اب جوش کے ساتھ ہوش بھی درکار ہے
میرے خیالات اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے جوشیلے حامیوں کی ایک کثیر تعداد انتخابی نتائج سے مطمئن نہیں ہے۔
اس کالم میں 11 مئی سے کئی دن پہلے میں نے آپ کو بتایا تھا کہ بہت سارے غیر ملکی صحافی اور سفارت کار مجھ سے ملاقاتوں میں کرید کرید کر پوچھ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے جوشیلے نوجوان انتخابی نتائج کو تسلیم کر لیں گے یا نہیں۔ کہیں ان نتائج کے آ جانے کے بعد پاکستان میں ''دھاندلی'' کے خلاف ایسی تحریک تو نہیں چل پڑے گی جس نے بالآخر جولائی 1977 میں جنرل ضیاء الحق کو مارشل لاء لگانے پر مجبور کر دیا تھا۔ غیر ملکیوں کے ایسے خدشات کو میں نے ابتدائی دنوں میں بڑی رعونت کے ساتھ مسترد کر دیا تھا۔ پھر چند باخبر پاکستانیوں نے بھی ایسے ہی سوالات کرنا شروع کر دیے اور میں یہ وضاحت کرنے پر مجبور ہو گیا کہ کیسے میری دانست میں 2013 میں پاکستان شاید 1977 کے دنوں میں واپس نہیں جا سکتا۔
میرے خیالات اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے جوشیلے حامیوں کی ایک کثیر تعداد انتخابی نتائج سے مطمئن نہیں ہے۔ لاہور اور کراچی میں ان نتائج کے خلاف بڑے شدید مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ جو لوگ ان مظاہروں میں شریک نہیں ہو رہے وہ بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خیبر پختونخوا میں تقریبا Sweep کرتی ایک جماعت جب اسلام آباد سے جاوید ہاشمی، راولپنڈی سے عمران خان اور شیخ رشید کو کامیاب کروانے کے بعد گوجر خان اور چکوال کی حدود سے گزرتی ہوئی، لاہور اور پھر رحیم یار خان تک پہنچتی ہے تو اس کا زور کیوں ٹوٹ جاتا ہے۔
میں تقریبا ایک ہفتے سے کراچی میں موجود ہوں۔ تحریک انصاف کے عارف علوی یہاں کے ایک حلقے سے انتخاب لڑ رہے تھے۔ پولنگ کے دن سے دو روز پہلے ان کے حلقے سے تعلق رکھنے والے جن لوگوں سے ملا وہ ان کی حمایت میں بڑے پُر جوش نظر آئے۔ ان سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے یہ بھی خبر ہوئی کہ غیر ممالک میں مقیم پاکستانی صرف انھیں ووٹ دینے کراچی پہنچ رہے ہیں۔ پولنگ کے روز اس حلقے میں علی الصبح لمبی لمبی قطاریں بن گئیں۔ مگر بہت سارے پولنگ اسٹیشنوں پر انتخابی عملہ ہی نہ پہنچ پایا۔ ان کا انتظار کرتے بچے، بوڑھے اور جوان ہمارے ٹی وی چینلوں نے بار بار دکھائے۔ لاہور سے عمران خان اور حامد خان کی شکست کو تسلیم کرنا بھی تحریک انصاف کے لوگوں کے لیے بہت دشوار ہو رہا ہے۔
کئی ایک حیرانی سے پوچھ رہے ہیں کہ براہِ راست انتخاب لڑنے کے عمل سے ناآشنا شفقت محمود اسی شہر سے ایک نشست پر کامیاب ہو سکتے ہیں تو ملحقہ حلقوں سے عمران خان اور حامد خان کیوں نہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی Clips بھی لگائی گئی ہیں جو حامد خان کے خلاف کامیاب قرار دیے گئے خواجہ سعد رفیق کی مبینہ ''زور زبردستی'' کے واقعات ''بے نقاب'' کر رہی ہیں۔ چند حلقوں میں اگر واقعی دھاندلی ہوئی ہے تو تحریک انصاف کے کارکنوں کو اس کے خلاف احتجاج کرنے کا پورا حق ہے۔ حامد خان جیسے جید وکیل کے ہوتے ہوئے وہ اعلیٰ ترین عدالتوں تک پہنچ کر بھی اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں کی تلافی کرا سکتے ہیں۔ احتجاج کرتے ہوئے انھیں مگر اس بات کا بھی احساس کرنا چاہیے کہ قومی اسمبلی کے عارف علوی، عمران خان اور حامد خان والے حلقے ہی پورا پاکستان نہیں ہیں۔ ان حلقوں میں واضح طور پر نظر آنے والی انتظامی نااہلی اور دھونس کے ذریعے اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ ڈلوانے کے واقعات کی بناء پر پورے انتخابی عمل کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
