کپ جو عمران خان نے لہرایا
معجزات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ہم نے بھی زندگی میں بڑے معجزے دیکھے ہیں۔ 7 مئی 2013 کی صبح عمران خان کراچی آئے ...
معجزات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ہم نے بھی زندگی میں بڑے معجزے دیکھے ہیں۔ 7 مئی 2013 کی صبح عمران خان کراچی آئے اور سیدھے قائد اعظم کے مزار پہنچے، قائد کو سلام کیا اور فاتحہ پڑھی، پاکستان کے لیے دعا کی جیسے حالات چل رہے ہیں، میں عمران خان کے کراچی آنے پر فکر مند سا تھا اور میرا دل اس وقت تک عمران کے لیے دعا کرتا رہا جب تک وہ اس بے یار و مددگار شہر سے چلا نہیں گیا۔ دوپہر میں عمران خان واپس لاہور جا چکا تھا۔ اور پھر میں بے فکری سے اپنے کام نمٹانے میں لگ گیا۔ شام سے پہلے میں گھر آ گیا تھا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ ٹی وی اسکرین پر غالب مارکیٹ لبرٹی گلبرگ لاہور کا جلسہ دکھایا جا رہا تھا۔ جس سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے خطاب کرنا تھا۔ عمران خان کی جلسہ گاہ آمد کا اعلان ہو رہا تھا۔
اور وہ ایک عارضی لفٹر کے ذریعے اپنے محافظوں کے ساتھ نیچے سے اوپر اسٹیج کی جانب آ رہا تھا، گلے میں تحریک انصاف کے پرچم کے رنگوں والا پٹکا ڈالے، عمران نہایت خوش نظر آ رہا تھا کہ اچانک عمران اور اس کے محافظ توازن برقرار نہ رکھنے کے سبب تقریباً پندرہ فٹ کی بلندی سے قلابازیاں کھاتے ہوئے نیچے گر گئے۔ یہ لمحات پورے پاکستان اور پوری دنیا میں دیکھے جا رہے تھے۔ عمران خان زخمی ہو چکے تھے، ان کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ عمران نیچے گرے تو لوگ انھیں اٹھانے کے لیے آگے بڑھے، تو زخمی عمران خان نے کہا ''نہیں! میں خود اٹھوں گا'' مگر کمر میں بھی شدید چوٹ لگی تھی اور وہ اٹھ نہ سکے اور بے ہوش سے ہو گئے۔ اب عمران خان کو لوگ ہاتھوں پر اٹھائے ان کی کار کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ عمران خان کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا۔ زخم دائیں جانب عین آنکھ کے اوپر آیا تھا۔ عمران کی آنکھیں بند تھیں اور پورے پاکستان میں اور دنیا بھر میں یہ منظر دیکھتے ہوئے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی سانسیں بند ہو رہی تھیں۔ یہ وہ لمحات تھے کہ جہاں عمران اور پاکستان ایک ہو چکے تھے۔
پاکستان زخمی تھا معجزات یہاں سے شروع ہوتے ہیں زخمی عمران خان کو اسپتال لے جانے والوں کی رہنمائی خدا خود کر رہا تھا اور عمران خان کو شوکت خانم کی بجائے بہت ہی قریب واقع فضل اسپتال پہنچایا گیا، ورنہ خون زیادہ بہہ جاتا، فضل اسپتال میں ڈاکٹر شفیق اسم بامسمیٰ ثابت ہوئے۔ انھوں نے بہتے خون کو روکا۔ سر پر دو جگہ زخم آئے تھے، ماتھے پر پانچ ٹانکے لگائے گئے اور چھ ٹانگے سر کے پچھلے حصے میں لگے۔ عمران خان نے کمر میں شدید درد کا بتایا۔ تو ڈاکٹر شفیق نے Pain Killer انجکشن دے کر عمران خان کو ان کے کہنے کے مطابق شوکت خانم کینسر اسپتال روانہ کر دیا پھر ڈاکٹر شفیق نے پاکستان اور دنیا بھر میں موجود کروڑوں لوگوں تک یہ رپورٹ پہنچائی کہ ''عمران خان'' مکمل طور پر ہوش میں ہیں، باتیں کر رہے ہیں اور خطرے سے باہر ہیں'' یہ خبر سن کر دنیا بھر میں لوگوں نے قدرے سکون کا سانس لیا، مگر کروڑوں ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھے ہوئے تھے۔
