صائب فیصلہ
نظام میں رکاوٹ ڈالنے سے گریز کیا جائے۔ جب نظام چلتا ہے، تو لازماً بہتری آتی ہے۔
انتخابات آئے اور شکوے شکایتوں اور تحفظات کے بیچ مکمل ہوئے، اگلا مرحلہ حکومت سازی کا ہے، جو امکان ہے کہ اس ہفتے کے اختتام تک تکمیل پذیر ہوجائے گا ۔ جو ہوا ، سو ہوا ، غلطیاں ، کوتاہیاں اور کمزوریاں ضرور شمار کریں، مگر آیندہ نہ دھرانے کی غرض سے۔ مگر نظام میں رکاوٹ ڈالنے سے گریز کیا جائے۔ جب نظام چلتا ہے، تو لازماً بہتری آتی ہے۔ ملک کی دو بڑی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اس فلسفے پرعمل کیا۔انھوں نے جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے نہ صرف خود پارلیمان میں بیٹھنے کو ترجیح دی بلکہ متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمان کو بھی قائل کرلیا۔
چالیس برس سے اوپر ہوئے حسن طارق مرحوم نے ایک فلم بنائی تھی ''اک گناہ اور سہی'' اس فلم کے ایک منظر میں صبیحہ خانم کا ایک ڈائیلاگ تھا کہ نالی میں جب روڑے ڈال کر پانی کے بہاؤ کو روکا جاتا ہے، تو گندا پانی گھروں کے اندر آتا ہے۔ نظام مملکت بھی پانی کے بہاؤکی مانند ہوتا ہے۔اس کی اپنی حرکیات (Dynamics) ہوتی ہے ، جس کے بہاؤ کو روکنے سے نظام زندگی تو نہیں رکتا، البتہ ریاستی ڈھانچہ بے سمت ضرور ہوجاتا ہے۔ جمہوریت اور جمہوری عمل کے اندر پائی جانے والی خامیاں اور خرابیاں بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہنے سے دور ہوتی ہیں اور واضح سمت کا تعین ہوتا ہے۔
قومی سیاسی جماعتوں نے تاریخ کے تجربات سے سیکھا ہے کہ پارلیمان سے باہر رہ کر جمہوری عمل کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں دو واقعات کا تذکرہ ضروری ہے جن کی وجہ سے پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔1977میں پاکستان قومی اتحاد(DNA)کو قومی اسمبلی کے انتخابات کے دوران یہ شک گذرا کہ کئی حلقوں میں بدترین دھاندلی کی گئی ہے۔ جس کے ردعمل میں چند روز بعد ہونے والے صوبائی اسمبلیوںکے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے پارلیمان میں احتجاج کرنے کے بجائے سڑکوں پر تحریک چلانے کو ترجیح دی۔ کئی مہینوں تک نظام مملکت مفلوج رہا ۔ جس کا نتیجہ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کی شکل میں ظاہر ہوا ۔جس نے گیارہ برس تک نہ صرف جمہوری عمل کے ارتقا کو روکے رکھا بلکہ ملک کو بد ترین قسم کے بحرانوں کا شکار بھی کر دیا۔ جن میں سب سے نمایاں مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت میں اضافہ، اسلحہ اور منشیات کا کھلے عام استعمال اور دلیل کی بنیاد پر مکالمے کا خاتمہ تھے۔
دوسرا واقعہ 1985کے غیر جماعتی انتخابات تھے۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی سمیت قومی دھارے (Mainstream) کی تمام جماعتوں نے بائیکاٹ کیا جس کے نتیجے میں ایک ایسی اسمبلی وجود میں آئی، جس کے اراکین برادری، قبائلی اور جاگیردارانہ اثرو نفوذ کی بنیاد پر منتخب ہوئے۔ نتیجتاً قومی معاملات و مسائل سے بے خبر ان اراکین کا محور و مقصود حلقہ جاتی مفادات کا حصول ٹہرا۔ جس کی وجہ سے قومی تشخص اور قومی مسائل سے عدم دلچسپی کو فروغ ہوا ۔ اس پر طرہ یہ ہوا کہ اس بے سمت ہجوم کو اکٹھا کرنے کے لیے علاقائی ترقیاتی فنڈ کا لالی پاپ دے کر سیاسی حلقوں میں کرپشن کا ایک نیا دروازہ کھولا گیا۔
محترمہ شہید نے یہ تسلیم کیا تھا کہ 1985کے غیر جماعتی الیکشن کا بائیکاٹ ان کی جماعت کی بڑی سیاسی غلطی تھی۔ جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچا اور بعض حلقوں بالخصوص پنجاب کے اربن علاقوں میں نئے لوگوں کو جگہ(space) ملی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس الیکشن کے بعد ہی سے پیپلز پارٹی پنجاب میں سکڑنا شروع ہوئی اور آج بد ترین صورتحال کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی کی اپنی سیاسی ، تنظیمی اور انتظامی غلطیاں اس کے سوا تھیں۔
