انسانی حقوق کی بالادستی
تعصبانہ رویہ، انسانی حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
درختوں پرکوئل کوکنے لگی۔ باغوں میں موسم کے پھول مہکتے تھے۔ دریا کنارے کی شامیں حسین رنگ لیے ہوئے مگر میں نے دیکھا کسے اپنا ہوش نہیں تھا۔ پہلے قوم فیفا ورلڈ کپ میں مگن تھی، ہر جگہ فٹ بال کا تذکرہ تھا۔ اس کے بعد لوگ الیکشن کے موضوع میں الجھ گئے۔
کوئی زمانہ تھا کہ لوگ یا تو نو بجے والی خبریں، ٹیلی ویژن پر دیکھتے تھے۔ خبروں کے بعد حالات حاضرہ کا ایک ہی پروگرام ہوا کرتا تھا۔ مارشل لا کے دنوں میں جب اظہار پر پابندی ہوا کرتی تو بی بی سی کا پروگرام ''سیربین'' سنا کرتے۔ طالب علمی کے زمانے میں دیکھا کہ ٹیلی ویژن پر لوگ مذہبی لیکچر بڑی رغبت سے سنا کرتے۔ ڈاکٹر اسرار احمد سے لے کر اس ملک کے بڑے مذہبی خطیب بڑے اچھوتے موضوع پر با کمال گفتگو کیا کرتے۔
پھر دور بدلا اور ہرگھنٹے بعد خبریں نشر ہونے لگیں۔ یہ بات سمجھ میں نہ آسکی آخر لوگوں کو اتنا باخبرکرنے کی ضرورت کیوں درپیش آرہی ہے، اس کے بعد دھڑا دھڑ چینلز کھلنے لگے۔ خبروں کے بعد ٹاک شوز کا رجحان سامنے آیا جس کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی،کیونکہ بحث مباحثے اور مذاکرے اس وقت فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں جب کوئی حل مل رہا ہو۔ یہاں تو بحث برائے بحث کی عجیب صورتحال نظر آتی ہے۔ اس کے بعد ٹاک شوز میں اعلیٰ پائے کی لڑائیاں نظر آنے لگیں۔
یہ بھی خطرناک صورتحال تھی۔ میزبانوں کے لہجے جارحانہ کرنے والے تھے۔اس کے بعد سماجی زندگی کے طور طریقے بدلتے ہوئے محسوس ہوئے، لوگ تیز اور طنزیہ آوازوں میں ہم کلام ہونے لگے۔ خاص طور پر بچے اور نوجوانوں میں یہ رجحان زیادہ دکھائی دیا۔ حالانکہ لفظ اینکر (Anchor) کا مطلب ہے کہ ایک ایسا شخص جو کسی بھی غیر یقینی صورتحال میں اعتماد اور استحکام کی صورتحال کو بحال کردے۔
بجائے کہ مہمانوں کو لڑوادے یا غلط فہمیوں کو مزید ہوا دے بالکل اسی طرح (Moderator) کا کام ہے جس کی ذمے داری ہے کہ بحث مباحثے یا اختلاف کو ضابطے کے تحت لانا۔ موڈریٹر کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنی جانبدار رائے کو مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ جہاں تک معاملات غیر جانبداری کا ہے تو ایک ایسا ملک جس میں مختلف قومیتیں آباد ہوں، جس کی رنگا رنگ تہذیب ہو لوگ مختلف زبانیں بولتے ہوں ان کے مذہبی عقائد الگ ہوں، رہن سہن و ثقافت جدا ہو، لہٰذا ایسے ملک میں غیر جانبداری کا تصور محال دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ غیر جانبداری اور وسعت النظری، کثیر ثقافتی ملک کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہر زبان اہم ہے، ہر خطہ اور اس کی ثقافت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، مگر نفرت اور تعصب کو ہوا دینا، انسانیت دشمن عناصر کے لیے انتہائی اہم ہتھیار ثابت ہوتا ہے۔ حالانکہ امریکا نے خانہ جنگی کے بعد جس طرح ایک منتشر طاقت کو مجتمع کیا وہ امر قابل تقلید ہے۔ 1865ء۔1877ء کے دور کو Reconstruction Period کہا گیا۔ ابراہام لنکن نے تیرہ سال پر مشتمل خانہ جنگی کو جس طرح انسانی قدروں سے سنوارنے کا حل پیش کیا کیونکہ یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ 1865ء میں یونین کی جیت نے چار ملین غلاموں کو آزادی کا حق فراہم کیا۔ اب ایک اورکٹھن مرحلہ تھا کہ کس طرح ان ذہنی طور پر منتشر غلاموں کو اس خود رحمی کے احساس سے باہر نکالا جائے۔
