میاں محمد نواز شریف کی حوصلہ افزا باتیں
ہماری پہلی‘ دوسری اور تیسری ترجیح معیشت ہے، نوازشریف
متوقع وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے پیر کو لاہور میں غیر ملکی میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے اپنی حکومت کی ترجیحات کا واضح اعلان کیا ہے۔ ان کی چیدہ چیدہ باتیں کچھ یوں ہیں۔ ہماری پہلی' دوسری اور تیسری ترجیح معیشت ہے' امریکا کو ڈرون حملے روکنے پر قائل کیا جائے گا' دہشت گردی کے خلاف اور پرامن پاکستان کے لیے نئی قومی پالیسی بنائی جائے گی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دوست ممالک سے مدد لیں گے' افغانستان سے امریکا کے انخلا میں جو کچھ ممکن ہوا' کریں گے' بھارت کے حوالے سے بھی انھوں نے واضح کیا کہ وہ بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کے حق میں ہیں' انھوں نے یہ بھی کہا کہ حلف برداری کی تقریب میں بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کو بلائیں گے۔
میاں محمد نواز شریف نے اپنی جن ترجیحات کا اعلان کیا ہے' وہی حقیقت میں پاکستان کے مسائل ہیں۔معیشت کو میاں صاحب نے جس طرح پہلی' دوسری اور تیسری ترجیح قرار دیا' اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انھیں ملک کی معاشی بدحالی کا پورا احساس اور ادراک ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ماضی کی حکومت معاشی شعبے میں ناکام رہی۔ توانائی کے بحران نے معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ وہ کوئی قابل عمل معاشی حکمت عملی تیار نہیں کر سکے۔ میاں صاحب کے لیے سب سے بڑا چیلنج معیشت کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنا ہے۔ معیشت کو متحرک کرنے کے لیے سب سے پہلی ضرورت توانائی کے بحران کو حل کرنا ہے۔ فوری طور پر تو بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانا۔
اس کے بعد گیس کے معاملات آتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف اور ان کی ٹیم نے یقیناً اس حوالے سے کچھ نہ کچھ فریم ورک تیار کر رکھا ہو گا۔ توانائی کا بحران حل ہوتا ہے تو اس سے معیشت کا پہیہ رواں دواں ہو جائے گا۔ اس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہے۔ اس وقت ملک میں امن و امان کی خراب صورت حال کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار سہما ہوا ہے۔ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہچکچا رہا ہے۔ اسے اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ اگر آنے والی حکومت دہشت گردی پر قابو پا لیتی ہے اور امریکا کے ساتھ ڈرون حملوں کا کوئی قابل قبول حل تلاش کر لیتی ہے تو یہ یقینی طور پر انقلابی کام ہو گا۔ اس سے پاکستان کا نقشہ تبدیل ہو جائے گا۔ ملک میں امن آئے گا اور اس کے ساتھ ہی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو جائے گا۔ بھارت کے حوالے سے بھی میاں صاحب کا موقف درست اور واضح ہے۔ اگر بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ پاکستان کے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں تشریف لاتے ہیں تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کا آغاز ہو جائے گا۔
میاں محمد نواز شریف کا امیج دنیا میں خاصا بہتر ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے الیکشن جیتنے پر امریکا' چین' ترکی' سعودی عرب' ایران ' افغانستان اور بھارت سمیت متعدد ملکوں کے سربراہوں نے میاں محمد نواز شریف کو فوری طور پر مبارکباد کے پیغامات بھیجے۔ اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات گزشتہ کچھ عرصے سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ اب میاں محمد نواز شریف حکومت آنے کے بعد یہ امید جنم لے رہی ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں بھی بہتری آئے گی جس کا عندیہ دو روز قبل امریکی صدر اوباما یہ کہہ کر دے چکے ہیں کہ امریکا نئی حکومت کے ساتھ برابری کی سطح پر کام کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ پاکستان کے عوام کے لیے ایک مستحکم' محفوظ اور خوشحال مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔میاں محمد نواز شریف نے بھی اگلے روز اس حوالے سے مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔
میاں نواز نواز شریف کی جیت پر جس انداز میں اندرون اور بیرون ملک مثبت پیغام ملا ہے، اس سے امید پیدا ہوتی ہے کہ ان کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ الیکشن میں کامیابی کے فوراً بعد میاں محمد نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ مبارکبادی پیغام کے جواب میں بھی واضح کیا تھا کہ مسلم لیگ ن ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتی آئی ہے۔ جنگ مسائل کا حل نہیں' مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی سابق حکومتی پالیسیوںکا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ وہ ماضی میں بھی پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئی تو یقیناً دہشت گردی کے مسئلہ پر قابو پانے کے لیے حکمت عملی طے کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک میں تجارتی روابط میں بھی اضافہ ہوگا جس سے اس خطے میں امن اور ترقی کا نیا دور شروع ہوگا۔
میاں نواز شریف نے کہہ دیا ہے کہ وہ بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کے حق میں ہیں۔ بلاشبہ جنوبی ایشیاء میں اتنا پوٹینشل موجود ہے کہ اس خطے کے سارے ممالک اگر باہمی تجارت کریں تو یہاں تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں میاں محمد نواز شریف نے امریکی اخبار ''وال اسٹریٹ جرنل'' کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی واضح کیا تھا کہ حکومت امریکا' افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے کام کرے گی،انھوں نے امید ظاہر کی کہ ڈرون حملوں اور دیگر متنازعہ ایشوز پر وہ امریکا کے ساتھ کسی تصفیہ پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
