11مئی کراچی میں بدنظمی
11 مئی کے انتخابات کراچی میں بدنظمی کے حوالے سے بدترین انتخابات ثابت ہوئے...
11 مئی کے انتخابات کراچی میں بدنظمی کے حوالے سے بدترین انتخابات ثابت ہوئے۔ الیکشن کمیشن، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بعض سیاسی جماعتوں کے رویوں نے کراچی کے عوام کو مایوسی کا شکار کردیا۔ کراچی میں 1970 میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ اس سے پہلے 50 کی دھائی میں اور پھر جنرل ایوب خان کے دور میں بلواسطہ انتخابات منعقد ہوئے تھے مگر 11 مئی کو ملک کی تاریخ میں منعقد ہوئے والے 10ویں انتخابات کے انتظامات کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ الیکشن کمیشن پہلی دفعہ انتخابات کا انعقاد کررہا ہے۔
ان انتخابات کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ پوری قوم اس حقیقت سے آگاہ تھی کہ 2013 میں پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کی معیاد مکمل ہوگی، یہی وجہ تھی کہ گذشتہ سال کے اوائل میں چاروں صوبو ں سے الیکشن کمیشن کے اراکین کے تقرر کا عمل مکمل ہوگیا تھا۔ پھر اس وقت کے وزیر اعظم اور قائد حزبِ اختلاف کی مشاورت سے سپریم کورٹ کے سابق جج اور ماہر قانون جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم چیف الیکشن کمشنر مقرر ہوئے تھے۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم چیف کے چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالتے ہی انتخابات کی تیاریوں کا کام شروع ہوگیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے شفاف ووٹر لسٹوں کی تیاری کے لیے نادرا کے ڈیٹا بیس کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت 18 سال اور اس سے زائد عمر والے لوگوں کی تصاویر، نام اور پتہ پر مشتمل مواد (DATA)انتخابی فہرست میں خودبخود منتقل ہوگیا تھا۔ یوں ووٹر لسٹوں میں ووٹروں کی تصاویر آویزاں کرنے کا مرحلہ آسانی سے مکمل ہوگیا۔
پھر الیکشن کمیشن نے گھر گھر اپنے عملے کو بھیج کر انتخابی فہرست میں شامل نہ ہونے والے افراد کے ناموں کے اندراج کے علاوہ انتقال پا جانے والے افراد کے ناموں کا اخراج اور کسی اور مقام پر منتقل ہونے والے افراد کے پتوں کی تبدیلی کے لیے بھی فارم تقسیم کیے تھے۔ کمیشن نے ایس ایم ایس (SMS) کے ذریعے انتخابی فہرستوں میں ناموں کے اندراج کی تصدیق کی سروس شروع کردی تھی۔ آئی ٹی ٹیکنالوجی کی یہ بہترین استعمال تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی میں انتخابی فہرستوں کی تصدیق کے لیے ایک مہم بھی چلائی گئی تھی۔ الیکشن کمیشن نے گزشتہ سال ہی امیدواروں اور ووٹروں کے لیے ایک ضابطہ اخلاق بھی تیار کرلیا تھا۔ اس ضابطہ اخلاق کے تحت جلوسوں اور بڑے بڑے بینروں پر پابندی لگادی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی انتخابی اخراجات کے لیے ایک مخصوص رقم کو ایک خاص بینک اکاؤنٹ کے ذریعے استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اس ضابطہ کے تحت امیدواروں پر ووٹروں کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پولنگ اسٹیشن ووٹروں کے قریب قائم کیے جائیں گے اور پولنگ اسٹیشنوں کی فہرست 15 دن قبل جاری کردی جائے گی۔ صدر آصف علی زرداری نے آئین کے تحت 60دن پہلے 11مئی کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔ یوں الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا۔ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن کے عملے کو پولنگ اسٹیشن بنانے کے لیے سروے کرنا تھا۔ شاید کمیشن کے عملے نے کراچی شہر میں یہ سروے کیا ہوگا مگر انتخابات سے صرف چند دن قبل پولنگ اسٹیشنوں کی فہرست جاری کی گئی۔ پولنگ اسٹیشن نجی اسکولوں کی چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں قائم کیے گئے۔ ایک عمارت میں دو دو پولنگ اسٹیشن تھے۔ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں ان نجی اسکولوں کی چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں ایک سے زیادہ پولنگ اسٹیشنوں کے قیام کا کوئی جواز نہیں تھا۔
ہر اسٹیشن میں کم از کم 2ہزار افراد کو ووٹ ڈالنا تھا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے سیکیورٹی پلان پر عمل کرنا مشکل تھا۔ پھر الیکشن کمیشن کی ایس ایم ایس سروس جن عمارتوں کو پولنگ اسٹیشن بنانے کی اطلاع دے رہی تھی وہ پولنگ اسٹیشن ان عمارتوں میں قائم ہی نہیں تھے، یوں الیکشن کمیشن کی الیکٹرونک پرچی لوگوں کو گمراہ کررہی تھی۔ سیاسی جماعتوں کی روایتی پرچی ووٹروں کی رہنمائی کررہی تھی۔ الیکشن کمیشن کے پریزائیڈنگ افسروں اور پولنگ افسروں کے تقرر کے لیے سرکاری محکموں سے ان محکموں کے ملازمین کی فہرستیں اس سال کے شروع میں ہی طلب کی گئی تھیں۔ محکموں نے یہ فہرستیں فراہم کردی تھیں مگر کمیشن کے عملے نے بہت دیر بعد ان فہرستوں پر توجہ دی۔ یوں وفاقی اور صوبائی محکموں کے عملے کے تقرر کا معاملہ بہت دیر میں شروع ہوا۔