اس تناظر میں حالیہ انتخابات میں تمام تر تحفظات رکھنے کے باوجود قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کا پارلیمان میں جانے اور مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ قابل قدر ہے، کیونکہ جذبات میں آکر پارلیمان سے باہر اپنا احتجاج کو رجسٹرڈ کرانے کا عمل یقینی طور پر جمہوریت کو Derailکرنے کے ساتھ ملک کی پہلے سے تباہ حال معیشت کو مزید تباہی کے دہانے تک پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے ۔اس لیے اس سے جس حد تک اجتناب ممکن ہے، کیا جانا چاہیے۔
اب دوسری طرف آتے ہیں۔ ان صفحات میں درجنوں مرتبہ لکھا کہ پاکستان میں اصل خرابی انتخابی نظام میں پائی جانے والی خامیاں اور کمزوریاں ہیں۔ جن کی وجہ سے1977سے آج تک کوئی بھی انتخاب تمام فریقین کے لیے قابل قبول نہیں ہو پا رہا ۔اس کا سبب یہ ہے کہ انتخابات میں شکست پانے والی سیاسی جماعتیں الیکشن کے فوراً بعد واویلا تو بہت مچاتی ہیں، دھرنے دیتی ہیں اور جلسے جلوس نکالتی ہیں، لیکن اس نظام کی درستی کے لیے پارلیمان میں مناسب قانون سازی سے گریزکرتی ہیں، اگر سنجیدگی کے ساتھ انتخابی نظام میں وسیع البنیاد اصلاحات لانے کے لیے قانون سازی کے ساتھ الیکشن کمیشن کی جدید خطوط پر تنظیم نو کی جانب ٹھوس قدم اٹھا لیا جائے، تو دھاندلی سمیت بہت سے جھنجھٹ ختم ہوسکتے۔ مگر اس کام کے لیے سیاسی عزم و بصیرت، دور اندیشی اور قوم کے لیے درد محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔جس سے افراد، جماعتیں، تنظیمیں اور ادارے سبھی عاری ہیں۔
ہمارے عام طور پر یہاں دو طرح کے اعتراضات یا تحفظات سامنے آتے ہیں۔ اول، انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کا کمزورکردار۔ دوئم، غیر سیاسی قوتوں یا بعض ریاستی اداروں کی انتخابی عمل میں ماورائے آئین مداخلت اور انھیںManipulate کرنا۔ ان دونوں قسم کے تحفظات کا واحد حل جدید تقاضوں سے ہم آہنگ انتخابی نظام اور ایک آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن ہے، اگر پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں اسی جذبے اور سیاسی عزم کا مظاہرہ کریں، جو انھوں نے اٹھارویں ترمیم کی منظوری میں کیا تھا، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم جدید تقاضوں سے ہم آہنگ انتخابی نظام کا نفاذ اور ایک آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن تشکیل نہ دے سکیں۔
اب جہاں تک غیر سیاسی قوتوں کی جانب سے انتخابات کوManipulate کرنے کے الزام کا تعلق ہے، تو اس بارے میں کچھ شواہد تو بہر حال موجود ہیں، جن سے صرف نظر ممکن نہیں ۔یہ کہانی چند برسوں یا دہائیوں کی نہیں بلکہ قیام پاکستان کے ساتھ شروع ہوگئی تھی۔ اس رجحان یا رویے سے چھٹکارے کا واحد حل بھی پارلیمان کی قانون ساز اور فیصلہ ساز حیثیت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم بنانے میں مضمر ہے۔ جب پارلیمان مضبوط ہوگی تو ریاستی ادارے اس کے احکامات کی تعمیل اور اس کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوں گے۔ دراصل ہماری سیاسی جماعتیں خود معذرت خواہانہ انداز رکھتی ہیں، جس کی وجہ سے بیوروکریسی کو من مانیاں کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے پارلیمان کے ذریعے خود کو سیاسی طور پر Assertکریں، تو کوئی وجہ نہیں کہ ریاستی ادارے ان کی حکم عدولی کا تصور بھی کرسکیں۔
پھر عرض ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے پارلیمان کے ذریعے اپنے تحفظات کے اظہارکا جو فیصلہ کیا ہے، جو صائب، قابل قدر اور ملکی مفاد کے عین مطابق ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمان میں محض اختلاف برائے اختلاف کرنے کے بجائے انتخابی اصلاحات، معیشت کی بہتری اور سب سے بڑھ کر ریاستی انتظامی ڈھانچے میں کلیدی اصلاحات کے لیے کام کریں۔ یقین کیجیے کہ اس مرتبہ سنجیدگی اور سیاسی عزم کے ساتھ انتخابی اصلاحات پر توجہ دی گئی اور حقیقی معنی میں ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن تشکیل دینے میں پارلیمان کامیاب ہوجاتی ہے، تو 2023کے انتخابات لازمی طور پر شفاف ہوسکیں گے، جو ایک بہت بڑی قومی خدمت ہوگی ۔