اقتصادی روڈ میپ دیا جائے

ملکی اقتصادی صورتحال کے حوالے سے قوم کو الیکشن کے فوری بعد ملے جلے حقائق کا سامنا ہے۔

ملکی اقتصادی صورتحال کے حوالے سے قوم کو الیکشن کے فوری بعد ملے جلے حقائق کا سامنا ہے. فوٹو: فائل

ملکی اقتصادی صورتحال کے حوالے سے قوم کو الیکشن کے فوری بعد ملے جلے حقائق کا سامنا ہے۔ ایک طرف بیرون ملک مقیم پاکستانی ورکرز کی جانب سے رواں مالی سال 2012-13کے پہلے 10 ماہ میں 11,569.82 ملین ڈالر کی ترسیلات زر وطن بھیجنے کی خوش آیند اطلاعات ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے (جولائی تا اپریل 2012) میں10,876.99 ملین ڈالر بھیجے گئے تھے جس سے 692.83 ملین ڈالر یا 6.37 فیصد کا اضافہ ظاہر ہوتا ہے جب کہ دوسری جانب یہ ہوش ربا رپورٹ ہے کہ حکومت کا رواں مالی سال بینکنگ سیکٹر سے حاصل قرضوں کا حجم نو سو دس ارب روپے پر پہنچ گیا۔ادھر سمندری خوراک کی مصنوعات کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہوگیا ۔

9 ماہ میں برآمدات 23کروڑ ڈالر سے تجاوز کرگئی وفاقی ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے مارچ تک 1لاکھ 3ہزار ٹن سمندری خوراک بیرون ممالک بھجوائی گئی جس سے 23کروڑ 33لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا۔ سمندری خوراک کی برآمد پر مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ کروڑوں ڈالر کا مزید سی فوڈ اب بھی ہمارا منتظر ہے۔ وفاق کی سطح پر مستحکم حکومت قائم ہونے سے بہترفیصلہ سازی کی توقعات پر کراچی اسٹاک ایکس چینج میں انتخابات کے بعد پیر کو پہلے دن تیزی کی بڑی لہر رونما ہوئی جس سے انڈیکس20 ہزار پوائنٹس تاریخ ساز حد بھی عبور کرگیا، تیزی کے سبب68فیصد حصص کی قیمتیں بڑھ گئیں جب کہ حصص کی مالیت میں مزید65 ارب35 کروڑ85 لاکھ65 ہزار244 روپے کا اضافہ ہوگیا، ماہرین اسٹاک کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی کامیابی نے سرمایہ کاروں کی توقعات بڑھادی ہیں۔


دوسری جانب بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی اسٹینڈرڈ اینڈ پورز نے دہشت گردی ودیگر مسائل کے باوجود الیکشن کے انعقاد کے باعث پاکستان کی ریٹنگ طویل مدت تک مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جب کہ آئی ایم ایف سے ممکنہ معاہدے کی صورت میں زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کے ساتھ شعبہ مالیات وتوانائی میں اصلاحات کی توقع کی ہے، اس طرح سے سیاسی افق پر بہتری نے معیشت واقتصادیات کے حوالے سے سرمایہ کاروں میں امید کی نئی کرن پیدا کردی ہے ۔ دنیا بھر کے ممالک کی کل 150ٹریلین ڈالر کی امپورٹ مارکیٹ میں پاکستان کی کل ایکسپورٹ 25ارب 34کروڑ ڈالر ہے جو عالمی مارکیٹ کی امپورٹ مارکیٹ کا زیرو فیصد سے بھی کم حصہ بنتا ہے۔ چنانچہ اب ضرورت اس امر کی ہے نئے اقتصادی منصوبوں کا روڈ میپ دیا جائے،اور ملکی معیشت کے استحکام کے لیے پرانے اور فرسودہ معاشی فارمولوں پر لعنت بھیجی جائے۔

عوام نے غربت ،مہنگائی، بیروزگری اور جرائم کی ہولناک صورتحال کے باعث سخت اذیتیں اٹھائی ہیں، انھیں نئی حکومت سے ریلیف کی بجا توقع ہونی چاہیے۔اور نئے اقتصادی ماہرین اور معاشی مسیحا اگر درست سمت میں معاشی پالیسیوں کو لے کر چلے تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام کے لائف اسٹائل میں بنیادی تبدیلی نہ آئے۔ اس وقت ضرورت ملکی معیشت کو مستحکم بنیاد فرہم کرنے کی ہے جس کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی کا طوق سیاسی اور معاشی نظام کے گلے سے اتارنا ہوگا۔وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے ملک کی اقتصادی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پیر کو وزیراعظم ہائوس میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم کو بتایا گیا کہ وزارت پانی و بجلی کے اشتراک سے وزارت خزانہ کی کوششوں کے نتیجے میں انتخابات کے روز ملک میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان قدرتی وسائل اور باصلاحیت انسانی وسائل سے مالا مال ہے جسے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے ۔یہ پیغام نئی حکومت کے لیے رہنمائی کا باعث بن سکتا ہے بشرطیکہ قوم کو اقتصادی اور سماجی طمانیت و آسودگی مہیا کرنے کے لیے ارباب اختیار اپنی معاشی حکمت عملی کو عوامی خوشحالی سے جوڑیں ۔
Load Next Story