تحریک انصاف کے کارکن تو اپنے چند حامیوں کی فتح کا یقین کیے بیٹھے تھے اور نتائج کا ان کی توقعات کے مطابق نہ آنا سمجھا جا سکتا ہے۔ میں ایک صحافی ہوں اور کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ کسی طرح کی کوئی جذباتی وابستگی نہیں رکھتا۔ 1975سے اسلام آباد میں رہتا ہوں اور خود کو انتخابی عمل کا بڑا تجربہ کار مبصر بھی سمجھتا ہوں۔ اس کے باوجود میں خود 11 مئی کے دن جاوید ہاشمی کی کامیابی پر بہت حیران ہوا۔ میری نظر میں جماعت اسلامی کے میاں اسلم اس شہر میں بڑی گرم جوش مہم چلا رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ ان کا پاکستان مسلم لیگ نون کے انجم عقیل سے بڑا کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔ جاوید ہاشمی اسلام آباد کے رہائشی نہ ہونے کی وجہ سے شاید تیسرے یا چوتھے نمبر پر رہیں گے۔ ایسا مگر نہیں ہوا۔ تحریک انصاف کا آخری بڑا جلسہ اسلام آباد کے ڈی۔ چوک میں ہوا تھا۔
عمران خان نے اسپتال کے بستر سے ایک بڑے پُر جوش مجمعے سے خطاب کیا جس کی بدولت نہ صرف جاوید ہاشمی بلکہ ٹیکسلا اور راولپنڈی کے حلقوں سے تحریک انصاف کے امیدواروں کو بھی شاندار کامیابی ملی اور میرا اس جلسے کے انعقاد سے پہلے کیا گیا ''حساب کتاب'' دھرے کا دھرا رہ گیا۔ جاوید ہاشمی کی کامیابی کے بعد میں ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے بعد ان کے حق میں اُٹھنے والی لہر کو پوری طرح سمجھ سکتا ہوں اور اس ضمن میں ''دھاندلی'' یا ''جھرلو'' کا کوئی الزام ہرگز سننے کو تیار نہیں۔ میرا خیال ہے کہ کچھ حلقوں کے چند پولنگ اسٹیشنوں پر واضح نظر آنے والی انتظامی نااہلیوں اور کچھ امیدواروں کی جانب سے مسلط کی گئی دھونس کے باوجود تحریک انصاف کو بھی آخر کار یہ سمجھ لینا ہو گا کہ میاں نواز شریف کی عمومی طور پر کامیابی ٹھوس وجوہات کا نتیجہ ہے۔ اس کے جتنے اسباب ہیں ایک ایک کر کے گنوائے جا سکتے ہیں اور ہمیں اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
میری اپنی نظر میں تحریک انصاف نے ان انتخابات میں ایک شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ خیبر پختون خوا میں تاریخی کامیابی کے علاوہ اس نے پنجاب میں خود کو ایک پُر جوش اپوزیشن کے طور پر منوایا ہے۔ ''اپنے قلعے'' میں ایسا شگاف نواز شریف کی جماعت کو پریشان کر دے گا اور اس کے لوگ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں سوچ سمجھ کر جایا کریں گے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اسلام آباد، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں سے اس طبقے کے بچوں بوڑھوں اور خواتین کو سیاسی عمل میں متحرک کیا ہے جو ابھی تک پولنگ کے روز اپنے آرام دہ گھروں میں بیٹھے ٹی وی ریموٹ کے بٹن گھما کر بڑی بے اعتنائی سے ''انتخابی تماشے'' دیکھا کرتے تھے۔ ان لوگوں کا سیاسی عمل میں اس بھرپور جذبے کے ساتھ شرکت کرنا دور رس حوالوں سے پاکستان کو ایک جدید جمہوری ملک بنانے میں بہت مددگار ثابت ہو گا۔ ان لوگوں کی ذہنی توانائی تحریک انصاف کو آیندہ کئی برسوں تک ایک جاندار جماعت بنائے رکھے گی۔
اب مگر جوش کے ساتھ ساتھ ہوش کی بھی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کی پہلی ترجیح اس وقت خیبر پختون خوا میں اپنی حکومت بنانا ہے۔ وہ جلد از جلد یہ حکومت بنانے کے بعد اپنے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے نوے دنوں کے اندر اندر لوگوں کو یہ پیغام دے سکتی ہے کہ نام نہاد ''گڈ گورننس'' کے پہلے اور آخری اجارہ دار صرف شہباز شریف نہیں ہیں۔