سندھ میں بھی سرکاری خزانے سے کمپنی بنا کر کرپشن کا انکشاف تحقیقات کا امکان
محکمہ صحت نے1138صحت مراکز اور170ایمبولینس سروسز کو منظورنظر نجی کمپنی پی پی ایچ آئی کوٹھیکے پردے رکھاہے
پنجاب کے بعد سندھ میں بھی سرکاری خزانے سے نجی کمپنی بناکر بڑے پیمانے پرکرپشن کے معاملات کی تحقیقات کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
پنجاب کی طرز پر سندھ میں بھی سابقہ حکومت میں اربوں روپے مالیت سے ایک کمپنی قائم کی گئی جسے پہلے این جی اوکے طور پر متعارف کرایا گیا اور بعدازاں پرائیویٹ لمیٹڈکمپنی کے طور پر رجسٹر کرایا گیا۔
کمپنی کو براہ راست محکمہ خزانہ سے اربوں روپے جاری ہوتے ہیں جس کاآڈٹ بھی نجی فرم سے ہی کرایا جاتا ہے۔ پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر انیشیٹو(پی پی ایچ آئی) نامی کمپنی میں سابق چیف سیکریٹری سندھ اور نگراں وزیراعلیٰ فضل الرحمن کو چیئرمین جبکہ سابق آئی جی سندھ پولیس اور موجودہ نگراں وزیر سید مشتاق شاہ کو بھی گورننگ باڈی میں شامل کیا گیا۔
ڈاکٹر ریاض میمن سیکریٹری پبلک ہیلتھ انجینئرنگ تعیناتی سے قبل مذکورہ نجی کمپنی میں 7 سال تک سی ای اوکی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے اس طرح سرکاری خزانے سے7 سال کے دوران کروڑوں روپے نہ صرف ڈاکٹر ریاض میمن نے حاصل کیے بلکہ دیگر عملہ بھی لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ اور دیگر مراعات حاصل کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ نے پنجاب میں کمپنینز میں کام کرنے والے افسران سے لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات کی واپسی کے احکام جاری کردیے ہیں جس کے بعد توقع ہے کہ سندھ کی مذکورہ کمپنی میں تعینات افسران و دیگر عملے سے کروڑوں روپے واپس لیے جاسکتے ہیں۔ محکمہ صحت نے اندرون سندھ 1700 صحت مراکز میں 21 اضلاع کے 1138صحت مراکز، ڈسپسنسریوں، میٹرنٹی ہومزکو پی پی ایچ آئی کے حوالے کر رکھا ہے۔ منظور نظرکمپنی پی پی ایچ آئی کو صحت کے مراکزکے ساتھ 170ایمبولینس سروسز بھی دے دی گئی جس کے باوجود بھی دیہی علاقوں کی بڑی اکثریت علاج معالجے کی سہولت سے محروم ہے۔
ذرائع کے مطابق صوبائی محکمہ صحت نے حکومت سندھ کی ہدایت پر فروری2007 میں پی پی ایچ آئی کے ساتھ معاہدہ کیا اور حکومت سندھ کی جانب سے پی پی ایچ آئی کو براہ راست بجٹ فراہم کیے جانے کی منظوری بھی دے دی گئی۔
بعدازاں 2014 میں این جی او سے باقاعدہ کمپنی میں تبدیل کردیا گیا۔ حیرت انگیز بات ہے کہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں ایک سرکاری افسر ڈیپوٹیشن پر کس طرح تعینات کیا جاسکتا ہے؟ معلوم ہواہے کہ ڈاکٹر ریاض میمن8 لاکھ روپے ماہانہ پی پی ایچ آئی سے تنخواہ وصول کرتے تھے۔ پی پی ایچ آئی کمپنی میں سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی صاحبزادی ڈاکٹر نگہت شاہ کو بھی بورڈ ممبرکے طور پر بھی شامل رکھا گیا۔
پی پی ایچ آئی کے سابق سی ای اوڈاکٹر ریاض میمن نے ایکسپریس کے استفسار پربتایاکہ میں پی پی ایچ آئی میں مختلف ادوار میں تعینات رہا ہوں اور جنوری2018 کو پی پی ایچ آئی سے علیحدگی اختیار کرلی۔ پی پی ایچ آئی میں ڈیپوٹیشن کی وجہ سے میرا گریڈ20 سے21 گریڈ میں پروموشن بھی نہیں ہوسکا تھا ۔
انھوں نے کہاکہ پی پی ایچ آئی سے پہلے اندرون سندھ کے صحت کے مراکز سندھ رول سپورٹ پروگرام کے ماتحت تھے، بعدازاں پی پی ایچ آئی کو باقاعدہ پرائیویٹ کمپنی بنا دیا گیا جس میں پیپلزپارٹی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ پی پی ایچ آئی کو پہلے سال 40 ملین پھر50 ملین بجٹ فراہم کیا جاتا تھا تاہم بجٹ میں اضافے کے بعد1.2ارب روپے پھر 2 ارب اور اب ساڑھے 4 ارب روپے بجٹ کردیا گیاہے۔
