امریکا ایران کشیدگی بریک تھرو کی امید

لفظی گولہ باری اتنی زیادہ ہوئی کہ خدشات پیدا ہوگئے کہ کہیں حقیقی جنگ ہی شروع نہ ہوجائے


Editorial August 01, 2018
لفظی گولہ باری اتنی زیادہ ہوئی کہ خدشات پیدا ہوگئے کہ کہیں حقیقی جنگ ہی شروع نہ ہوجائے۔ فوٹو:فائل

اٹلی میں گفتگوکرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ یقینی طور پر ایرانی صدر سے ملاقات کے لیے تیار ہیں،کسی بھی مقام پرکسی بھی وقت ۔ بقول ان کے وہ یہ ملاقات کسی بھی قسم کی پیشگی شرائط کے بغیر کرنے کو تیار ہیں کیونکہ کسی سے ملاقات کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ۔دراصل امریکا اور ایران کے درمیان تناؤ تواسی وقت سے شروع ہوگیا تھا، جب سے صدر ٹرمپ نے ''جوہری معاہدے'' کے خاتمے کا اعلان کیا تھا ، حالانکہ اس معاہدے کی ضامن یورپی یونین سمیت عالمی طاقتیں تھیں، یہ تناؤ اب بھی موجود ہے،اس منظر نامے میں قاسم سلیمانی جو ایرانی افواج کے ٹاپ ملٹری کمانڈر ہیں ان کے بیان نے تہران اور واشنگٹن کے درمیان لفظی جنگ میں اضافہ کردیا تھا ، جب کہ ایرانی صدر روحانی نے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ '' ایران کے ساتھ امریکا کی جنگ تمام جنگوں کی ماں کہلائے گی ۔

امام خمینی کی قیادت میں آنے والے انقلاب کے بعد سے ایران کے امریکا سے کشیدہ تعلقات ہی رہے ہیں، یہ دو چار برس کی بات نہیں کئی دہائیوں پر مشتمل داستان ہے ۔ لیکن اس کے باوجود سابق امریکی صدر بارک اوباما نے ایران سے جوہری معاہدہ عالمی قوتوں کی ضمانت پر کیا تھا ۔ جسے ڈونلڈٹرمپ نے نہ صرف سبوتاژ کیا بلکہ اپنی شرائط پر نیا معاہدہ تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ ایرانی تیل کی برآمدات کو روکنے کی کوشش بھی ظاہر کی گئی ۔ جس پر جب ایران نے سخت ردعمل ظاہر کیا تو ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں ایران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکا کے خلاف سخت زبان کے استعمال سے گریز کرے ورنہ اسے سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے ۔

لفظی گولہ باری اتنی زیادہ ہوئی کہ خدشات پیدا ہوگئے کہ کہیں حقیقی جنگ ہی شروع نہ ہوجائے ۔ یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ اپنی متنازعہ بیان بیازی میں شہرت رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ ون آن ون ملاقات میں مہارت رکھتے ہیں اس کی مثال نارتھ کوریا کے کم جون آن اور رشین فیڈریشن پوتن سے ملاقاتوں کے بعد ظاہر ہوئے ہیں۔ جس میں نارتھ کوریا نے اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے شروع کردیے جب کہ روس کے ساتھ کشیدگی میں بھی کمی ہے ۔ ایران اور امریکا کو عالمی امن کی خاطر سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا کیونکہ دنیا کسی ایٹمی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