تبدیلی کی جانب پہلا قدم

عوام کی بڑی تعداد پورے جوش وخروش سے آخر تک مو جود رہی تھی۔


عینی نیازی August 01, 2018

خلیل جبران کہتے ہیں کہ ''اگر تم کسی مطلق العنان حکمران کو معزول کرنا چاہتے ہو تو پہلے اس کا یقین کروکہ تم نے اپنے دل میں جو تخت اس کے لیے بنایا ہے وہ گرا دیا یا نہیں'' اور عوام نے اپنے دلوں سے وہ تخت گرا دیا۔انتخابات میں بڑے بڑے سیاسی برج عوام نے مسترد کردیے، ایک نئی قیادت کا انتخاب کرلیا، بیزار پریشان حال عوام کو عمران خان کی بات سمجھ آگئی، آخرکب تک ہم پرانی جماعتوں کے دھوکے میں آتے رہیں گے، جنھوں نے ملک کو لوٹنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔

عوام کو اس بات کو سمجھنے میں ایک طویل عرصہ لگا، لیکن عمران خان نے بائیس سال کی طویل جدوجہد کے بعد ایک اور میدان فتح کر لیا۔ عمران خان ان شخصیات میں شامل ہے جنھوں نے جو سوچا اسے کرنے کا عزم کیا اور پھر جی جان سے اس پر محنت کی اور بالاخر اپنے مقصد کو پا کر دم لیا۔ مجھے یاد ہے ہم لوگ اس دوران لاہور ہی میں تھے جب اگست 2013ء کو ہفتے کی شام شدید بارش اور طوفانی ہوائوں میں مینار پاکستان پر تحریک انصاف کے جلسے سے عمران خان خطاب کر رہے تھے کہ ''میں بڑے فیصلے کرنے سے نہیں ڈرتا مجھے کسی کا خوف نہیں، اس لیے بے دھڑک منزل کی جانب بڑھتا ہوں، جسمانی طاقت سے کہیں زیادہ اخلاقی طاقت مضبوط ہوتی ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑی ایمان کی طا قت ہے'' تحریک انصاف کا یہ جلسہ سیاسی ناقدین کی نظر میں ایک کامیاب جلسہ رہا تھا جو اس قدر خراب موسم کے باوجود عوام کی شر کت کوکم نہ کرسکا تھا۔عوام کی بڑی تعداد پورے جوش وخروش سے آخر تک مو جود رہی تھی۔

عمران خان نے اپنی پارٹی کی جانب سے اقتدار میں آنے کے بعد قرضے معاف نہ کرانے اور جائیدادیں باہر نہ رکھنے کا وعدہ بھی کیا۔ عوام کو سستا انصاف، روزگار اورطبی سہولتوںکی بات کی ان کے لہجے میں عزم وسچائی کی جھلک بھی نظر آتی تھی۔ دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کے لیے جینا پسند کرتے ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی ساری زندگی مخلوق خدا کی خدمت اور فائدے میں بسر ہو۔ یہ اعزاز بھی بہت کم لوگوں کو نصیب میں آتا ہے کہ اکیلے منزل کی جانب چلیں اور پیچھے ایک کارواں شامل سفر ہوجائے۔
عمران خان ایک ایسے ہی محب وطن پا کستانی لیڈر ہیں جنھوں نے صرف اپنی زبان سے ہی نہیں اپنے قول وفعل سے بھی پا کستانی عوام کے دلوں کو فتح کیا، انھوں نے کرکٹ کے میدان سے سیاست کے خار زار راستوں تک بڑی ثابت قدمی سے سفر طے کیا۔ وہ ایک مضبوط ارادے کے مالک ہیں انھوں نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ سے پہلے پاکستان کو ورلڈکپ کا فاتح بنانے کا خواب دیکھا، اسے شرمندہ تعبیرکیا۔1992ء میں عالمی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد سماجی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ اپنی والدہ کے نام سے کینسرکا ایک بڑا جدید اسپتال قائم کیا۔ عوام کے بھروسے اور اپنے ارادوں کے بل پر ایک شاندار درسگاہ (نمل)کے نام سے قائم کی جو معیارکے اعتبار سے پاکستان کے بڑے سے بڑ ے تعلیمی ادارے سے کم نہیں، خود عمران خان کی تعلیمی گراف پر نظر ڈالیں تو ہماری اکثریتی سیاسی لیڈرز ان کے مقابل میں عشر عشیر بھی نہیں، آپ بریڈ فورڈ یونیورسٹی چانسلرکے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔
عمران خان نے پاکستانی سیاست میں قدم رکھا تو ایک روشن ترقی یافتہ پاکستان کا خواب دیکھا ہے ایک ایسا پاکستان جہاں امن عدل وانصاف کا دوردورہ ہو، اسی لیے آزاد عدلیہ اور ججزکی بحالی میں فعال کردار ادا کیا اور وکلا تحریک کے ہم قدم رہے وہ مزاج کے اعتبار سے پاکستا ن کے دیگر سیاست دانوں سے مختلف ہیں، وہ ان سیاستدانوں میں شامل نہیں جو وزار ت کوکئی ایکڑ زمینوں، شوگر ملوں، نئے ماڈلزکی گاڑیوں اور محل نما حویلیوں کے لالچ میں پارلمینٹ میں قدم رکھتے ہیں لیکن عمران خان کی کوشش ہوگی کہ ایک عام آدمی اسمبلی تک رسائی حاصل کرسکے مگر یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ ان کی پا رٹی میں سیاست کے کئی پرانے کھلاڑی شامل ہیں، ہوسکتا ہے آنے والے وقتوں میں پرانے سیاسی کھلاڑیوں کے اصل چہرے سامنے آئیں۔ عوام جان پائیں کہ انھوں نے پرانا مال نئی پیکنگ کا انتخاب کیا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے، وہ سیاسی لیڈرعوام کے معیار پرکھرے ثابت ہوں، مگرالیکشن کی شاندارکامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ تحریک انصاف نے عوام کے دلوں میں اپنے لیے جگہ بنالی ہے۔

