ایشیا کی قیدی عورتیں
دوسروں پر صرف الزام اور دشنام کی کنکریاں پھیرتے ہیں کبھی خود کو ان کی جگہ رکھ کر بھی دیکھیں
شیفلر کی جس کتاب کا گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا، اس میں یہ بات کھٹکتی ہے کہ برصغیر اور ایشیا کے دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والی ان عورتوں کا ذکر اس میں سرے سے موجود نہیں جنھوں نے بیسویں صدی میں سیاسی میدان اور جد وجہد آزادی کے دوران برسوں قید و بند کی صعوبتیں سہیں۔ ہمارے سامنے ہندوستان کی عورتوں کے چہرے اور نام ابھرتے ہیں۔ ان میں غریب اور متوسط طبقے کی عورتیں ہیں جنھوں نے ہندوستان کی جد وجہد آزادی میں اپنا حصہ ڈالا اور جیل کی صعوبتیں سہیں۔ 1942 اور 1943 کے درمیان الٰہ آباد کی نینی جیل میں پنڈت نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت، اکلوتی بیٹی اندرا گاندھی جو اس وقت 25 برس کی تھیں، 18 برس کی چندر لیکھا پنڈت اور کانگریس سے تعلق رکھنے والی دوسری کارکن عورتیں اور لڑکیاں ایک ہی بیرک میں رکھی گئی تھیں، مسز وجے لکشمی پنڈت ان دنوں پابندی سے جیل کی ڈائری لکھتی رہیں جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ 12 سے 15 عورتوں کو بیرک نما ایک مستطیل کمرے میں رکھا گیا تھا۔
انھیں کوئی مشقتی عورت نہیں ملی تھی اور وہ اپنا ناشتہ کھانا خود تیار کرتی تھیں جس کے لیے ان میں سے دو کو بارہ آنے روزانہ ملتے تھے۔ یہ بارہ آنے اندرا اور چندر لیکھا کے لیے تھے جب کہ وجے لکشمی پنڈت اور دوسری قیدی عورتوں کو ''بی'' کلاس ملی تھی اور بارہ آنے روزانہ کا شاہانہ راشن، ان کے حصے میں نہیں آیا تھا۔ ان ہی دنوں میں ارونا آصف علی قید کی گئیں۔ 20ء اور 30ء کی دہائی میں درگا بھابھی، بھگت سنگھ کو فرار کرانے کی کوشش کے جرم میں قید کی گئیں۔ بینا داس نے بنگال کے گورنر کو گولی مارنے کی کوشش کی، شانتی گھوش اور سنیتی چوہدری کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ کوئی نمک بنانے کے جرم میں جیل گئی اور کسی کو ہندوستان چھوڑ دو، کی تحریک میں شریک ہونے پر قید کیا گیا۔ ایسی لڑکیوں اور عورتوں کے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔
بیسویں صدی میں ہماری متعدد عورتیں اس لیے جیل گئیں کہ وہ کمیونسٹ پارٹی یا انجمن ترقی پسند مصنفین سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان میں سب سے نامور ڈاکٹر رشید جہاں تھیں جنھوں نے جیل میں اتنی مشکلات اٹھائیں کہ مسلسل بیمار رہیں۔ ان کی ساتھی قیدی خواتین کے مطابق ان کے ساتھ رکھے جانے والے ناروا سلوک کی بنا پر وہ آخر کار کینسر میں مبتلا ہوئیں اور جان سے گزر گئیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیا نے ایک دوسرے کے ہاتھوں سیاسی اختلافات کی بنا پر برسوں جیل میں گزارے ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان کی کمیونسٹ رہنما موتیا چوہدری اور کئی دوسری عورتیں مغربی پاکستان کی فوجی حکومت کے ہاتھوں شداید سے گزریں۔ ایم آر ڈی موومنٹ چل رہی تھی تو یہ سندھیانی تحریک کی عورتیں تھیں جنھوں نے فوجی حکومت کی جیل کاٹی، ان میں سے بہت سی ایسی تھیں جن کے شیر خوار بچے تھے۔ کچھ سے ان کے شیر خوار بچے الگ کرلیے گئے تھے اور کچھ اپنی ماؤں کے ساتھ غیر انسانی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