پنجاب کی طرز پر سندھ میں بھی سابقہ حکومت میں اربوں روپے مالیت سے ایک کمپنی قائم کی گئی جسے پہلے این جی اوکے طور پر متعارف کرایا گیا اور بعدازاں پرائیویٹ لمیٹڈکمپنی کے طور پر رجسٹر کرایا گیا۔
کمپنی کو براہ راست محکمہ خزانہ سے اربوں روپے جاری ہوتے ہیں جس کاآڈٹ بھی نجی فرم سے ہی کرایا جاتا ہے۔ پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر انیشیٹو(پی پی ایچ آئی) نامی کمپنی میں سابق چیف سیکریٹری سندھ اور نگراں وزیراعلیٰ فضل الرحمن کو چیئرمین جبکہ سابق آئی جی سندھ پولیس اور موجودہ نگراں وزیر سید مشتاق شاہ کو بھی گورننگ باڈی میں شامل کیا گیا۔
ڈاکٹر ریاض میمن سیکریٹری پبلک ہیلتھ انجینئرنگ تعیناتی سے قبل مذکورہ نجی کمپنی میں 7 سال تک سی ای اوکی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے اس طرح سرکاری خزانے سے7 سال کے دوران کروڑوں روپے نہ صرف ڈاکٹر ریاض میمن نے حاصل کیے بلکہ دیگر عملہ بھی لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ اور دیگر مراعات حاصل کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ نے پنجاب میں کمپنینز میں کام کرنے والے افسران سے لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات کی واپسی کے احکام جاری کردیے ہیں جس کے بعد توقع ہے کہ سندھ کی مذکورہ کمپنی میں تعینات افسران و دیگر عملے سے کروڑوں روپے واپس لیے جاسکتے ہیں۔ محکمہ صحت نے اندرون سندھ 1700 صحت مراکز میں 21 اضلاع کے 1138صحت مراکز، ڈسپسنسریوں، میٹرنٹی ہومزکو پی پی ایچ آئی کے حوالے کر رکھا ہے۔ منظور نظرکمپنی پی پی ایچ آئی کو صحت کے مراکزکے ساتھ 170ایمبولینس سروسز بھی دے دی گئی جس کے باوجود بھی دیہی علاقوں کی بڑی اکثریت علاج معالجے کی سہولت سے محروم ہے۔
ذرائع کے مطابق صوبائی محکمہ صحت نے حکومت سندھ کی ہدایت پر فروری2007 میں پی پی ایچ آئی کے ساتھ معاہدہ کیا اور حکومت سندھ کی جانب سے پی پی ایچ آئی کو براہ راست بجٹ فراہم کیے جانے کی منظوری بھی دے دی گئی۔
بعدازاں 2014 میں این جی او سے باقاعدہ کمپنی میں تبدیل کردیا گیا۔ حیرت انگیز بات ہے کہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں ایک سرکاری افسر ڈیپوٹیشن پر کس طرح تعینات کیا جاسکتا ہے؟ معلوم ہواہے کہ ڈاکٹر ریاض میمن8 لاکھ روپے ماہانہ پی پی ایچ آئی سے تنخواہ وصول کرتے تھے۔ پی پی ایچ آئی کمپنی میں سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی صاحبزادی ڈاکٹر نگہت شاہ کو بھی بورڈ ممبرکے طور پر بھی شامل رکھا گیا۔
پی پی ایچ آئی کے سابق سی ای اوڈاکٹر ریاض میمن نے ایکسپریس کے استفسار پربتایاکہ میں پی پی ایچ آئی میں مختلف ادوار میں تعینات رہا ہوں اور جنوری2018 کو پی پی ایچ آئی سے علیحدگی اختیار کرلی۔ پی پی ایچ آئی میں ڈیپوٹیشن کی وجہ سے میرا گریڈ20 سے21 گریڈ میں پروموشن بھی نہیں ہوسکا تھا ۔
انھوں نے کہاکہ پی پی ایچ آئی سے پہلے اندرون سندھ کے صحت کے مراکز سندھ رول سپورٹ پروگرام کے ماتحت تھے، بعدازاں پی پی ایچ آئی کو باقاعدہ پرائیویٹ کمپنی بنا دیا گیا جس میں پیپلزپارٹی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ پی پی ایچ آئی کو پہلے سال 40 ملین پھر50 ملین بجٹ فراہم کیا جاتا تھا تاہم بجٹ میں اضافے کے بعد1.2ارب روپے پھر 2 ارب اور اب ساڑھے 4 ارب روپے بجٹ کردیا گیاہے۔