کراچی کے حالات کی بناء پر بہت سے افراد جن میں خواتین بھی شامل تھیں کسی صورت الیکشن میں اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں مگر صوبائی الیکشن کمشنر ،ریٹرننگ افسران اور شہری انتظامیہ نے ان لوگوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ پھر سفارشوں کی بنیاد پر سرکاری افسروں کو لازمی ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیا جانے لگا۔ بعض حلقے یہ الزام لگاتے ہیں کہ عدالتی عملے نے ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دینے کے لیے بھاری رشوت وصول کی، یوں 11 مئی تک انتخابی عملے کی قلت کی شکایت رہی۔ اگر چہ بعض ریٹرننگ افسروں نے اساتذہ اور دوسرے افسروں کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے، ڈی جے کالج کے ایک سینئر استاد اس دباؤ کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ۔ کچھ ریٹرننگ افسروں نے پریزائیڈنگ افسروں کو اجازت دی کہ وہ خود اپنے عملے کا بندوبست کریں۔ یوں جن لوگوں نے انتخابی ڈیوٹیاں انجام دیںان میں سے کئی انتخابی قوانین سے بے بہرہ تھے۔
پھر الیکشن حکام نے زمینی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے پریزائیڈنگ افسروں کو حکم دیا کہ وہ 10 مئی کی رات پولنگ اسٹیشنوں میں گزاریں۔ کراچی شہر کے بیشتر اسکولوں اور کالجوں میں پانی، بیت الخلاء اور بجلی کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، اس کے علاوہ ان پولنگ اسٹیشنوں میں رات کو سیکیورٹی کا بھی اہم مسئلہ تھا اس بناء پر اس فیصلے پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن کے حکام اور ریٹرننگ افسران ہوٹلوں، ہاسٹلوں اور سرکاری عمارتوں میں تمام سہولتوں کے ساتھ عملے کے رات گزارنے کا انتظام کرتے تو 11 مئی کو عملے کے لاپتہ ہونے کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ 11 مئی کی صبح پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز اور ووٹ دینے کے عمل کو خفیہ رکھنے کے لیے گتے کے ڈبے فراہم کرنے میں زبردست تاخیر ہوئی۔ کراچی کے بہت سے حلقوں میں پولنگ دیر میں شروع ہوئی، کچھ پولنگ اسٹیشنوں میں 3 بجے سہہ پہر کو پولنگ کا عمل شروع ہوا جب کہ اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر یہ سامان صبح 9:30 بجے کے بعد پہنچا۔
ایک انگریزی اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولنگ کا سامان لے جانے والی بس سٹی کورٹ سے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکاروں کی نگرانی میں روانہ ہوئی تھی کہ راستے سے لاپتہ ہوگئی۔ پولیس حکام نے بس کے ڈرائیور سے پوچھ گچھ کی ہے مگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکار کہاں رہ گئے تھے اس بارے میں خاموشی پائی جاتی ہے۔ یوں کراچی کے مختلف حلقوں کے پولنگ اسٹیشنوں پر صبح سے ہزاروں افراد جمع ہوئے اور یہ دوپہر تک یہ ووٹ ڈالنے کا انتظار کرتے رہے اور مایوس ہو کر گھروں کو چلے گئے۔ ان لوگوں میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم بھی شامل تھے۔ پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جعلی ووٹنگ روکنے میں کوئی سرگرمی نہیں دکھائی، یہی وجہ تھی کہ کراچی شہر میں کسی فرد کو جعلی ووٹنگ کے الزام میں گرفتار نہیں کیا گیا۔ پھر جب شام کو عملہ ووٹوں کی گنتی کررہا تھا تو رینجرز اور پولیس کے دستے غالب تھے۔
یہی وجہ تھی کہ بعض سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے کئی پولنگ اسٹیشنوں پر عملے کو یرغمال بنالیا۔ 11 مئی کو رات گئے ٹی وی چینلز پر چلنے والی خبروں کی بناء پر انتظامیہ متحرک ہوئی، ان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مداخلت کی، یوں یہ عملے 12 مئی کی صبح انتخابی نتائج کے ساتھ متعلقہ ریٹرننگ افسروں کے دفاتر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ الیکشن کمیشن نے ان ہی وجوہات کی بناء پر پولنگ کا وقت بڑھایا۔ تاریخ میں پہلی دفعہ انتخابی حلقہ 139 کا نتیجہ 3دن تک رکا رہا، ایسا کیوں ہوا، کوئی نہیں جانتا۔ اب کراچی پھر ایک نئے بحران کا شکار ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف احتجاج کررہی ہیں، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا کہنا ہے کہ کراچی کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کرنا تو اس کو علیحدہ کردیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے کراچی میں اپنی ناکامی کا اعتراف تو کیا ہے مگر کوئی فوری اقدام نہیں کیاگیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ نے ایک دفعہ پھر 1988سے قائم روایت کے مطابق کراچی کو بحران میں مبتلا کر کے نئی حکومت کے لیے فوری طور پر ایک بحران کھڑا کردیا ہے۔ اب میاں نواز شریف کی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کریں یا اپنے دورِ حکومت میں کراچی کے مسئلے میں الجھے رہیں۔