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے میں بے پناہ دشواریاں تھیں اور عوام کی مزاحمت کا سامنا تھا وہیں عباسی، راشدی خاندان اور بھٹو برادری کی مقبولیت دیکھنے میں آرہی تھی، لیکن انتخابی نتائج اس کے برعکس آئے۔
جس پر 13مئی کو جمعیت علمائے اسلام صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل اے این 207اور پی ایس 36کے امیدوار ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے فوری طورپر فوج کی نگرانی میں لاڑکانہ میں دوبارہ الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا، ان کا کہنا تھا آخر کس طرح صرف دو گھنٹے کے اندر فریال تالپور کے87ہزار سے زائد ووٹوں کی گنتی کرلی گئی؟ اسی طرح لاڑکانہ سے این اے204کے امیدوار مہتاب اکبر راشدی، معظم عباسی، این اے کے امیدوار ڈاکٹر صفدر عباسی، پی ایس 37کے امیدوار نوابزادہ امیر بخش بھٹو، غنویٰ بھٹو، سردار ممتاز بھٹو، ق لیگ کے بابو سرور سیال اور خود پیپلزپارٹی کے رہنما شہید بینظیر بھٹو کے کزن اور سابق ایم این اے شاہد حسین بھٹو نے انتخابی نتائج کا بائیکاٹ کر کے لاڑکانہ میں دوبارہ الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا۔
مذکورہ امیدواروں نے بتایاکہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تحریری درخواستیں مع ثبوت ارسال کرچکے اور اگر مطالبات منظور نہیں ہوئے تو پھر احتجاج کا راستہ اپنایا جائے گا۔ بہر حال لاڑکانہ کی عوام کا سرکاری نتیجہ سامنے آچکا ہے۔ اگر پیپلزپارٹی نے عوامی مینڈیٹ کو اپنی سابقہ مفاہمتی پالیسی کے ساتھ جاری رکھا تو پھر ان کے لیے مشکلات کم نہیں ہوسکیں گی۔