پی ٹی آئی کی جیت
ایسے میں کیا ہوناچاہیے۔جوڑ توڑ سودے بازی کیا یہ جمہوریت ہے۔ میرے نزدیک جمہوریت بدنام ہو رہی ہے
حالیہ انتخابات کے نتائج سے پاکستان میں جمہوریت کمزور ہوئی یا مضبوط؟ اس سوال کا جواب میری سمجھ میں نہیں آرہا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سندھ اور کے پی کے سوا مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان جیت کا جشن منا رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں اور وہ مرکز میں حکومت بنانے کے لیے صرف آزاد ارکان کے ہی نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے بھی محتاج ہیں۔ادھر پنجاب میں جوڑ توڑ شروع ہو چکا ہے۔ آزاد ارکان اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ کسی کے پاس اکثریت نہیں ہے۔سارے لوگ جدوجہد کر رہے ہیں ۔آزاد ارکان سے پی ٹی آئی بھی رابطے کر رہی ہے اور مسلم لیگ ن بھی۔ زیادہ چانسز یہی ہیں کہ آزاد ارکان پی ٹی آئی کی طرف جائیں گے اور ہمیں یہ رجحان نظر بھی آ رہا ہے۔
ایسے میں کیا ہوناچاہیے۔جوڑ توڑ سودے بازی کیا یہ جمہوریت ہے۔ میرے نزدیک جمہوریت بدنام ہو رہی ہے۔عوام یہ سارا کچھ دیکھ رہے ہیں لیکن کر کچھ نہیں سکتے۔ آج جو خاموش ہیں، تماشا دیکھ رہے ہیں، وہ کل کہیں گے کہ منڈی لگی ہے۔اس کو بھی چھانگا مانگا پارٹ ٹو ہی کہا جائے گا۔بلکہ یہ سارا کچھ کہا سنا بھی جا رہا ہے لیکن سیاست کا کھیل جاری ہے۔
اس وقت حکومت بنانے کی خواہش میں نہ کوئی نظریات ہیں نہ کوئی اصول ہیں۔ بس سب قبول ہیں۔ حتیٰ کہ جس نے شاہ محمود قریشی کو ہرایا ہے۔ وہ بھی قبول ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ اگر کسی نے عمران خان کو ہرایا ہوتا تو وہ بھی قبول ہی ہو جاتا۔ آخر حکومت بنانے کی خواہش میں کتنے اصول قربان کیے جا سکتے ہیں۔لیکن کیا جائے سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ صرف ایک ہی چیز مدنظر ہوتی ہے اور وہ ہوتی ہے اقتدار میں آنا ،ماضی میں بھی ہمیں یہی کھیل نظر آتا رہا اور آج بھی یہی نظر آ رہا ہے۔پی ٹی آئی ہر صورت میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مرکز میں اس کی نشستیں زیادہ ہیں' اس لیے سیاسی جوڑ توڑ کرنا اور دیگر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرنا اس کا جمہوری حق ہے۔سیاسی اتحاد پوری دنیا میں ہوتے ہیں۔ مخلوط حکومتیں بھی پوری دنیا میں قائم ہوتی ہیں ' اس لیے اگر یہاں بھی مخلوط حکومت قائم ہوتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر حکومت بنانے کے لیے یہ سب نہ کیا جائے تو کیا کیا جائے۔ تحریک انصاف اگر اب بھی حکومت نہ بنائے تو کیا کرے۔ اگر اب بھی تحریک انصاف حکومت نہ بنائے تو کون بنائے۔ اگر اکثریت نہ ملے تو نہ سہی کم از کم بڑی پارٹی تو تحریک انصاف ہی ہے۔ا س لیے حکومت بنانا اس کا حق ہے۔ کیا تحریک انصاف کو اس کے اس کے اس حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے ہیں۔ سب سے زیادہ سیٹیں ان کی ہیں۔ ایسے میں ان کے علاوہ کوئی اور کیسے حکومت بنا سکتا ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی کو لازمی طور پر اپنی حکومت بنانی چاہیے اور وہ اس کے لیے کوشش بھی کر رہی ہے۔ آئین اور جمہوریت پی ٹی آئی کو ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
لیکن دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ بے شک بڑی پارٹی ہے لیکن اکثریتی پارٹی نہیں ہے۔ بے شک سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ لیکن اتنے نہیں ملے کہ اکیلے حکومت بنا سکے۔ یہی عنصر پی ٹی آئی کی راہ میں ایک رکاوٹ بھی ہے۔ اگر اسے سادہ اکثریت مل جاتی تو آج ہمارے سامنے جو سیاسی جوڑ توڑ ہو رہا ہے اس کی نوبت ہی نہیں آنی تھی اور بڑے آرام سے ہر چیز طے ہو جانی تھی لیکن بدقسمتی سے پی ٹی آئی کو مرکز میں سادہ اکثریت نہیں مل سکی اس لیے اسے جوڑ توڑ کی سیاست میں حصہ لینا پڑ رہا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو گیم اس کے ہاتھ سے نکل کر دوسری طرف چلی جاتی۔ لیکن پھر بھی بعض حلقے کہتے ہیں کہ ایسے میں تحریک انصاف کو کیا کرنا چاہیے۔کیا تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے انکار کر دینا چاہیے۔ کیا اس سے ملک میں ایک آئینی بحران پیدا نہیں ہو جائے گا۔ کیا ایسے کرنے سے جمہوریت مضبوط ہو جائے گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اتنی کمزور حکومت کے ساتھ عمران خان اپنا مضبوط ایجنڈا کیسے نافذ کریں گے۔ میں تو پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ عمران خان جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ اس میں کسی بات پر بھی عمل نہیں کر سکتے۔لیکن وہ جو کمزور حکومت بنا رہے ہیں، اس کے ساتھ وہ شاید اپنے پروگرام پر عمل نہ کرسکیں۔ خطرہ ہے کہ کہیںوہ میچ شروع ہونے سے پہلے ہی ہار نہ جائیں۔ وہ آزاد رکن کی ناراضگی برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوںگے۔ بالخصوص پنجاب میں صورتحال نازک ہو گی۔ ایسے میں کسی بھی قسم کی اصلاحات کیسے ہو سکتی ہیں۔ سارا وقت روٹھوں کو منانے میں گزر جائے گا۔
