اب پچھتائے کیا ہوت
Martin Niemoeller ایک جرمن مذہبی پیشوا‘ جنگ اور نازیوں کا سخت مخالف تھا
آج کل ملک کے بہت سے رہنماؤں کو ٹی وی پر دیکھ رہا ہوں' مولانا فضل رحمان صاحب گرجدار آواز میں میڈیا سے مخاطب ہوتے ہیں اورانتخابات میں دھاندلی کے خلاف بیان دیتے رہتے ہیں اور اسمبلیوں میں جانے کی مخالفت کرتے رہے 'ان کے ساتھ محترم سراج الحق صاحب' جناب آفتاب شیر پاؤ 'اسفندیار ولی خان'محمود خان اچکزئی'شہباز شریف' فاروق ستار'اکرم درانی'شاہ جی گل'پروفیسر ساجد میر' نورانی سمیت بہت سے قابل احترام اور جمہوریت پسند رہنماء کھڑے ہوتے ہیں۔شکر ہے کہ حزب اختلاف نے پارلیمنٹ کے اندر کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ انتخابات میں دھاندلی کے زور پر تحریک انصاف کو کامیابی دلوانے کی واردات کا جہاں تک تعلق ہے'ان کو دیکھ کر مجھے پچھلے ایک سال کے واقعات یاد آرہے تھے'پہلے آج انتخابات میں دھاندلی کا رونا رونے والوں کو ایک شعر یاد دلانا ہے۔
؎ وقت کرتا ہے پرورش برسوں...
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔
جھگڑا سول بالادستی'ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ جدوجہد کا تھا'جس کی وجہ سے پاکستان دنیا میں بدنام ہو رہا تھا' اس ''بیانیہ'' کی قیادت اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کر رہے تھے' ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ لیکن سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ہمارے جمہوریت پسند سیاسی رہنماء خاموش رہے بلکہ سراج الحق صاحب تو فخر سے کہتے تھے کہ پانامہ کیس میں انھوں نے ملک کے سب سے بڑے چور اور ڈاکو نواز شریف کو سزا دلوائی ہے۔
ملک کے اہم وکلاء کی بھاری اکثریت اور جمہوریت پسند سیاست دان اس وقت 'اقتدار میں کچھ حصہ پانے کی لالچ میں خاموش رہے۔17جولائی کوحقوق انسانی کمیشن نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی اور اخباری اطلاعات کے مطابق حقوق انسانی کمیشن کے وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات میں تحفظات پیش کیے۔ بہرحال پی ٹی آئی کی جیت کے لیے پہلا مرحلہ میاں نواز شریف کو میدان سے ہٹانا تھا' جب یہ مرحلہ طے کر دیا گیا تو نصف جنگ جیت لی گئی اور باقی نصف سفر آسان تھا جس کو مختلف مرحلو ں میں طے کیا گیا' سب یہ تماشا اور نا انصافی دیکھتے رہے لیکن سب خاموش رہے۔ایک جرمن فلاسفر کی شہرہ آفاق نظم۔
Martin Niemoeller ایک جرمن مذہبی پیشوا' جنگ اور نازیوں کا سخت مخالف تھا' انھوں نے نازیوں کے مظالم پر ایک مشہور نظم لکھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''وہ سوشلسٹوں کو گرفتار کرنے آئے 'میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا 'پھر وہ ٹریڈ یونین کے لیڈروں کو پکڑنے آئے'میں خاموش رہا کیونکہ مزدور رہنماء نہیں تھا' وہ یہودیوں کو پکڑنے آئے' میں پھر بھی چپ رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا' آخر میں وہ مجھے پکڑنے آگئے' میں نے مدد کے لیے چاروں طرف دیکھا لیکن مدد کے لیے کوئی نہیں بچا تھا''۔ تو جناب پانامہ سے چلنے والی گاڑی آخر سراج الحق صاحب کے حلقے میں آ کر رکی۔ جنوبی افریقہ کے بڑے لیڈر اور آزادی کے ہیرو بشپ ڈسمنڈ ٹوٹو کا قول ہے کہ۔
If you are neutral in situation of injustice,you have chosen the side of the oppressor''(Bishop Desmond Tutu). (جب نا انصافی ہو رہی ہو اور تم خاموش رہے تو اس کا مطلب ہے کہ تم ظالم کے طرفدار ہو)۔کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں کے علاوہ مختلف غیر جانب دار اور غیر سیاسی شخصیات اور دانشوروں نے اس ایک سال میں حالات کی نزاکت پر تبصرے بھی کیے اور حالات کو ٹھیک کرنے کی التجائیں بھی کیں۔ لیکن جو ہونا تھا، وہ ہوگیا۔ قومی قیادت بننے میں وقت لگتا ہے' یہ گملوں میں اگائے گئے موسمی پودوں جیسی نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں مقام افسوس ہے کہ جب کوئی قیادت سیاسی بلوغت کے بلند مقام پر پہنچتی ہے تو کچھ عناصر اس کا تیا پانچہ کرنے پر تل جاتے ہیں' اس بدقسمت ملک کی 70سالہ تاریخ اسی ظلم سے بھری پڑی ہے۔
اگر ہم محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی مثال لے لیں' جب تلخ تجربات کی بھٹی سے گزر کر انھیں ملک و قوم کے حقیقی ایشوز اور عالمی ترجیحات کے ساتھ مستقل قومی مفادات کے مطابقت میں شعوری آگاہی ہوئی تو بعض کی نظروں میں ناکارہ ہو کر رہ گئے اور ان کو منظر سے ہٹا دیا گیا' اب اگر پیپلز پارٹی کی قیا دت حقیقت میں بلاول بھٹو کو دی جاتی ہے اور محترم زرداری اور فریال تالپور ذرا پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو پھر بلاول سے عر ض کیا جا سکتا ہے کہ محترمہ نے جہاں تک جمہوری سفر پہنچایا تھا وہاں سے آگے ان کو سفر کرنا ہے۔
محترمہ نے تمام تر تلخ تجربوں سے گزر کر' حقائق کو سمجھ کر اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف کے ساتھ ''چارٹر آف ڈیموکریسی'' پر دستخط کیے تھے' بلاول نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''آئین' پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھنے والی تمام چھوٹی بڑی جمہوری قوتوں کو'' نئے سوشل کنٹریکٹ '' کے لیے یکجا ہونا چائیے۔ اس نئے سوشل کنٹریکٹ کے لیے میثاق جمہوریت ہی ایک بہترین بنیاد بن سکتی ہے' اس میثاق سے ہٹ کر پیپلز پارٹی آج تک کافی نقصان اٹھا چکی ہے۔
ان غلطیوں کا ازالہ اسی میثاق جمہوریت پر چلنے سے ہو سکتا ہے۔ محترم قائدین کی خدمت میں عرض ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو آپ خاموش تھے' بقول شخصے ''اب کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت''۔ پشتو میں ایک مثل ہے کہ انگلیوں سے لگائی گئی سخت گانٹھ کو کھولنے کے لیے مضبوط دانتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یا یہ مثل (cut the evil in the bud)کہ برائی کو ابتداء سے روکنا ضروری ہے۔اب تو یا ایک مضبوط تحریک چلانی ہے یا پرانی تنخواہ پر گزارہ کرنا ہے 'آپ اپنی کمزور سیاسی پارٹیوں کے بھروسے پر کیا کر سکتے ہیں؟۔