ابراہام لنکن کے قتل کے بعد صدر اینڈریو جانسن نے 1865-66ء میں نئی جنوبی ریاست کے لیے نئے قانون کا اجرا کیا۔ ان قوانین نے لوگوں کو مذہبی اور اخلاقی تفریق کے بھنور سے بچایا۔ غلاموں کو جینے کا حق دیا گیا اور ایک ایسا نظام تشکیل دیا گیا جس میں ہر مذہب اور قومیت کے لوگوں کو برابری کے بنیاد پر حقوق دیے گئے اور انسانی حقوق کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا اور آج امریکا، پوری دنیا کے لیے ایک وطن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ یہ ایک روشن مثال ہے، جس سے ہمارے ملک نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ یہاں مختلف قومیتیں خود کو غیر یقینی صورتحال میں گھرا ہوا پاتی ہیں اور پورا ملک تفریق کے خانے میں بٹا ہوا ہے۔اس دور کو بھی تعمیر نو کا دور (Reconstruction Period) قرار دیتے ہوئے مربوط قانون سازی کی جانی چاہیے جس کے تحت اس ملک کا ہر شہری خواہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، خود کو محفوظ محسوس کرسکے۔
پہلی ترجیح انسانی حقوق کی بالادستی کو ملنی چاہیے جس میں ہر شہری اتنا ہی اہم ہو جتنا حکومت کا کوئی نمایندہ! اس کی جان اتنی اہم ہو جتنی اس ملک کے وزیراعظم کی، تفریق کے خانے میں بٹی ہوئی قوم کو انسانی حقوق کی از سر نو تعمیر چاہیے۔
یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ہمارے ملک کے حکمران خود اپنی سوچ کو تفریق کے خانوں سے نکال باہر نہیں کرینگے۔ اس ملک کی ترقی ناگزیر ہے کیونکہ سماجی زندگی ہو یا معاشی معاملات، سب سے زیادہ نقصان اس ملک کو جانبدار سوچ نے پہنچایا ہے۔تعصبانہ رویہ، انسانی حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تعصب کا مطلب ہے کسی سے یا شخص کے بارے میں ایسی رائے جو ذاتی تجربے یا تجزیے کے بغیر ہی پہلے قائم کرلی جائے۔ یہ رائے منفی و مثبت ہوسکتی ہے۔ بغیر کسی تصدیق کے منفی فیصلہ یا رویہ، اخلاقی تباہی کا مظہر بن جاتا ہے۔ جیمز ڈیز کا خیال ہے کہ مخالفانہ اور پریشان کن احساسات کسی مخصوص گروہ، افراد یا سماجی اداروں سے وابستہ کیے جائیں تو تعصب کہلاتے ہیں۔ نسلی تعصب ہر ملک میں پایا جاتا ہے مگر اس کی شدت ہر جگہ مختلف ہوتی ہے۔ گروہی تعصبات اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف اکثریتی ووٹ لے کر کامیاب ہوئی ہے۔ حکومت سازی کا مرحلہ ابھی طے ہونا باقی ہے۔ ایسی مربوط حکومت سازی کی توقع عوام کر رہے ہیں، جس میں انسانی حقوق کی بالادستی بحال ہوسکے۔
کوئی زمانہ تھا کہ لوگ یا تو نو بجے والی خبریں، ٹیلی ویژن پر دیکھتے تھے۔ خبروں کے بعد حالات حاضرہ کا ایک ہی پروگرام ہوا کرتا تھا۔ مارشل لا کے دنوں میں جب اظہار پر پابندی ہوا کرتی تو بی بی سی کا پروگرام ''سیربین'' سنا کرتے۔ طالب علمی کے زمانے میں دیکھا کہ ٹیلی ویژن پر لوگ مذہبی لیکچر بڑی رغبت سے سنا کرتے۔ ڈاکٹر اسرار احمد سے لے کر اس ملک کے بڑے مذہبی خطیب بڑے اچھوتے موضوع پر با کمال گفتگو کیا کرتے۔
پھر دور بدلا اور ہرگھنٹے بعد خبریں نشر ہونے لگیں۔ یہ بات سمجھ میں نہ آسکی آخر لوگوں کو اتنا باخبرکرنے کی ضرورت کیوں درپیش آرہی ہے، اس کے بعد دھڑا دھڑ چینلز کھلنے لگے۔ خبروں کے بعد ٹاک شوز کا رجحان سامنے آیا جس کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی،کیونکہ بحث مباحثے اور مذاکرے اس وقت فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں جب کوئی حل مل رہا ہو۔ یہاں تو بحث برائے بحث کی عجیب صورتحال نظر آتی ہے۔ اس کے بعد ٹاک شوز میں اعلیٰ پائے کی لڑائیاں نظر آنے لگیں۔
یہ بھی خطرناک صورتحال تھی۔ میزبانوں کے لہجے جارحانہ کرنے والے تھے۔اس کے بعد سماجی زندگی کے طور طریقے بدلتے ہوئے محسوس ہوئے، لوگ تیز اور طنزیہ آوازوں میں ہم کلام ہونے لگے۔ خاص طور پر بچے اور نوجوانوں میں یہ رجحان زیادہ دکھائی دیا۔ حالانکہ لفظ اینکر (Anchor) کا مطلب ہے کہ ایک ایسا شخص جو کسی بھی غیر یقینی صورتحال میں اعتماد اور استحکام کی صورتحال کو بحال کردے۔