ہمارے یہاں سب سے طویل جیل بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کاٹی، جنرل ضیا الحق کو نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے خوف آتا تھا۔ ہمارے اس متقی اور پرہیزگار آمر کو معلوم تھا کہ یہ دونوں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وارث ہیں اور اگر انھیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ملی تو پاکستان میں ہلچل مچ جائے گی اور پیپلزپارٹی کا راستہ روکنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ بے نظیر بھٹو نے قید کی تفصیلات اپنی خود نوشت میں بیان کی ہیں۔ یہ المناک ہیں، اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ آمر کتنے بزدل ہوتے ہیں اور جالب نے کتنی درست بات کہی تھی کہ 'ڈرتے ہیں وردی والے ایک نہتی لڑکی سے۔'
بے نظیر بھٹو کو جس نوعیت کی ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی گئیں، اس کے نتیجے میں وہ سماعت سے بڑی حد تک محروم ہوگئیں۔ اپنی رہائی کے بعدانھیں کئی آپریشن کرانے پڑے۔ قید کے ابتدائی دنوں کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے کہ زندان میں گزرنے والا پہلا مہینہ بہت مشکل تھا۔ مجھ تک یہ خبریں پہنچائی جاتیں کہ پارٹی کے صف اول کے لوگوں نے غداری کی ہے یہ باتیں میرے لیے ہمت شکن تھیں۔ میں شاید ٹوٹ بھی جاتی لیکن جیل حکام کا رویہ اتنا تلخ اور غیر انسانی تھا کہ میرے اندر وہ قوت پیدا ہوئی جس نے مجھے ضیا الحق جیسے آمر سے لڑنے کا حوصلہ دیا۔ میرا زیادہ وقت قید تنہائی میں گزرتا۔ مجھے اخباروں اور کتابوں سے محروم رکھا جاتا۔ میں اگر لکھنے کے لیے کاغذ مانگتی تو کئی دن گزرنے کے بعد کاغذ کا صرف ایک ورق دیا جاتا۔ پنسل یا قلم ایک نعمت تھی۔
وہ لکھتی ہیں کہ جب انھیں جبری جلاوطنی پر ملک سے باہر بھیجا گیا تو وہ جانا نہیں چاہتی تھیں لیکن جب ان کا طیارہ زیورخ ایئرپورٹ پر اترا تو انھیں احساس ہوا کہ وہ آزاد ہیں۔ ضیا الحق اور اس کے کارندے ان کا پیچھا نہیں کررہے اور وہ یورپ کی آزاد فضا میں سانس لے رہی ہیں۔
بے نظیر بھٹو کی خود نوشت ہمیں خوف زدہ اور ایذا پسند حکمرانوں اور ان کی چھتر چھایا میں فرعون بن جانے والے افسران کے بارے میں بتاتی ہے۔ ہم اس نوجوان لڑکی کو دیکھتے ہیں جو تنہا ہے اور یہ نہیں جانتی کہ اس کے گرد سانس لینے والے، اس سے اظہار ہمدردی کرنے والے، اس سے واقعی مخلص ہیں یا بکے ہوئے ہیں۔ یہ لڑکی اپنے باپ کی لاڈلی تھی۔ وہ شہید کے آخری دیدار سے محروم رہی، اس نے اپنی ماں کو صدموں سے نڈھال دیکھا اور ان کے لیے کچھ نہ کرسکی، اس کی بے بسی اور تنہائی کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔
اسی طرح ہم شہزادی زیب النسا کی اذیت کے بارے میں سوچ نہیں سکتے کہ جب وہ شہنشاہ اورنگ زیب کے حکم پر سلیم گڑھ کے قلعے میں قید کی گئی تو اس کے وہ تمام وظائف موقوف کردیے گئے جن سے وہ ہزارہا غریب گھرانوں کو ماہانہ رقم دیتی تھیں، انھیں حج کے لیے بھجواتی تھیں۔ ان سراؤں میں خاک اڑی جو شہزادی زیب النسا کے عطیات سے آباد تھیں اور جن میں غریب مسافر ٹھہرتے اور شہزادی کو دعائیں دیتے تھے۔
