دودھ والا
جب بادشاہ شکار پر جاتا تو بہت سارے لوگ اپنے ہاتھوں پر بازکو بٹھائے ساتھ چلتے رہتے۔
اتنی جلدی تو دال نہیں پکتی جتنی جلدی حکومت پکی ہوگئی ہے۔ لڑکیاں پریشان ہوگئی ہیں وہ ابھی ایک سیلفی کھینچتی ہیں اتنی دیر میں ڈالر نیچے آجاتا ہے۔ یہی رفتار رہی تو لگتا ہے جب تک عمران خان حلف اٹھائیں گے اُس وقت تک ٹرمپ پاؤں میں آجائے گا اورکہے گا خدا کے لیے ڈالرکی عزت رکھ لو۔
شادی کے کھانے میں لوگ جتنی تیزی سے جھپٹتے ہیں اُس سے بھی جلدی اپوزیشن جماعتیں ایک ہوکر بیٹھ گئی ہیں۔ متحدہ والوں کی چال ڈھال یہ بتاتی ہے کہ انھیں اپنے بانی کے جانے کا اتنا دکھ نہیں ہوا جتنی خوشی انھیں 6 سیٹیں جیت کر ہوئی ہے۔ لگتا ہے کراچی میں پانی کی کمی ڈولفن برداشت نہیں کرسکی ہے اور مصطفیٰ کمال جیپ میں بیٹھ کر ڈولفن کی تلاش میں نکل چکے ہیں، مگر ان سب باتوں سے بڑھ کر سب لوگ مال ِغنیمت لوٹنے کے لیے تیار ہیں،کسی کوکرسی چاہیے توکسی کوکرسی والا۔
ہمارے ایک دوست کا نام مرزا حکیم ہے۔ جب اُن سے بات کی جائے تو فوراً اکبر بادشاہ کی برائی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے عمران خان کے نام پر مولانا فضل الرحمان کے ''سوڈے'' میں کوئی نمک ڈال دیتا ہے اور وہ جوش میں پیالے سے باہر آجاتے ہیں۔ مرزا حکیم کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کی رگوں میں مغل بادشاہوں کا خون ہے۔ ہم نے انھیں ہزار بار سمجھایا کہ مغل خون ہونے کی وجہ سے انھیں دلی کی سرکار نہیں مل سکتی۔ بلاول بھٹو لیاری میں پیدا ہوا۔ لیاری سے اُس کے نانا اور ابو دونوں جیتے لیکن جیسے مغل واپس نہیںآسکتا ویسے لیاری بھی واپس نہیں آسکتا، مگر مرزا صاحب ماننے کو تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن وہ اکبر سے بدلا ضرورلیں گے۔
ہم شہباز شریف کی پنجاب واپسی پر بات کررہے تھے۔ مرزا صاحب نے فورا کہا کہ عمران خان کو وہ غلطی نہیں کرنی چاہیے جو میں نے کی تھی۔ میں نے پھر اپنا سر پکڑ لیا،کیونکہ پھر اکبرکا قصہ شروع ہونے والا تھا۔ مرزا صاحب کو جہاں یہ غرور تھا کہ وہ مغل خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ وہی ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ اکبر بادشاہ نے اپنے بھائی مرزا حکیم کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا ۔مرزا صاحب آج بھی خود کو مرزا حکیم سمجھتے ہیں۔ آج کا مرزا نہیں جوکراچی میں کورنگی ایک نمبر پر رہتا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نام کے ساتھ ساتھ ان کے اندر روح بھی اُسی مرزا حکیم کی ہے جو اکبر بادشاہ کا بھائی تھا،اگر نام رکھنے سے قسمت بدل جاتی تو آج سندھ کے تمام بلاول پیٹ بھرکر روٹی کھا سکتے۔جالبَؔ یہ نہ کہتا پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے۔ پنجاب کے سارے شہباز ''بلٹ پروف '' میں گھومتے اور سارے عمران ''بنی گالہ'' میں بیٹھے ہوتے۔خیرایک دوست نے پوچھ لیا کہ مرزا صاحب آپ نے کون سی غلطی کی تھی؟