اب عمران خان کو شوکت خانم اسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ عمران خان کلمہ طیبہ اور درود شریف کا ورد کر رہے تھے۔ آیندہ ایک گھنٹے میں سی ٹی اسکین اور دیگر ضروری ٹیسٹ کیے جا چکے تھے۔ عمران خان کے ہزاروں کارکن نوجوان لڑکے لڑکیاں بوڑھے مرد عورتیں بچے شوکت خانم اسپتال کے باہر بہتے آنسوؤں کے ساتھ آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے مسلسل دعائیں مانگ رہے تھے اور پھر اللہ نے ان کی دعائیں قبول کر لیں اور شوکت خانم اسپتال سے حتمی اعلان کیا جا رہا تھا۔ ''عمران خان مکمل طور پر خطرے سے باہر ہیں سر میں ہلکا سا فریکچر ہے، دماغ مکمل محفوظ ہے، کمر میں ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ آئی ہے جو پندرہ دن آرام کرنے پر ٹھیک ہو جائے گی''۔ یہ رپورٹ سنتے ہی غم کے آنسو خوشی کے آنسوؤں میں بدل گئے، ہزاروں ہاتھوں میں تحریک انصاف کے پرچم لہرانے لگے۔ عمران خان کے جاں نثار تالیاں بجا رہے تھے اور پھر سارے لوگ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کا سانحہ عظیم لوگوں کو یاد آ رہا تھا خدا نے معجزاتی طور پر دوسرے سانحے عظیم سے ہمیں بچا لیا۔
اس موقعے پر پاکستان کے سیاسی رہنماؤں نے بھی بڑے اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کیا۔ خصوصاً نواز شریف صاحب نے جو اس وقت راولپنڈی میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ نواز شریف نے عمران خان کی مکمل صحت یابی کے لیے دعا کی اور ہزاروں شرکاء جلسے سے یہ کہا کہ آپ آمین کہیں۔ اس کے بعد نواز شریف نے آیندہ دن کے لیے اپنی تمام انتخابی سرگرمیاں منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ پورے پاکستان کے لیے یہ نہایت خوش آیندہ بات ہے۔ صدر زرداری، الطاف حسین، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمٰن، منور حسن، چوہدری شجاعت حسین سمیت تمام سیاستدانوں نے عمران خان کے لیے دعاؤں کے پیغامات بھیجے، شہباز شریف اسپتال پہنچے۔
رات پونے دس بجے آئی سی یو وارڈ شوکت خانم کے بیڈ پر لیٹے ہوئے زخمی عمران خان کو کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی تھی اور مائیک سامنے تھا۔ عمران خان کہہ رہے تھے ''مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کر دیا اور یہ میں نے کسی پر احسان نہیں کیا۔ اب آپ کو 11 مئی، 11 مئی (عمران نے دو مرتبہ کہا) والے دن گھروں سے نکلنا ہے، شخصیات اور برادریوں سے نکل کر نظریے کو ووٹ دینا ہے، یہ نہ سوچنا کہ تحریک انصاف کا کون امیدوار کھڑا ہے، بس آپ نے تبدیلی کو نئے پاکستان کے لیے ووٹ دینا ہے، اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے ووٹ دینا ہے، یاد رکھو! خدا انھی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں''۔
عمران خان! تم سرخرو ہو گئے، اللہ نے تم کو پاکستان کے غریبوں، مقہوروں، مجبوروں کی بحالی کے لیے چن لیا ہے، اتنا بڑا سانحہ ہوا اور تم محفوظ رہے اور اس واقعے کے نتیجے میں تمہارا کامیابی کا موجودہ گراف کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے لاکھوں جاں نثار نوجوانوں کے لیے حبیب جالب کی ایک نظم پیش کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
ورلڈ کپ 1992
کپ جو عمران خان نے لہرایا
یاد ہم کو جنوں کا دورآیا
آسماں ہو گئی زمیں میری
افق نو مجھے نظر آیا
میں ہوا معتبر زمانے میں
میں نے خود کو عظیم تر پایا
منزلیں خود صدائیں دینے لگیں
ہوا تحلیل یاس کا سایہ
ہونٹ آہوں سے کچھ ہوئے آزاد
جیت کا گیت وقت نے گایا
زندگی نام ہے تگ و دو کا
ہم کو عمران خان نے بتلایا