لیکن ایسے میں عمران خان کیا کریں۔ انھیں ہمت کرنا ہوگی۔ انھیں حوصلہ پکڑنا ہوگا۔ انھیں پہلے اپنے دل میں تسلیم کرنا ہو گا کہ انھیں قطعی اکثریت نہیں ملی ہے۔انھیں بہت سوچ سمجھ کر چلنا ہوگا۔ ویسے بھی ساری سیاسی جماعتیں ان انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھا چکی ہیں ۔ حالات کچھ زیادہ اچھے نظر نہیں آ رہے۔ ان کے پاس ایک حل تو یہ ہے کہ وہ جوڑ توڑ کے ذریعے حکومت بنا لیں اور اس کے بعد ڈلیور کریں' اگر وہ ڈلیور کر گئے تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ یہ ان کی ذہانت کا بھی امتحان ہو گا دوسرا حل یہ ہے کہ وہ دوبارہ عوام کے پاس جانے کا آپشن استعمال کریں۔ آپ دوبارہ عوام کے پاس جا سکتے ہیں۔
عوام سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ میرے منشور سے متفق ہیں تو مجھے مکمل اکثریت دیں ۔ میں ایک کمزور حکومت کے ساتھ اپنے ایجنڈے اور منشور پر عمل نہیں کر سکتا۔ اس میں دو خطرے ہیں۔ عمران خان کے ساتھی اور وہ سیاستدان جو الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں بھی پہنچے ہیں' وہ اس آپشن کے حق میں نہیں ہوں گے، ان کا پہلا آپشن یہی ہے کہ حکومت بنائی جائے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ ان کا استدلال بھی مضبوط ہے کیونکہ موجودہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے لیے حالات ساز گار تھے' مسلم لیگ ن کرپشن کے الزامات کی زد میں تھی اور اس کی لیڈر شپ جیل میں بھی تھی' عوام میں وہ خاصی حد تک غیرمقبول بھی ہو رہی تھی' ان ساز گار حالات میں تحریک انصاف کو اتنی سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔دوبارہ اتنے سازگار حالات شاید نہ مل سکیں۔ پھر کون اتنی محنت کرے گا۔ اب کسی امیدوار میں اتنی ہمت نہیں کہ دوبارہ اتنا مہنگا الیکشن لڑ سکے۔ اب دوبارہ اتنی مہنگی مہم کون چلائے گا۔ اس لیے زیادہ بہتر یہی ہے کہ حکومت بنا لی جائے۔ حکومت بنا کر پارٹی کو بھی مضبوط کیا جائے اور ایجنڈے پر بھی نیک نیتی سے عمل کیا جائے' حالات کا تقاضا یہی ہے کہ یہی آپشن اختیار کیا جائے گا۔
عمران خان خود کہتے ہیں کہ انھیں اقتدار کا کوئی لالچ نہیں۔ اللہ تعالی نے انھیں سب کچھ دے دیا ہوا ہے۔ اب انھیں اقتدار کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تو عوام کی خدمت کے لیے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ ایک خاص سوچ اور نظریے کو نافذ کرنے کے لیے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تو پھر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ کہ ایک کمزور حکومت کے بجائے ایک مضبوط حکومت بنائی جائے۔ عوام سے مضبوط مینڈیت مانگا جائے۔ اگر لوگوں نے عمران خان کی بات مان لی تو ہو سکتا ہے کہہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے مضبوط حکومت بن جائے۔ دو تہائی مل جائے۔ پھر جتنی مرضی جیسے مرضی اصلاحات کر سکیں گے۔ پھر کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہوگی۔اگر فرض کر لیں کہ یہ اکثریت بھی چلی گئی تو کیا ہوگا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ عوام کی مرضی۔ عمران خان خود الیکشن سے پہلے عوام سے کہہ رہے تھے کہ انھیں مکمل اکثریت دی جائے ورنہ وہ اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے۔
بہر حال الیکشن ہوئے لیکن پی ٹی آئی کو صرف خیبرپختونخوا میں بھاری برتری حاصل ہوئی' ایسی ہی برتری مرکز اور پنجاب میں بھی ضروری تھی' بہرحال پی ٹی آئی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ میں نے تو ویسے ہی مختلف آپشنز کا ذکر کیا ہے لیکن اصل بات یہی ہے کہ عمران خان حکومت بنائیں گے۔ لیکن اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان بھی روائتی سیاست کی نذر ہو گئے ہیں۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ روایتی سیاست کے سہارے اپنے دامن میں کتنی کامیابی سمیٹتے ہیں۔