مرزا حکیم اپنے بھائی اکبرکے تخت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایک لشکر لے کر کابل سے نکلا۔ مرزا حکیم کے ساتھ پندرہ سو سپاہی تھے، کابل سے وہ سیدھا لاہور پہنچا۔ اُس وقت روہتاس کے قلعے پر گورنر مرزا یوسف خاں تھے۔ انھوں نے مرزا حکیم کو صاف اور سیدھا جواب دے دیا کہ یہ قلعہ مرزا حکیم کے بھائی (اکبر بادشاہ) نے اُسے دیا ہے اور وہ اسے اکبرکی مرضی کے بغیر کسی کے حوالے نہیں کریں گے۔ ویسے یہ بات تو شہباز شریف کو بھی کہنی چاہیے تھی کہ لاہورکا قلعہ مجھے نواز شریف نے دیا ہے، یہ میں کسی کو حوالے نہیں کرونگا، مگر یہ شہباز شریف ہے اور وہ مرزا حکیم تھا۔ مرزا حکیم نے سوچا کہ اس وقت لاہور میں لڑنا بیکار ہے وفاق میں جا کر اپنے بھائی اکبر بادشاہ سے قبضہ لیا جائے، لاہور تو خود ہی جھولی میں گر جائے گا، مگر عمران خان مرزا حکیم نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ وفاق تو میں نے لے ہی لیا ہے، مگر لاہورکا قلعہ بھی مجھے چاہیے۔کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ جب پیپلز پارٹی وفاق میں تھی اور پنجاب میں شہباز شریف تو پھرکیا کیا ہوا تھا۔ مینار پاکستان میں ''تمبو'' لگے تھے اور پنکھے مہنگے ہوگئے تھے۔ خیر مرزا حکیم نے لاہورکو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ جیسے عمران خان نے اعلان فرمایا کہ وہ کسی سے حساب برابر نہیں کریں گے ویسے ہی مرزا حکیم نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا ہوا تھا کہ وہ کسی کے کھیت کو تباہ نہ کرے۔ ہمارا مقصد صرف وفاق پر قبضہ ہے۔لاہورکے گورنر نے بھی سیدھی سیدھی کرا دی۔ مرزا تھوڑا بہت عقل مند تھا۔ کہنے لگا کہ لاہوریوں کوکوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا، پہلے میں وفاق سے حساب برابرکر آؤں پھر لاہورکو بھی دیکھ لونگا، جب ہر جگہ سے مرزا حکیم کو یہ معلوم ہو گیا کہ کوئی بھی اُسے قلعہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تو اُسے اندازہ ہو گیا کہ اُس کے بھائی سے وہ جیت نہیں سکتا ہے۔
بالکل اسی طرح جیسے مسلم لیگ کو یہ بات بتا دی گئی ہے کہ ہر جگہ سے اُس کی وکٹیں کمزور ہیں۔ مرزا حکیم بھاگ کر پھرکابل چلاگیا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ اکبر اُس کا کچھ بھی بگاڑ سکے گا، لیکن جیت کے باوجود اکبر نے سوچ لیا تھا کہ وہ کابل جاکر مرزا کو ضرور سبق سکھائے گا۔ ہمارے والے مرزا نے فورا یہاں لقمہ دیا اورکہا کہ جب لوگوں کو یہ پتہ ہوکہ وفاق میں حکومت کس کی ہے تو چھوٹے قلعے راستہ نہیں دیتے ہیں۔اب کیونکہ سب کو پتہ چل گیا ہے کہ وفاق میں عمران خان آرہے ہیں تو اب چھوٹے چھوٹے قلعے خود راستہ دے دیتے ہیں۔ بھائی ہو یا کوئی اور سگا رشتے دار۔ جب اقتدار پر حملہ کیا جاتا ہے تو بھائی کی دشمنی زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے۔ اکبر چاہتا تو بھاگتے ہوئے حکیم کے لیے کسی اورکو بھیج سکتا تھا مگر اُس نے کہا کہ وہ اپنے بھائی کو خود سبق سکھائے گا اور اُس نے کابل کے لیے اپنا لشکر تیارکیا۔کوئی لاکھ کہے لیکن ابھی لاہورکے بھائیوں میں اتنی دشمنی نہیں ہوئی ہے۔
لیکن یہ بات ہمارے مرزا حکیم کوکون سمجھائے کہ اب اکبرکا دور نہیں یہ دور عمرانی ہے۔ تبدیلی آنہیں رہی ہے تبدیلی آچکی ہے۔ وہ یہ ہی سمجھتا ہے کہ اکبرکو بھی سب سے زیادہ سازشیں اپنے دربارکے اندر سے ہی ملی۔ مرزا صاحب بتاتے ہیں کہ 8 فروری 1581ء کو اکبر نے اپنے بھائی کے خلاف پیش قدمی کی، لیکن بادشا ہ، بادشاہ ہوتا ہے۔اگلے دن بادشاہ جیت کے بعد شکارکھیلنے چلا گیا اور جیت کی خوشی میں پورا دن شکارکھیل کرگزارا۔ میں نے کوشش کی کہ مرزا صاحب کو موجود سیاست پر رکھا جائے اور پوچھا کہ آپ جہانگیر ترین کی ملاقاتوں کوکیسے دیکھ رہے ہیں۔
کبھی جہاز میں ملتان، توکبھی کراچی توکبھی بنی گالہ۔ حقہ تو اب مرزا کو ملتا نہیں ہے، سگریٹ کا لمباکش لیا اورکہنے لگے تمھیں معلوم ہے کہ جلال الدین اکبر بادشاہ اپنے شکاری چیتوں پر بہت پیسہ خرچ کرتا تھا۔ میں نے کہا نہیں مجھے نہیں معلوم۔ میرا یہ جواب سُن کر مجھے ایسے دیکھنے لگے جیسے میں بہت ہی جاہل آدمی ہوں۔ شکاری چیتوں پر ہمیشہ پیسہ خرچ کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہی توآپ کے شکارکو ڈھونڈھ کر لاتے ہیں اور جہانگر ترین کی آنکھیں دور سے شکار دیکھ لیتی ہے۔ بس بیچ میں شاہ محمود قریشی نہیں آنا چاہیے۔
میرا کہانی سُننے کا کوئی موڈ نہیں تھا لیکن مرزا کوکون چُپ کرا سکتا ہے۔ کہنے لگے ان شکاری چیتوں کو مخصوص گاڑی میں بیٹھا کر لایا جاتا تھا۔ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوتی تھی تاکہ وہ اوروں پر حملہ نہ کر بیٹھیں۔ شکاریوں پرآجکل پٹی باندھنے کی بجائے آگے اسٹیمپ پیپر رکھ دیا جاتا ہے، تاکہ آگے پیچھے نہ دیکھ سکیں۔ میں نے پوچھ لیا کہ میری اماں کہتی تھی کہ شکاری چیتوں کو بھوکا رکھا جاتا تھا۔انھوں نے پاؤں کے نیچے سگریٹ کو دبایا اور ایسے مسل دیا جیسے ''بلے'' کے نیچے کوئی جیپ یا ڈولفن رکھ دی ہو۔کہنے لگے کہ تم کون سی پرانی بات کرتے ہو،آج کل ایسے ہی چیتوں کو ڈھونڈھا جاتا ہے کہ جن کو بہت عرصے سے بھوکا رکھا گیا ہو اور بڑی مشکل سے سامنے شکار نظر آرہا ہو۔ میں نے پوچھا وہ کیسے۔ کہنے لگے کہ ٹی وی نہیں دیکھتے ہو۔
10 سال بعد متحدہ والوں کا اتنا حق تو بنتا ہے۔ جب میں اکبرکی بات کرنے لگا تو مرزا آج کی سیاست پر آجاتے تھے اور جب میں آج کا حال پوچھتا تھا تو مغل قصے شروع کردیتے ہیں۔ ویسے مرزا صاحب نے مجھے بتایا کہ مغل بادشاہ بازکے شکار کے شوقین نہیں تھے لیکن وہ اپنے ساتھ بازکو رکھنا اپنا وقار سمجھتے تھے۔ جب بادشاہ شکار پر جاتا تو بہت سارے لوگ اپنے ہاتھوں پر بازکو بٹھائے ساتھ چلتے رہتے۔ ہائے یہ بادشاہ، یہ شکاراور یہ بازکا وقار۔ مرزا نے جیب میں ہاتھ ڈال کر تیس روپے نکالے اورکہا ڈالر تو نیچے آگیا مگر دہی وہ ہی تیس روپے کا پاؤ ہے۔ یہ دودھ والا پتہ نہیں کب نیچے آئے گا۔
شادی کے کھانے میں لوگ جتنی تیزی سے جھپٹتے ہیں اُس سے بھی جلدی اپوزیشن جماعتیں ایک ہوکر بیٹھ گئی ہیں۔ متحدہ والوں کی چال ڈھال یہ بتاتی ہے کہ انھیں اپنے بانی کے جانے کا اتنا دکھ نہیں ہوا جتنی خوشی انھیں 6 سیٹیں جیت کر ہوئی ہے۔ لگتا ہے کراچی میں پانی کی کمی ڈولفن برداشت نہیں کرسکی ہے اور مصطفیٰ کمال جیپ میں بیٹھ کر ڈولفن کی تلاش میں نکل چکے ہیں، مگر ان سب باتوں سے بڑھ کر سب لوگ مال ِغنیمت لوٹنے کے لیے تیار ہیں،کسی کوکرسی چاہیے توکسی کوکرسی والا۔
ہمارے ایک دوست کا نام مرزا حکیم ہے۔ جب اُن سے بات کی جائے تو فوراً اکبر بادشاہ کی برائی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے عمران خان کے نام پر مولانا فضل الرحمان کے ''سوڈے'' میں کوئی نمک ڈال دیتا ہے اور وہ جوش میں پیالے سے باہر آجاتے ہیں۔ مرزا حکیم کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کی رگوں میں مغل بادشاہوں کا خون ہے۔ ہم نے انھیں ہزار بار سمجھایا کہ مغل خون ہونے کی وجہ سے انھیں دلی کی سرکار نہیں مل سکتی۔ بلاول بھٹو لیاری میں پیدا ہوا۔ لیاری سے اُس کے نانا اور ابو دونوں جیتے لیکن جیسے مغل واپس نہیںآسکتا ویسے لیاری بھی واپس نہیں آسکتا، مگر مرزا صاحب ماننے کو تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن وہ اکبر سے بدلا ضرورلیں گے۔
ہم شہباز شریف کی پنجاب واپسی پر بات کررہے تھے۔ مرزا صاحب نے فورا کہا کہ عمران خان کو وہ غلطی نہیں کرنی چاہیے جو میں نے کی تھی۔ میں نے پھر اپنا سر پکڑ لیا،کیونکہ پھر اکبرکا قصہ شروع ہونے والا تھا۔ مرزا صاحب کو جہاں یہ غرور تھا کہ وہ مغل خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ وہی ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ اکبر بادشاہ نے اپنے بھائی مرزا حکیم کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا ۔مرزا صاحب آج بھی خود کو مرزا حکیم سمجھتے ہیں۔ آج کا مرزا نہیں جوکراچی میں کورنگی ایک نمبر پر رہتا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نام کے ساتھ ساتھ ان کے اندر روح بھی اُسی مرزا حکیم کی ہے جو اکبر بادشاہ کا بھائی تھا،اگر نام رکھنے سے قسمت بدل جاتی تو آج سندھ کے تمام بلاول پیٹ بھرکر روٹی کھا سکتے۔جالبَؔ یہ نہ کہتا پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے۔ پنجاب کے سارے شہباز ''بلٹ پروف '' میں گھومتے اور سارے عمران ''بنی گالہ'' میں بیٹھے ہوتے۔خیرایک دوست نے پوچھ لیا کہ مرزا صاحب آپ نے کون سی غلطی کی تھی؟
مرزا حکیم اپنے بھائی اکبرکے تخت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایک لشکر لے کر کابل سے نکلا۔ مرزا حکیم کے ساتھ پندرہ سو سپاہی تھے، کابل سے وہ سیدھا لاہور پہنچا۔ اُس وقت روہتاس کے قلعے پر گورنر مرزا یوسف خاں تھے۔ انھوں نے مرزا حکیم کو صاف اور سیدھا جواب دے دیا کہ یہ قلعہ مرزا حکیم کے بھائی (اکبر بادشاہ) نے اُسے دیا ہے اور وہ اسے اکبرکی مرضی کے بغیر کسی کے حوالے نہیں کریں گے۔ ویسے یہ بات تو شہباز شریف کو بھی کہنی چاہیے تھی کہ لاہورکا قلعہ مجھے نواز شریف نے دیا ہے، یہ میں کسی کو حوالے نہیں کرونگا، مگر یہ شہباز شریف ہے اور وہ مرزا حکیم تھا۔ مرزا حکیم نے سوچا کہ اس وقت لاہور میں لڑنا بیکار ہے وفاق میں جا کر اپنے بھائی اکبر بادشاہ سے قبضہ لیا جائے، لاہور تو خود ہی جھولی میں گر جائے گا، مگر عمران خان مرزا حکیم نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ وفاق تو میں نے لے ہی لیا ہے، مگر لاہورکا قلعہ بھی مجھے چاہیے۔کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ جب پیپلز پارٹی وفاق میں تھی اور پنجاب میں شہباز شریف تو پھرکیا کیا ہوا تھا۔ مینار پاکستان میں ''تمبو'' لگے تھے اور پنکھے مہنگے ہوگئے تھے۔ خیر مرزا حکیم نے لاہورکو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ جیسے عمران خان نے اعلان فرمایا کہ وہ کسی سے حساب برابر نہیں کریں گے ویسے ہی مرزا حکیم نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا ہوا تھا کہ وہ کسی کے کھیت کو تباہ نہ کرے۔ ہمارا مقصد صرف وفاق پر قبضہ ہے۔لاہورکے گورنر نے بھی سیدھی سیدھی کرا دی۔ مرزا تھوڑا بہت عقل مند تھا۔ کہنے لگا کہ لاہوریوں کوکوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا، پہلے میں وفاق سے حساب برابرکر آؤں پھر لاہورکو بھی دیکھ لونگا، جب ہر جگہ سے مرزا حکیم کو یہ معلوم ہو گیا کہ کوئی بھی اُسے قلعہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تو اُسے اندازہ ہو گیا کہ اُس کے بھائی سے وہ جیت نہیں سکتا ہے۔
بالکل اسی طرح جیسے مسلم لیگ کو یہ بات بتا دی گئی ہے کہ ہر جگہ سے اُس کی وکٹیں کمزور ہیں۔ مرزا حکیم بھاگ کر پھرکابل چلاگیا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ اکبر اُس کا کچھ بھی بگاڑ سکے گا، لیکن جیت کے باوجود اکبر نے سوچ لیا تھا کہ وہ کابل جاکر مرزا کو ضرور سبق سکھائے گا۔ ہمارے والے مرزا نے فورا یہاں لقمہ دیا اورکہا کہ جب لوگوں کو یہ پتہ ہوکہ وفاق میں حکومت کس کی ہے تو چھوٹے قلعے راستہ نہیں دیتے ہیں۔اب کیونکہ سب کو پتہ چل گیا ہے کہ وفاق میں عمران خان آرہے ہیں تو اب چھوٹے چھوٹے قلعے خود راستہ دے دیتے ہیں۔ بھائی ہو یا کوئی اور سگا رشتے دار۔ جب اقتدار پر حملہ کیا جاتا ہے تو بھائی کی دشمنی زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے۔ اکبر چاہتا تو بھاگتے ہوئے حکیم کے لیے کسی اورکو بھیج سکتا تھا مگر اُس نے کہا کہ وہ اپنے بھائی کو خود سبق سکھائے گا اور اُس نے کابل کے لیے اپنا لشکر تیارکیا۔کوئی لاکھ کہے لیکن ابھی لاہورکے بھائیوں میں اتنی دشمنی نہیں ہوئی ہے۔
لیکن یہ بات ہمارے مرزا حکیم کوکون سمجھائے کہ اب اکبرکا دور نہیں یہ دور عمرانی ہے۔ تبدیلی آنہیں رہی ہے تبدیلی آچکی ہے۔ وہ یہ ہی سمجھتا ہے کہ اکبرکو بھی سب سے زیادہ سازشیں اپنے دربارکے اندر سے ہی ملی۔ مرزا صاحب بتاتے ہیں کہ 8 فروری 1581ء کو اکبر نے اپنے بھائی کے خلاف پیش قدمی کی، لیکن بادشا ہ، بادشاہ ہوتا ہے۔اگلے دن بادشاہ جیت کے بعد شکارکھیلنے چلا گیا اور جیت کی خوشی میں پورا دن شکارکھیل کرگزارا۔ میں نے کوشش کی کہ مرزا صاحب کو موجود سیاست پر رکھا جائے اور پوچھا کہ آپ جہانگیر ترین کی ملاقاتوں کوکیسے دیکھ رہے ہیں۔
کبھی جہاز میں ملتان، توکبھی کراچی توکبھی بنی گالہ۔ حقہ تو اب مرزا کو ملتا نہیں ہے، سگریٹ کا لمباکش لیا اورکہنے لگے تمھیں معلوم ہے کہ جلال الدین اکبر بادشاہ اپنے شکاری چیتوں پر بہت پیسہ خرچ کرتا تھا۔ میں نے کہا نہیں مجھے نہیں معلوم۔ میرا یہ جواب سُن کر مجھے ایسے دیکھنے لگے جیسے میں بہت ہی جاہل آدمی ہوں۔ شکاری چیتوں پر ہمیشہ پیسہ خرچ کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہی توآپ کے شکارکو ڈھونڈھ کر لاتے ہیں اور جہانگر ترین کی آنکھیں دور سے شکار دیکھ لیتی ہے۔ بس بیچ میں شاہ محمود قریشی نہیں آنا چاہیے۔
میرا کہانی سُننے کا کوئی موڈ نہیں تھا لیکن مرزا کوکون چُپ کرا سکتا ہے۔ کہنے لگے ان شکاری چیتوں کو مخصوص گاڑی میں بیٹھا کر لایا جاتا تھا۔ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوتی تھی تاکہ وہ اوروں پر حملہ نہ کر بیٹھیں۔ شکاریوں پرآجکل پٹی باندھنے کی بجائے آگے اسٹیمپ پیپر رکھ دیا جاتا ہے، تاکہ آگے پیچھے نہ دیکھ سکیں۔ میں نے پوچھ لیا کہ میری اماں کہتی تھی کہ شکاری چیتوں کو بھوکا رکھا جاتا تھا۔انھوں نے پاؤں کے نیچے سگریٹ کو دبایا اور ایسے مسل دیا جیسے ''بلے'' کے نیچے کوئی جیپ یا ڈولفن رکھ دی ہو۔کہنے لگے کہ تم کون سی پرانی بات کرتے ہو،آج کل ایسے ہی چیتوں کو ڈھونڈھا جاتا ہے کہ جن کو بہت عرصے سے بھوکا رکھا گیا ہو اور بڑی مشکل سے سامنے شکار نظر آرہا ہو۔ میں نے پوچھا وہ کیسے۔ کہنے لگے کہ ٹی وی نہیں دیکھتے ہو۔
10 سال بعد متحدہ والوں کا اتنا حق تو بنتا ہے۔ جب میں اکبرکی بات کرنے لگا تو مرزا آج کی سیاست پر آجاتے تھے اور جب میں آج کا حال پوچھتا تھا تو مغل قصے شروع کردیتے ہیں۔ ویسے مرزا صاحب نے مجھے بتایا کہ مغل بادشاہ بازکے شکار کے شوقین نہیں تھے لیکن وہ اپنے ساتھ بازکو رکھنا اپنا وقار سمجھتے تھے۔ جب بادشاہ شکار پر جاتا تو بہت سارے لوگ اپنے ہاتھوں پر بازکو بٹھائے ساتھ چلتے رہتے۔ ہائے یہ بادشاہ، یہ شکاراور یہ بازکا وقار۔ مرزا نے جیب میں ہاتھ ڈال کر تیس روپے نکالے اورکہا ڈالر تو نیچے آگیا مگر دہی وہ ہی تیس روپے کا پاؤ ہے۔ یہ دودھ والا پتہ نہیں کب نیچے آئے گا۔