میاں محمد نواز شریف یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی سرزمین کو کسی ایسے گروہ یا شخص کو استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا جو دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے خطرہ ہو۔ یہ بڑی امید افزا باتیں ہیں لیکن انھیں عملی جامہ پہنانے کے لیے بڑے جراتمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ اس وقت بعض سیاسی جماعتیں الیکشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لاہور کراچی میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ملک جس قسم کے خطرات میں گھرا ہوا ہے' ایسے موقعے پر گھیرائو جلائو کسی کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو عوام کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔ جیتنے والے بھی اور ہارنے والے بھی مثبت جمہوری رویے کو اپنائیں۔ اس میں ہی ان کا اور اس ملک کا بھلا ہے۔
میاں محمد نواز شریف نے اپنی جن ترجیحات کا اعلان کیا ہے' وہی حقیقت میں پاکستان کے مسائل ہیں۔معیشت کو میاں صاحب نے جس طرح پہلی' دوسری اور تیسری ترجیح قرار دیا' اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انھیں ملک کی معاشی بدحالی کا پورا احساس اور ادراک ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ماضی کی حکومت معاشی شعبے میں ناکام رہی۔ توانائی کے بحران نے معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ وہ کوئی قابل عمل معاشی حکمت عملی تیار نہیں کر سکے۔ میاں صاحب کے لیے سب سے بڑا چیلنج معیشت کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنا ہے۔ معیشت کو متحرک کرنے کے لیے سب سے پہلی ضرورت توانائی کے بحران کو حل کرنا ہے۔ فوری طور پر تو بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانا۔
اس کے بعد گیس کے معاملات آتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف اور ان کی ٹیم نے یقیناً اس حوالے سے کچھ نہ کچھ فریم ورک تیار کر رکھا ہو گا۔ توانائی کا بحران حل ہوتا ہے تو اس سے معیشت کا پہیہ رواں دواں ہو جائے گا۔ اس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہے۔ اس وقت ملک میں امن و امان کی خراب صورت حال کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار سہما ہوا ہے۔ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہچکچا رہا ہے۔ اسے اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ اگر آنے والی حکومت دہشت گردی پر قابو پا لیتی ہے اور امریکا کے ساتھ ڈرون حملوں کا کوئی قابل قبول حل تلاش کر لیتی ہے تو یہ یقینی طور پر انقلابی کام ہو گا۔ اس سے پاکستان کا نقشہ تبدیل ہو جائے گا۔ ملک میں امن آئے گا اور اس کے ساتھ ہی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو جائے گا۔ بھارت کے حوالے سے بھی میاں صاحب کا موقف درست اور واضح ہے۔ اگر بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ پاکستان کے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں تشریف لاتے ہیں تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کا آغاز ہو جائے گا۔
میاں محمد نواز شریف کا امیج دنیا میں خاصا بہتر ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے الیکشن جیتنے پر امریکا' چین' ترکی' سعودی عرب' ایران ' افغانستان اور بھارت سمیت متعدد ملکوں کے سربراہوں نے میاں محمد نواز شریف کو فوری طور پر مبارکباد کے پیغامات بھیجے۔ اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات گزشتہ کچھ عرصے سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ اب میاں محمد نواز شریف حکومت آنے کے بعد یہ امید جنم لے رہی ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں بھی بہتری آئے گی جس کا عندیہ دو روز قبل امریکی صدر اوباما یہ کہہ کر دے چکے ہیں کہ امریکا نئی حکومت کے ساتھ برابری کی سطح پر کام کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ پاکستان کے عوام کے لیے ایک مستحکم' محفوظ اور خوشحال مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔میاں محمد نواز شریف نے بھی اگلے روز اس حوالے سے مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔
میاں نواز نواز شریف کی جیت پر جس انداز میں اندرون اور بیرون ملک مثبت پیغام ملا ہے، اس سے امید پیدا ہوتی ہے کہ ان کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ الیکشن میں کامیابی کے فوراً بعد میاں محمد نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ مبارکبادی پیغام کے جواب میں بھی واضح کیا تھا کہ مسلم لیگ ن ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتی آئی ہے۔ جنگ مسائل کا حل نہیں' مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی سابق حکومتی پالیسیوںکا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ وہ ماضی میں بھی پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئی تو یقیناً دہشت گردی کے مسئلہ پر قابو پانے کے لیے حکمت عملی طے کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک میں تجارتی روابط میں بھی اضافہ ہوگا جس سے اس خطے میں امن اور ترقی کا نیا دور شروع ہوگا۔
میاں نواز شریف نے کہہ دیا ہے کہ وہ بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کے حق میں ہیں۔ بلاشبہ جنوبی ایشیاء میں اتنا پوٹینشل موجود ہے کہ اس خطے کے سارے ممالک اگر باہمی تجارت کریں تو یہاں تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں میاں محمد نواز شریف نے امریکی اخبار ''وال اسٹریٹ جرنل'' کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی واضح کیا تھا کہ حکومت امریکا' افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے کام کرے گی،انھوں نے امید ظاہر کی کہ ڈرون حملوں اور دیگر متنازعہ ایشوز پر وہ امریکا کے ساتھ کسی تصفیہ پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
میاں محمد نواز شریف یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی سرزمین کو کسی ایسے گروہ یا شخص کو استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا جو دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے خطرہ ہو۔ یہ بڑی امید افزا باتیں ہیں لیکن انھیں عملی جامہ پہنانے کے لیے بڑے جراتمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ اس وقت بعض سیاسی جماعتیں الیکشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لاہور کراچی میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ملک جس قسم کے خطرات میں گھرا ہوا ہے' ایسے موقعے پر گھیرائو جلائو کسی کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو عوام کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔ جیتنے والے بھی اور ہارنے والے بھی مثبت جمہوری رویے کو اپنائیں۔ اس میں ہی ان کا اور اس ملک کا بھلا ہے۔