اس کی آباد کی ہوئی وہ شعری اور ادبی محفلیں ویران ہوئیں جن میں ہندوستان اور ایران کے نامی گرامی شعرا اسے داد دیتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ اس کا نام لینا بھی بھول گئے شہنشاہ کے غیض و غضب کا سامنا کون کرتا؟ یہ اس کی وفادار کنیزیں تھیں جو آخری سانس تک اس کے ساتھ رہیں۔ یہ وہی تھیں جنھوں نے اس کے اشعار کے پرزوں کو سینے سے لگاکر رکھا۔ یہ ان ہی کنیزوں کا کمال تھا کہ سالہا سال کی قید تنہائی کاٹنے والی اور شہنشاہ ہند کی قید زیب النسا کی شاعری محفوظ رہی اور آج اس کا دیوان ایران سے شایع ہوتا ہے۔ ایرانی اس کا کلام سر آنکھوں پر رکھتے ہیں اور ہم اسے اپنی بے مثال شاعرہ کہتے ہیں۔ یہ اقتدار بھی کمال کی چیز ہے۔ شہنشاہ جان سے عزیز بیٹیوں کو حرف غلط کی طرح مٹادیتے ہیں۔ انھیں قید تنہائی میں ڈال کر بھول جاتے ہیں اور جب بیٹی کی رخصت کی خبر ان تک پہنچے تو ہاتھ اٹھاکر اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور سیاسی اختلاف کی بنا پر اسے معاف نہیں کرتے۔ زیب النسا نیم نابینا ہوئی تو اس نے شہنشاہ سے عینک کی درخواست کی جو رد کردی گئی تھی۔
شیفلر نے اگر اپنی کتاب میں زیب النسا زندانی کا حال بیان کیا ہوتا، اگر بے نظیر بھٹو کی قید تنہائی کا قصہ لکھا ہوتا تو اس کی کتاب زیادہ وقیع ہوتی۔ اس نے جنوبی افریقا میں آزادی کی جد وجہد میں اپنی آسائشیں قربان کردینے والی ونی منڈیلا کی جیل کا بھی حوالہ دیا ہوتا تو کتنا ہی اچھا ہوتا۔ ونی نے اپنی جوانی اور زندگانی کے سالہا سال قید میں کھپادیے لیکن اس کے حصے میں کچھ نہ آیا۔
ہمارے سامنے برما کی آن سانگ سوچی کی قید کے سالہا سال ہیں۔ عزیز شوہر ایدی سفر پر چلا گیا، بیٹوں سے جدا ہونا اس کا مقدر ہوا لیکن یہ المناک بات ہے کہ سوچی جس کی شہرت کا ستارہ آسمان کی بلندیوں پر تھا، جب وہ رہا ہوئی اور اقتدار کی غلام گردشوں میں پہنچی تو اپنے چاہنے والوں کی نگاہوں سے گرگئی۔
انیسویں صدی کی قرۃ العین طاہرہ کی قید کے دن و رات کیسے بھلادیے جائیں اور پھر اس کا قتل۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران کتنی ہی عورتوں نے حب وطن کی قیمت جیل کی کال کوٹھری میں ادا کی، ان میں ٹیپو سلطان کی پڑپوتی نور عنایت خان کا نام نہیں بھلایا جاسکتا۔
اپنے سیاسی موقف کی بنا پر بیسویں اور اکیسویں صدی کے حالیہ 18 برسوں میں فلسطین کی لیلیٰ خالد اور عرب ممالک کی متعدد سیاسی کارکنوں نے جیل کاٹی ہے اور ایذا دہی میں ماہر محکمہ خفیہ کے افسران کے ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہیں ۔ چند دنوں پہلے اسرائیل کی قید سے رہا ہونے والی احمد تمیمی ان میں سے ایک ہے۔ لاطینی امریکا کے مختلف ملکوں کی عورتوں پر کیسے کیسے ستم توڑے گئے وہ ہمت اور جرأت جس کے ساتھ یہ نوجوان لڑکیاں اور بڑی عمر کی عورتیں اپنے تن بدن پر ستم کی داستانیں لکھواتی رہیں، اس کے لیے جگر چاہیے۔
سیاسی جد وجہد کے دوران بہت مشکل مرحلے آتے ہیں۔ کبھی غداری اور دہشت گردی کا طوفان گلے میں ڈالا جاتا ہے اور کبھی کینگرو عدالتیں آپ کو مجرم قرار دیتی ہیں لیکن اگر آپ کا ضمیر مطمئن ہے اور آپ عدالتوں کا سامنا کرنے کے لیے اپنے قدموں سے چل کر اپنے ملک کی سرزمین پر قدم رکھتی ہیں تو جیل، قید تنہائی اور اپنے پیاروں سے دوری کے مرحلے آسان ہوجاتے ہیں، ہم جو دوسروں پر صرف الزام اور دشنام کی کنکریاں پھیرتے ہیں کبھی خود کو ان کی جگہ رکھ کر بھی دیکھیں۔