ذرائع ابلاغ اورعوام

یہ مقبول اور دو تہائی مینڈیٹ کے دعوے دار رہنما فوجی آمروں کی گود...


Zaheer Akhter Bedari August 14, 2012
[email protected]

پاکستان آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں سے ایک راستہ اسی Status quo کی طرف جاتا ہے جو 65 سال سے عوام کا مقدر بنا ہوا ہے اور دوسرا راستہ Status quo کو توڑنے اور ملک کو پرانے نظام سے نجات دِلانے اور ایک بہتر اور ترقی یافتہ متبادل نظام کی طرف جاتا ہے۔ آج ملک اپنی تاریخ کی جس بدترین ہمہ جہت انارکی سے دوچار ہے، اس کا واحد حل حسب روایت انتخابات بتایا جارہا ہے۔ انتخابات کا مطلب Status quo کو برقرار رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو کون لوگ برسرِ اقتدار آئیں گے؟ کچھ دن پہلے تک یہ پروپیگنڈا ہوتا رہا کہ ایک ایسی پارٹی برسرِ اقتدار آرہی ہے جو چہرے نہیں نظام بدلے گی۔ اس پروپیگنڈے کی دھول اس لیے بیٹھ گئی کہ اس نئی پارٹی کے قائد نے محض انتخابات جیتنے کی صلاحیت کو معیار بنا کر وڈیروں کو اپنی جماعت میں شامل کرنا شروع کیا۔ رہی سہی کسر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس انقلابی پارٹی کے رہنما کے خلاف الزامات سے پوری ہوگئی۔ اس پیش منظر میں انتخابات کا مطلب تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ایک ایسی کمزور اتحادی حکومت کے علاوہ کچھ نہیں، جس کا سامنا اس ملک کے غریب عوام 65 برسوں سے کررہے ہیں۔

جب بھی ہمارے جمہوری حکمرانوں پر عوامی مسائل کے حل میں ناکامی کا الزام لگایا جاتا ہے، یہ بددیانت رہنما یہ عذر پیش کردیتے ہیں کہ بار بار کی فوجی مداخلت کی وجہ سے انھیں عوامی مسائل حل کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ یہ عذرگناہ بدتر ازگناہ کے علاوہ اس لیے کچھ نہیں کہ یہ مقبول اور دو تہائی مینڈیٹ کے دعوے دار رہنما فوجی آمروں کی گود میں پل کر جوان ہوتے رہے ہیں اور فوجی حکومتوں کو یا تو کندھا دیتے رہے ہیں یا پھر ان فوجی حکومتوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے بار بار کی فوجی مداخلت کا عذر عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ انھیں لگ بھگ 32 سال براہِ راست حکومت کرنے کا موقع ملا۔ اگر یہ چاہتے تو عوام کے مسائل حل کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے یہ 32 سال لوٹ مار میں گزار دیے۔

2007 کے بعد پاکستان کی قومی زندگی میں دو ادارے طاقتور ترین اداروں کی شکل میں داخل ہوئے۔ یہ دو ادارے عدلیہ اور میڈیا تھے۔ یہ دونوں ادارے 1947 سے 2007 تک ہمیشہ حکومتوں کے حامی بنے رہے۔ ان دونوں اداروں کے اس کردار کی وجہ سے ملک میں سیاسی تبدیلی مفقود رہی اور سیاسی وڈیروں کو لوٹ مار کی مکمل آزادی رہی، لیکن 2007 کے بعد ان دونوں اداروں کے طاقتور ہونے سے امید کی یہ کرن پیدا ہوئی کہ شاید اب اس ملک میں چہروں کی تبدیلی کا شاطرانہ کھیل ختم ہو؟ لیکن یہ دیکھا جارہا ہے کہ یہ دونوں ادارے نظام کی تبدیلی کے بجائے اپنی طاقت بے مقصد اور غیر منطقی سرگرمیوں میں ضایع کررہے ہیں۔ ہم یہاں عدلیہ کی کارروائیوں کا جائزہ اس لیے نہیں لیں گے کہ عدلیہ سیاست سے بالاتر ادارہ ہوتی ہے اور Status quo کو توڑنے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکتی۔