بجائے کہ مہمانوں کو لڑوادے یا غلط فہمیوں کو مزید ہوا دے بالکل اسی طرح (Moderator) کا کام ہے جس کی ذمے داری ہے کہ بحث مباحثے یا اختلاف کو ضابطے کے تحت لانا۔ موڈریٹر کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنی جانبدار رائے کو مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ جہاں تک معاملات غیر جانبداری کا ہے تو ایک ایسا ملک جس میں مختلف قومیتیں آباد ہوں، جس کی رنگا رنگ تہذیب ہو لوگ مختلف زبانیں بولتے ہوں ان کے مذہبی عقائد الگ ہوں، رہن سہن و ثقافت جدا ہو، لہٰذا ایسے ملک میں غیر جانبداری کا تصور محال دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ غیر جانبداری اور وسعت النظری، کثیر ثقافتی ملک کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہر زبان اہم ہے، ہر خطہ اور اس کی ثقافت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، مگر نفرت اور تعصب کو ہوا دینا، انسانیت دشمن عناصر کے لیے انتہائی اہم ہتھیار ثابت ہوتا ہے۔ حالانکہ امریکا نے خانہ جنگی کے بعد جس طرح ایک منتشر طاقت کو مجتمع کیا وہ امر قابل تقلید ہے۔ 1865ء۔1877ء کے دور کو Reconstruction Period کہا گیا۔ ابراہام لنکن نے تیرہ سال پر مشتمل خانہ جنگی کو جس طرح انسانی قدروں سے سنوارنے کا حل پیش کیا کیونکہ یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ 1865ء میں یونین کی جیت نے چار ملین غلاموں کو آزادی کا حق فراہم کیا۔ اب ایک اورکٹھن مرحلہ تھا کہ کس طرح ان ذہنی طور پر منتشر غلاموں کو اس خود رحمی کے احساس سے باہر نکالا جائے۔
ابراہام لنکن کے قتل کے بعد صدر اینڈریو جانسن نے 1865-66ء میں نئی جنوبی ریاست کے لیے نئے قانون کا اجرا کیا۔ ان قوانین نے لوگوں کو مذہبی اور اخلاقی تفریق کے بھنور سے بچایا۔ غلاموں کو جینے کا حق دیا گیا اور ایک ایسا نظام تشکیل دیا گیا جس میں ہر مذہب اور قومیت کے لوگوں کو برابری کے بنیاد پر حقوق دیے گئے اور انسانی حقوق کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا اور آج امریکا، پوری دنیا کے لیے ایک وطن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ یہ ایک روشن مثال ہے، جس سے ہمارے ملک نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ یہاں مختلف قومیتیں خود کو غیر یقینی صورتحال میں گھرا ہوا پاتی ہیں اور پورا ملک تفریق کے خانے میں بٹا ہوا ہے۔اس دور کو بھی تعمیر نو کا دور (Reconstruction Period) قرار دیتے ہوئے مربوط قانون سازی کی جانی چاہیے جس کے تحت اس ملک کا ہر شہری خواہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، خود کو محفوظ محسوس کرسکے۔
پہلی ترجیح انسانی حقوق کی بالادستی کو ملنی چاہیے جس میں ہر شہری اتنا ہی اہم ہو جتنا حکومت کا کوئی نمایندہ! اس کی جان اتنی اہم ہو جتنی اس ملک کے وزیراعظم کی، تفریق کے خانے میں بٹی ہوئی قوم کو انسانی حقوق کی از سر نو تعمیر چاہیے۔
یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ہمارے ملک کے حکمران خود اپنی سوچ کو تفریق کے خانوں سے نکال باہر نہیں کرینگے۔ اس ملک کی ترقی ناگزیر ہے کیونکہ سماجی زندگی ہو یا معاشی معاملات، سب سے زیادہ نقصان اس ملک کو جانبدار سوچ نے پہنچایا ہے۔تعصبانہ رویہ، انسانی حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تعصب کا مطلب ہے کسی سے یا شخص کے بارے میں ایسی رائے جو ذاتی تجربے یا تجزیے کے بغیر ہی پہلے قائم کرلی جائے۔ یہ رائے منفی و مثبت ہوسکتی ہے۔ بغیر کسی تصدیق کے منفی فیصلہ یا رویہ، اخلاقی تباہی کا مظہر بن جاتا ہے۔ جیمز ڈیز کا خیال ہے کہ مخالفانہ اور پریشان کن احساسات کسی مخصوص گروہ، افراد یا سماجی اداروں سے وابستہ کیے جائیں تو تعصب کہلاتے ہیں۔ نسلی تعصب ہر ملک میں پایا جاتا ہے مگر اس کی شدت ہر جگہ مختلف ہوتی ہے۔ گروہی تعصبات اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف اکثریتی ووٹ لے کر کامیاب ہوئی ہے۔ حکومت سازی کا مرحلہ ابھی طے ہونا باقی ہے۔ ایسی مربوط حکومت سازی کی توقع عوام کر رہے ہیں، جس میں انسانی حقوق کی بالادستی بحال ہوسکے۔