بلّے بلّے ہو گئی
یہاں دوستوں کی محفل میں سیاسی پارٹیوں کے انتخابی نشانوں کا تجزیہ ہونے لگا
پہلی بار ایسا ہوا کہ ملک میں جنرل الیکشن والے دن میں طارق حمید کے ہیوسٹن والے مکان پر اٹھارہ گھنٹے کے ہوائی سفر کے بعد غنودگی کی حالت میں اس الیکشن کی کارروائی ٹیلیویژن پر دیکھنے کے بجائے سننے کی کوشش کر رہا تھا جس کا رزلٹ لکھنے کا ارادہ میں نے ایک ہفتہ قبل لاہور ہی سے کیا تو کالم کا عنوان اسی روز سوچ لیا تھا جو لاہور جمخانہ میں دوستوں کی محفل میں بیٹھے ہوئے کاغذ پر لکھ کر سب کو دکھا بھی دیا تھا۔ وہی عنوان اوپر پیشانی پر درج ہے۔
جوالیکشن رزلٹ اس وقت آ رہا ہے، اس کا یقین تو نہیں لیکن خواہش یہی تھی ایسی ہی خواہش ذوالفقار علی بھٹوکے الیکشن کے دن تھی جب میں بحیثیت مجسٹریٹ ڈیوٹی پر ایک پولنگ اسٹیشن سے دوسرے کا دورہ کر رہا تھا۔ اس الیکشن کے بارے میں بھی یہی رائے تھی لوگ پارٹی صدر کے دعوؤں اور وعدوں کو اعتماد کی نظر سے دیکھ کر اپنی مرضی سے حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں، اس الیکشن کی بابت بھی جو اطلاعات امریکا پہنچنے پر اب تک ملی ہیں، ظاہر کرتی ہیں کہ خاص طور پر نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ بہتری اور تبدیلی کو ملک کی اولین پرجیح قرار دے رہا ہے۔
جنرل الیکشن میں تین بڑی سیاسی پارٹیاں برسرپیکار تھیں۔ پاکستان میں سیاست بذریعہ وراثت بغرض تجارت ہو رہی ہے، بلاول بھٹو سندھ تک سکڑی ہوئی پیپلزپارٹی کے نام پر جلسے کرتے ہوئے شہیدوں کے نام پر ووٹ مانگ رہا تھا۔ ہم جذباتی لوگ ہیں اس لیے آصف زرداری کے دور کو پس پشت رکھ کر دو شہیدوں کے وارث کو سننے چلے آ رہے تھے۔ اس نے واقعی کامیاب جلسے کیے لیکن لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ بلاول کے پس پردہ آصف زرداری کی سوچ ہے۔
تین بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے دو یعنی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(نواز) متعدد باریاں لے چکی ہیں۔ بے نظیر کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی نے Sympathy vote کی بنیاد پر اقتدار حاصل کیا، اس کے بعد نواز لیگ نے پانچ سال کے لیے اقتدار سنبھالا۔ ان دونوں کی انڈرسٹینڈنگ کے بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ایک دوسرے کو Live گیدڑ بھبھکیاں دیتے رہے لیکن دونوں نے ایک دوسرے کی پردہ پوشی کی۔ ان میں سے ایک پارٹی نے نوباریاں پوری کرلیں تو ان کی نو پٹاریوں میں سے ایک پٹاری کھلنے کے بعد سزائے قید کی ابتداء ہوچکی ہے جب کہ باقی آٹھ پٹاریاں کھلنی باقی ہیں۔
یہاں دوستوں کی محفل میں سیاسی پارٹیوں کے انتخابی نشانوں کا تجزیہ ہونے لگا۔ شیر کے بارے میں سب کا اتفاق تھا کہ یہ طاقت بہادری اور حکمرانی کا سمبل ہے۔ البتہ یہ اعتراض ہوا کہ شیر معصوم جانوروں کا شکار کرنے کے سوا اور کچھ کرتا دکھائی نہیں دیتا جب کہ بلّا طاقت کے ساتھ مہارت دکھاتا اور لاکھوں شائقین کو خوشی مہیا کرتا اور جیت ہار دونوں کی وجہ اور اہمیت کی نشاندہی کرکے ہار کو جیت میں بدلنے کا رستہ بھی دکھاتا ہے۔
انتخاب کا عمل مکمل ہونے کے بعد غیر سرکاری نتائج ٹیلی ویژن کے ذریعے نشر ہونے شروع ہوئے تو مجھے پیپلزپارٹی کے پہلے الیکشن کی یاد آنے لگی۔ اس وقت بھی نتائج سننے والے خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوتے چلے جارہے تھے۔ ماسوائے صوبہ سندھ کے۔ کئی دہائیوں سے اقتدار پر قابض مسلم لیگ (ن) کے برج الٹتے دیکھ کر لوگ ورطہ حیرت میں تھے۔ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف جو چار قومی اسمبلی کے چار حلقوں سے الیکشن لڑرہے تھے، تین جگہ سے الیکشن ہار چکے تھے جب کہ پیپلزپارٹی کے بلاول تین میں سے دو حلقوں سے شکست کھاگئے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین پانچ میں سے پانچوں حلقوں سے جیت کر نئی تاریخ رقم کرچکے تھے جب کہ حیرت انگیز طور پر نون لیگ کے گڑھ پنجاب سے اگرچہ چند سیٹیں کم جیتے تھے لیکن امکان یہی کہ مرکز اور KPK کے علاوہ یہاں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ شریف برادران کی طویل حکمرانی کے اختتام کی داستان انوکھی نہیں۔ تاریخ ایسی سبق آموز داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ اسی کو تو مکافات عمل کہتے ہیں۔ اگرچہ بلّے والوں کی بلّے بلّے ہوگئی ہے لیکن وہ یاد رکھیں کہ اڈیالہ جیل جہاں آج نواز شریف، اس کی بیٹی اور داماد قیام پذیر ہیں، اس کے دروازے کھلے رہیں گے اور کھلے رہتے ہیں۔