عمران خان پوری یکسوئی سے اپنے حریفوں کے مدمقابل رہے اور قوی امید ہے کہ تحریک انصاف آنے والے وقتوں میں پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید بنے گی۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ''قوموں کی ترقی میں آدھی جنگ اچھے لیڈرکے انتخاب سے جیتی جاسکتی ہے یہ ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا، جب تک ہمارا لیڈر ایماندار نہ ہو خلوص نیت،صداقت، شعاری اور سچائی کے بغیر یہ ممکن نہیں۔''
عمران خان نے 25 اپریل 1996ء میں تحریک انصاف کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی، تحریک انصاف اپنے قیام کے بعدکئی نشیب وفراز سے گزری۔ 1997ء کے انتخابات میں بری طرح ناکام ہوئی اور پھر 30 ستمبر2011ء تحریک انصاف کے لیے ایک یادگار دن تھا جب مینار پاکستان پر لاکھوں کے اجتماع نے اس جلسے میں بھرپور شرکت جس سے پارٹی کی مقبولیت ثابت ہوئی، بلکہ لاکھوں نوجوانوں نے اس پارٹی میں شمولیت اختیارکی۔ قومی اسمبلی کے چھ اراکین نے اسمبلی کی رکنیت کو چھوڑ کر تحریک انصاف میںشامل ہو نے کا فیصلہ کیا۔ اپنی اصول پرستی، سچائی اور جدوجہد کی بناء پر پاکستان کی ایک نمایاں سیاسی حیثیت کے ساتھ تحریک انصاف اپنا علیحدہ مقام بنانے میں کامیاب ہوئی، اس کا شمار پاکستان کی تین بڑی جماعتوں میں کیا جانے لگاخاص طور پر جب عوام تمام سیاسی پارٹیوں کو آزما چکے ہیں۔

سیاست دانوں کے جھوٹے وعدے وعید سن کر سخت بیزار ہیں۔ پاکستان اپنے قیام کے سات عشروں کے بعد بھی سیاسی لیڈروں کی کارگزاری صفر رہی ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے بیروزگاری میںاضافہ کیا ہے، پاکستان میں دہشتگردی ختم نہیں ہو سکی ہے۔ عوام ایسے کرپشن یافتہ حکمرانوں سے نجات کا راستہ ڈھونڈھ رہے تھے۔ اس لیے بھی عوام کی بڑی تعداد نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا خاص کر ان علاقوں سے جہاں مخصوص سیاسی جماعتوں کا راج رہا تھا، وہاں سے بھی حیرت انگیز نتائج سامنے آئے جن میں لیاری اور چوہدری نثار جیسے بڑے قد آور سیاسی بت بھی گرگئے یہ بات خوش آیند بھی ہے کہ پا کستانی قوم اب با شعور ہوگئی ہے ہم ایک پاکستانی قوم بن کر ملک کا فیصلہ کرنا جان گئے ہیں، اسی کو تبدیلی کہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں