عمران خان کے نام کھلا خط
حکمرانی ملک میں مغربی کلچر کو فروغ نہ دے اور دینی مدارس اور مذہبی طبقے پر کوئی مشکل وقت نہ لے آئے۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف
السلام علیکم!
سب سے پہلے تو آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ کی جماعت پاکستان تحریک انصاف 2018ء کے عام انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور آپ 22سال کی جدوجہد کے بعد اپنے خواب کی تعبیر کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ بڑی کامیابی یقینا آپ اور آپ کے کارکنوں کی پیہم جدوجہد، عزم، جوش، ولولے، لگن اور محنت کا ثمر ہے۔عوام نے آپ کی پارٹی کو آزمانے کا فیصلہ صرف اور صرف ملک وقوم کے مفاد میں کیا ہے۔
پوری قوم آپ سے بہت سی توقعات وابستہ کرچکی ہے،کیونکہ آپ ایک عرصے سے ملک اور قوم کی ترقی کے بہت سے دعوے اور وعدے کرتے آرہے ہیں، اگرچہ ناقدین کی طرف سے الزام لگایا جاتا رہا کہ خیبرپختونخوامیں آپ کی جماعت کی کارکردگی اچھی نہیں رہی، اس کے باوجود عوام نے آپ کو موقع دیا۔ اور اگر آپ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترتے تو پوری قوم کو مایوسی ہوگی۔
آپ نے 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد بہت ہی متاثر کن خطاب کیا ہے۔ اچھی طرز حکمرانی متعارف کرانے کی یقین دہانی کرائی اور پاکستان سے کرپشن کے خاتمے اور قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے انقلابی اقدامات کرنے کا بھی اعلان کیا۔ آپ نے کہا کہ میں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا خواہاں ہوں اور خلفائے راشدین کے وقت جیسا نظامِ حکومت چاہتا ہوں۔ تمام لوگوں کے لیے مساوی قانون بنایا جائے گا اور احتساب میری ذات سے شروع ہوگا بہت اچھا خطاب کیا ہے، کیونکہ قوم برسوں سے سیاستدانوں کے خطاب سنتی آرہی ہے، مگر اب قوم خطاب میں بیان کیے گئے نکات پر عمل ہوتے دیکھنا چاہتی ہے۔
پاکستان میں معیشت، انصاف، اعلیٰ تعلیم، صحت، قانون کی بالادستی، صاف پانی کی فراہمی کی حالت کچھ اچھی نہیں اور بجلی کے بحران، ماحول کی آلودگی، انکم ٹیکس کی ادائیگی،کرپشن، غربت، بیروزگاری، مہنگائی جیسے بہت سے مسائل ہیں۔ پاکستانی قوم آپ کو طیب اردوان کی شکل میں دیکھنا چاہتی ہے۔ جب طیب اردوان نے اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی، اس وقت ترکی کے حالات پاکستان سے بھی بدتر تھے، مگر چند سال میں ہی طیب اردوان نے ملک کی حالت بدل کر رکھ دی اور اپنے ملک کو اقتصادی لحاظ سے 111 نمبر پر موجود ملک کو اٹھا کر 16 ویں نمبر پر پہنچا دیا۔یہی وجہ ہے کہ وہ 2002ء سے لے کر اب تک کبھی وہ صدرکبھی وزیر اعظم منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں۔
عوام کی خدمت کی بدولت طیب اردوان کا عوام سے رابطہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 15 جولائی 2016ء کوفوج نے اچانک مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کیا توطیب اردوان کی اپیل پر ملک بھر میں عوام نے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر ثابت کیا کہ یہ مقبولیت کسی لیڈر کو اسی وقت ملتی ہے، جب وہ مسائل کے حل کے لیے فی الواقع اپنا خون پسینہ ایک کردے۔
قوم کو روایتی، موروثی سیاستدانوں سے تبدیلی کی امید نہیں تھی، جن میں اکثریت وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں، مذہبی رہنماؤں، صنعتکاروں اور امراء کی ہوتی ہے،مگر آپ نے بھی الیکشن سے پہلے انھیں میں سے بہت سے الیکٹ ایبلزکو اپنے ساتھ ملایا، لیکن آپ نے کہا کہ جب لیڈر ٹھیک ہو تو یہ لوگ بھی ٹھیک چلیں گے۔ آپ کی بات پر اعتبار کرتے ہوئے عوام نے آپ کی جماعت کوکامیاب کروایا ہے۔ قوم ایک ایسے نئے پاکستان کی توقع کرتے ہیں جس کا آپ نے قوم سے وعدہ کیا ہے اور جو اس ملک کے عوام کی اْمنگوں کے عین مطابق ہو۔
پاکستان میں ہمیشہ تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتیں کمزور اور غریب طبقے کا استحصال کرتی آئی ہیں،حالانکہ ملک میں محنت کش طبقہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ حکومتوں کی طرف سے غریب طبقے کو ریلیف دینے کی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں، لیکن حقیقت میں سب کچھ حکمران طبقہ ہی ہڑپ کر جاتا ہے۔ اب پاکستان کے اس غریب اور کمزور طبقے کا استحصال ختم ہونا چاہیے اور ان کو ریلیف ملنا چاہیے۔ اپنے دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آپ کے پاس پانچ سال ہیں۔ انھی پانچ سالوں میں آپ کو سب کچھ کردکھانا ہوگا۔ اگر آپ اپنے دعوؤں پر عمل کرگزرتے ہیںتو قوم آپ کو طیب اردوان کی طرح عظیم لیڈر تسلیم کرتے ہوئے برسوں اقتدار آپ کو ہی سونپ کر رکھے گی اور اگر خدانخواستہ آپ نے بھی دیگر حکمرانوں کی طرح کام نہ کرکے دکھایا تو قوم آپ کو کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرے گی۔
تحریک انصاف کی بڑی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس بار ملک کے مذہبی طبقے کی اکثریت نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ہے۔ اگرچہ آپ کے مخالفین کی جانب سے آپ کے خلاف مذہبی معاملات میں بہت بھونڈے الزامات لگائے گئے، لیکن اس کے باوجود مذہبی طبقے نے نہ صرف خیبرپختونخوا میں آپ کی جماعت کو دوبازہ آزمانے کا موقع دیا ہے، بلکہ ملک بھر میں آپ پر اعتماد کیا ہے، مگر اس کے ساتھ مذہبی طبقے کو آپ کے مخالفین کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے تشویش بھی ہے کہ کہیں آپ کا دور حکمرانی ملک میں مغربی کلچر کو فروغ نہ دے اور دینی مدارس اور مذہبی طبقے پر کوئی مشکل وقت نہ لے آئے۔
خدا کرے یہ تشویش بالکل غلط ہے۔ مذہبی طبقہ توقع رکھتا ہے کہ آپ کی حکومت ملک بھر میںمعاشرتی اقدار سے ٹکراتی ثقافت کو ہرگز مضبوط نہیں کرے گی۔ ملک کے ہزاروں دینی مدارس کے لاکھوں طلباء و طالبات کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے انھیں مین اسٹریم میں آنے کے مختلف مواقعے فراہم کرے گی اور ان کے لیے بھی روزگار کے مواقعے فراہم کیے جائیں گے۔ آپ میڈیا پر کئی بار آئمہ مساجد، دینی مدارس کے لاکھوں طلباء و طالبات کے لیے فکر مندی کا اظہارکرچکے ہیں، اب اپنی فکر مندی کو عملی جامہ پہنانے کا موقع میسر آیا ہے تو عملی جامہ ضرور پہنایئے۔
آخر میں ایک اور گزارش یہ کرنی ہے کہ ملک کی تعلیم یافتہ بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی گزشتہ پندرہ سال سے امریکا قید میں صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔ گزشتہ حکومتوں کوکئی بار اس کی رہائی کا موقع ملا، مگر کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ ایک فرد کا معاملہ نہیں، بلکہ پوری قوم کی غیرت و عزت اورگرین پاسپورٹ کی ناموس اور پاکستان کی خودمختاری کا معاملہ ہے۔
ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے لیے پریس کانفرنس کرکے سب سے پہلے آپ نے آواز اٹھائی تھی اور اس کے بعد بھی آپ نے حکومت میں آنے کے بعد عافیہ صدیقی کا پاکستان واپس لانے کا وعدہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان فخر سے کہا کرتے تھے کہ جب ہمارا لیڈر عمران خان اقتدار میں آئے گا تو بہت جلد قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان واپس آجائے گی۔ اگرچہ بہت جلد عافیہ کی واپسی مشکل ہے، لیکن اسے اپنی ترجیحات میں ضرور شامل کیجیے گا، دیگر حکمرانوں کی طرح آپ بھی بھول نہ جائیے گا۔ پوری قوم آپ کے لیے دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے اور آپ کی حکمرانی ملک کو اتناطاقتور اور ترقی یافتہ بنادے کہ پاکستانی قوم بھی دنیا میں سر اٹھا کر جی سکے۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