جوالیکشن رزلٹ اس وقت آ رہا ہے، اس کا یقین تو نہیں لیکن خواہش یہی تھی ایسی ہی خواہش ذوالفقار علی بھٹوکے الیکشن کے دن تھی جب میں بحیثیت مجسٹریٹ ڈیوٹی پر ایک پولنگ اسٹیشن سے دوسرے کا دورہ کر رہا تھا۔ اس الیکشن کے بارے میں بھی یہی رائے تھی لوگ پارٹی صدر کے دعوؤں اور وعدوں کو اعتماد کی نظر سے دیکھ کر اپنی مرضی سے حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں، اس الیکشن کی بابت بھی جو اطلاعات امریکا پہنچنے پر اب تک ملی ہیں، ظاہر کرتی ہیں کہ خاص طور پر نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ بہتری اور تبدیلی کو ملک کی اولین پرجیح قرار دے رہا ہے۔
جنرل الیکشن میں تین بڑی سیاسی پارٹیاں برسرپیکار تھیں۔ پاکستان میں سیاست بذریعہ وراثت بغرض تجارت ہو رہی ہے، بلاول بھٹو سندھ تک سکڑی ہوئی پیپلزپارٹی کے نام پر جلسے کرتے ہوئے شہیدوں کے نام پر ووٹ مانگ رہا تھا۔ ہم جذباتی لوگ ہیں اس لیے آصف زرداری کے دور کو پس پشت رکھ کر دو شہیدوں کے وارث کو سننے چلے آ رہے تھے۔ اس نے واقعی کامیاب جلسے کیے لیکن لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ بلاول کے پس پردہ آصف زرداری کی سوچ ہے۔
تین بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے دو یعنی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(نواز) متعدد باریاں لے چکی ہیں۔ بے نظیر کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی نے Sympathy vote کی بنیاد پر اقتدار حاصل کیا، اس کے بعد نواز لیگ نے پانچ سال کے لیے اقتدار سنبھالا۔ ان دونوں کی انڈرسٹینڈنگ کے بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ایک دوسرے کو Live گیدڑ بھبھکیاں دیتے رہے لیکن دونوں نے ایک دوسرے کی پردہ پوشی کی۔ ان میں سے ایک پارٹی نے نوباریاں پوری کرلیں تو ان کی نو پٹاریوں میں سے ایک پٹاری کھلنے کے بعد سزائے قید کی ابتداء ہوچکی ہے جب کہ باقی آٹھ پٹاریاں کھلنی باقی ہیں۔
یہاں دوستوں کی محفل میں سیاسی پارٹیوں کے انتخابی نشانوں کا تجزیہ ہونے لگا۔ شیر کے بارے میں سب کا اتفاق تھا کہ یہ طاقت بہادری اور حکمرانی کا سمبل ہے۔ البتہ یہ اعتراض ہوا کہ شیر معصوم جانوروں کا شکار کرنے کے سوا اور کچھ کرتا دکھائی نہیں دیتا جب کہ بلّا طاقت کے ساتھ مہارت دکھاتا اور لاکھوں شائقین کو خوشی مہیا کرتا اور جیت ہار دونوں کی وجہ اور اہمیت کی نشاندہی کرکے ہار کو جیت میں بدلنے کا رستہ بھی دکھاتا ہے۔
انتخاب کا عمل مکمل ہونے کے بعد غیر سرکاری نتائج ٹیلی ویژن کے ذریعے نشر ہونے شروع ہوئے تو مجھے پیپلزپارٹی کے پہلے الیکشن کی یاد آنے لگی۔ اس وقت بھی نتائج سننے والے خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوتے چلے جارہے تھے۔ ماسوائے صوبہ سندھ کے۔ کئی دہائیوں سے اقتدار پر قابض مسلم لیگ (ن) کے برج الٹتے دیکھ کر لوگ ورطہ حیرت میں تھے۔ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف جو چار قومی اسمبلی کے چار حلقوں سے الیکشن لڑرہے تھے، تین جگہ سے الیکشن ہار چکے تھے جب کہ پیپلزپارٹی کے بلاول تین میں سے دو حلقوں سے شکست کھاگئے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین پانچ میں سے پانچوں حلقوں سے جیت کر نئی تاریخ رقم کرچکے تھے جب کہ حیرت انگیز طور پر نون لیگ کے گڑھ پنجاب سے اگرچہ چند سیٹیں کم جیتے تھے لیکن امکان یہی کہ مرکز اور KPK کے علاوہ یہاں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ شریف برادران کی طویل حکمرانی کے اختتام کی داستان انوکھی نہیں۔ تاریخ ایسی سبق آموز داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ اسی کو تو مکافات عمل کہتے ہیں۔ اگرچہ بلّے والوں کی بلّے بلّے ہوگئی ہے لیکن وہ یاد رکھیں کہ اڈیالہ جیل جہاں آج نواز شریف، اس کی بیٹی اور داماد قیام پذیر ہیں، اس کے دروازے کھلے رہیں گے اور کھلے رہتے ہیں۔