2007 کے بعد ہمارا میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا جتنا طاقتور ہوگیا ہے، اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے جمہوری سلاطین بھی اس سے خائف رہتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے اس کردار سے انکار ممکن نہیں کہ اس نے ایک طرف جمہوری بادشاہوں کی کرپشن اور بدعنوانیوں سے عوام کو آگاہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ عوام میں طبقاتی شعور پیدا کرنے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش بھی کی۔ بلاشبہ یہ کوشش قابلِ تحسین ہے لیکن اس حوالے سے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ایک طرف عوام کو سیاسی اوتاروں کی کرپشن سے آگاہ کررہا ہے تو دوسری طرف اپنے وقت کا 90 فیصد حصّہ ان ہی کرپٹ سیاست دانوں اور ان کے ترجمانوں کو دے رہا ہے۔

میڈیا کے حمام میں یہ سارے سیاسی اوتار عوام کے سامنے کھڑے کردیے گئے ہیں اور دوسری طرف ان ہی کو جمہوریت کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور انتخابی سیاست کی سازش کے ذریعے انھیں مزید 5 سال کے لیے عوام کے سروں پر مسلط رکھنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔

الیکٹرانک میڈیا جب حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو ایک انتہائی کرپٹ بدعنوان طبقے کے طور پر پیش کررہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ اس کرپٹ طبقے کا ایک بہتر ایمان دار مخلص باصلاحیت متبادل عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ کیا یہ منطقی ذمے داری میڈیا ادا کررہا ہے؟ اس کا جواب بدقسمتی سے نفی میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اتفاقی طور پر حکمرانوں کی نیندیں حرام کرنے والے اینکرز نظریاتی طور پر انتہائی تہی دامن ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ سیدھی سادی منطق نہیں آرہی ہے کہ چہروں کی تبدیلی کے کھیل کو ختم کرنا ہو تو پہلے Status quo کو توڑنا ہوگا۔ Status quo کو توڑنے سے پہلے ایک متبادل سیاسی قیادت کو ابھارنا ہوگا۔ وہ متبادل سیاسی قیادت کون سی ہوسکتی ہے؟ یہی وہ مشکل کام ہے جو الیکٹرانک میڈیا کا امتحان بھی ہے اور اس کے شعور کی کسوٹی بھی ہے۔

ہم یہاں متبادل قیادت سے مراد کوئی انقلابی قیادت بھی نہ لیں تو کم از کم اس کا مطلب ایسی قیادت تو ہوگا ہی جو 65 سالہ Status quo کو توڑنے پر یقین رکھتی ہو اور اس کی اہلیت بھی رکھتی ہو۔ اس مشکل کام کو انجام دینے کے لیے ہمارے میڈیا کے دوستوں کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کھنگالنی پڑے گی اور ان سیاسی کارکنوں، رہنمائوں، دانشوروں، طالب علموں، ڈاکٹروں، وکلا وغیرہ کو گمنامی کے ان اندھیروں میں ڈھونڈنا پڑے گا جہاں وہ اپنی بے پناہ قربانیوں، نظریاتی استحکام کے ساتھ بے دست و پا پڑے ذہنی اذیتوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ میڈیا مظلوموں کی انفرادی مظلومیت کو بڑی کامیابی کے ساتھ اسکرین پر پیش کرکے اس بدترین طبقاتی نظام کا مکروہ چہرہ عوام کو دِکھا تو رہا ہے لیکن ان کے سامنے وہ خوبصورت نظریاتی چہرے نہیں لارہا ہے جو اس ملک کی انفرادی مظلومیت کو نظام کی تبدیلی کے ذریعے اجتماعی طاقت میں بدلنا چاہتے ہیں۔ اگر میڈیا نے یہ ذمے داری پوری نہ کی تو نہ صرف اس کی ناقابلِ یقین طاقت کمزوری میں بدل جائے گی بلکہ عوام کی عدالت میں اسے کھڑے ہو کر اپنی ان کوتاہیوں کا جواب دینا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں