احد تمیمی فلسطینی نسل نو میں جدوجہد کا جدید عنوان
احد تمیمی کی والدہ اور والد کو غاصب صہیونی ریاست اسرائیل پہلے بھی قید و بند کی سزائیں دے چکی ہے
احد تمیمی کا نام گزشتہ کئی ماہ سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر گردش کرتا رہا۔ آخریہ احد تمیمی کون تھی؟ احد تمیمی کا تعلق مقبوضہ فلسطین سے ہے کہ جہاں اس نے آنکھیں کھولیں تو ہر طرف اس کو صہیونی درندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک ایسی سرزمین کہ جہاں روزانہ کی بنیاد پر انسانی حقوق کو بدترین پامالیوں سے روند ڈالا جاتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین ایک ایسی سرزمین ہے کہ جہاں پر بچوں کو بھی جیل خانوں میں قید کیا جاتا ہے اور کئی کئی ماہ تک ان بچوں کو ان کے گھر والوں سے ملاقات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ احد تمیمی ایک ایسے معاشرے میں جنم لے کر آئی کہ جہاں فلسطین کے مظلوم عوام کے گھروں کو بڑے بڑے بلڈوزروں سے کسی بھی وقت مسمار کردیا جاتا ہے، حتیٰ ایسے واقعات بھی ریکارڈ پر ہیں کہ رات کو جب فلسطینی گھروں میں نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں تو ان کے گھروں کو صہیونی درندوں کے بلڈوزر مسمار کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ ان واقعات میں متعدد معصوم بچے اور معذور بزرگوں کی موت ملبے تلے دب کر واقع ہوتی ہے۔
احد تمیمی ایک سولہ سال کی فلسطینی نوجوان لڑکی ہے جس نے سرزمین فلسطین پر اپنی پیدائش سے لے کر اپنی زندگی کے سولہ سال تک غاصب صہیونیوں کی جانب سے روا رکھے گئے بدترین مظالم اور وحشت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور محسوس کیا ہے۔ احد تمیمی فلسطین کے باقی ان تمام بچوں جیسی نہیں رہی۔ اس نے بچپن سے ہی مزاحمت کا راستہ اپنایا اور یہ راستہ اسے وراثت میں اس کے والدین کی جانب سے ملا۔ آج بھی اگر انٹرنیٹ کی دنیا پر احد تمیمی کی والد ہ ناریمان تمیمی اور والد باسم تمیمی کا نام لکھ کر سرچ کیا جائے تو ایسے درجنوں واقعات سامنے آئیں گے کہ جن میں اس خاندان کی جانب سے نہ صرف صہیونیوں کے مقابلے میں اپنے گھر کا دفاع کیا گیا ہے بلکہ علاقے میں بسنے والے دیگر فلسطینیوں کو بھی حوصلہ دینے اور غاصب صہیونی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے میں اسی خاندان اور بالخصوص عہد تمیمی کی والدہ اور والد کا بڑا کردار رہا ہے۔
واضح رہے کہ احد تمیمی کی والدہ اور والد کو غاصب صہیونی ریاست اسرائیل پہلے بھی قید و بند کی سزائیں دے چکی ہے۔
گزشتہ دنوں 29 جولائی بروز اتوار کو احد تمیمی اور اس کی والدہ ناریمان تمیمی کو اسرائیلی جیل سے آٹھ ماہ بعد رہا کیا گیا ہے۔ احد تمیمی کا جرم کیا تھا؟ احد تمیمی نے بہادری اور شجاعت کی ایک ایسی مثال قائم کی تھی کہ جسے رہتی دنیا تک ہمیشہ تاریخ فلسطین اور آزادی فلسطین کی جدوجہد میں سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ احد تمیمی نے فلسطینی عوام کے ساتھ جبر و ستم کے ساتھ پیش آنے والے ایک غاصب صہیونی فوجی کے منہ پر تھپڑ رسید کیا تھا۔ اس جرم میں اسے گرفتار کیا گیا اور پھر مختلف اوقات میں سنگین سزائیں اور نفسیاتی تشدد کیا جاتا رہا۔ تاہم 29 جولائی 2018 کو غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی قید سے وہ اپنی والدہ کے ہمراہ آزادی پا کر ایک مرتبہ پھر فلسطینی عوام سمیت دنیا بھر کے حریت پسندوں اور متوالوں کےلیے رول ماڈل بن گئی ہے۔
ایک سولہ سالہ فلسطینی نوجوان بہادر لڑکی کا غاصب صہیونی فوجی کو تھپڑ رسید کرنا یقیناً ایک قابل جرأت اور شجاعت مندانہ عمل ہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ فلسطین کی نئی نسل بھی پرانی نسلوں کی طرح جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کو ترجیح دے رہی ہے اور یہ نسل نو کسی بھی طرح سے غاصب اسرائیل یا اس کے مددگار امریکا و مغربی ممالک کی طرف سے کی جانے والی صہیونیوں کی مسلح مدد سے مرعوب نہیں بلکہ یہ نسل اپنے حقوق کے دفاع کی خاطر نہتے ہی برسرپیکار رہنے کو عزت و شرف کا راستہ سمجھ کر فلسطین و القدس کے دفاع کےلیے سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے۔
احد تمیمی اور ان جیسی سیکڑوں فلسطینی نوجوان بچیاں اور بچے گزشتہ کئی ہفتوں سے غزہ اور مغربی کنارے کے ناجائز قائم کردہ بارڈر پر حق واپسی مارچ کا حصہ ہیں اور اس پاداش میں صہیونی غاصب افواج کی جانب سے مسلسل فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ بھی جاری ہے جو تاحال اس نسل نو کا حوصلہ پست کرنے میں بری طرح سے ناکام ہے، بلکہ فلسطین کی نسل نو کے حوصلہ مزید بلند سے بلند تر ہورہے ہیں اور وہ مزاحمت کاری کے عمل کو ہی اپنی بقاء اور فلسطین کی آزادی کا راستہ قرار دے رہے ہیں۔ یہی کچھ دراصل فلسطین کی اس بہادر بیٹی احد تمیمی نے بھی انجام دیا۔
فلسطین کی نئی نسل میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے مظالم اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے خلاف جنم لینے والا جذبہ حریت اور مزاحمت دراصل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسرائیل مسلسل زوال کی طرف ہے۔ جہاں ایک طرف صہیونی جعلی ریاست اسرائیل اپنے دفاع کی خاطر اب مختلف دیواریں بنا کر سہارا لے رہی ہے وہاں غزہ اور مغربی کنارے کے راستے کو جدا کر کے ناجائز سرحد کی تعمیر کے ذریعہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل نے اپنے لیے شکست کا ایک اور باب کھول لیا ہے اور خود کو مزید محدود کر لیا ہے۔ یہی اسرائیل 1948 سے پہلے اور بعد میں عظیم تر اسرائیل (گریٹر اسرائیل) کی بات کرتا تھا لیکن آج احد تمیمی جیسی بہادر نوجوان نسل کے سامنے تسلیم خم ہورہا ہے اور خود کو محدود سے محدود کرنے میں مصروف ہے۔
یہ غاصب صہیونی ملک اسرائیل کہ جو چھ مسلمان ممالک کے ساتھ ہونے والی جنگ میں چند گھنٹوں میں نتائج حاصل کرلیتا تھا اور فتح یاب رہتا تھا، آج ایک سولہ سالہ نوجوان لڑکی کے ہاتھوں اس غاصب ریاست کے درندہ صفت فوجی تھپڑ کھا رہے ہیں اور اس پر شکست تو یہ ہے کہ آٹھ ماہ قید رکھنے کے بعد بالآخر فتح کس کی ہوئی ہے؟ اسرائیل پھر بھی شکست سے دوچار ہو اہے، جعلی ریاست اسرائیل کو بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑے اور فلسطینی نوجوانوں کی جدوجہد رنگ لائی ہے اور احد تمیمی کو اس کی والدہ کے ہمراہ آزاد کرنا پڑا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف امریکا اور دنیا کی بڑی مغربی طاقتیں غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ امداد کے نام پر دے کر اسے مزید طاقتور دیکھنا چاہتی ہیں جبکہ دوسری طرف اب اس جعلی ریاست اسرائیل کی حالت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ایک سولہ سال کی نوجوان لڑکی اسرائیلی غاصب فوجیوں سے نہتے ہی نبرد آزما ہے اور اپنے آہنی ہاتھوں کے تھپڑ ان صہیونی درندوں کو رسید کررہی ہے۔ یقیناً اسرائیل تاریخ میں اس سے زیادہ زوال کا شکار نہیں ہوا تھا کہ ایک پوری نسل جو فلسطین میں مقبوضہ حالات میں جنم لے کر نوجوانی کی منزل گزار رہی ہے آج غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کےلیے درد سر بن چکی ہے اور اسرائیل کو کسی بھی محاذ پر چین و سکون میسر نہیں آرہا۔ عرب دنیا اور خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں کی رائے میں بھی فلسطین کی اس بہادر اور شجاع نوجوان لڑکی احد تمیمی کی رہائی فلسطینی مزاحمت کے حامیوں اور فلسطین کی نئی نسل کی ناقابل تسخیر کامیابی ہے جس پر اسرائیل کے حصے میں فقط ذلت و رسوائی کے سوا کچھ اور نہیں رہا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی احد تمیمی کی رہائی پر پوری پاکستانی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور فلسطین کاز کےلیے سرگرم عمل تنظیم فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے احد تمیمی کی صہیونی قید سے رہائی کو فلسطینی عوام کی عظیم کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے فلسطین کے عوام کو مبارکباد پیش کی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
احد تمیمی ایک سولہ سال کی فلسطینی نوجوان لڑکی ہے جس نے سرزمین فلسطین پر اپنی پیدائش سے لے کر اپنی زندگی کے سولہ سال تک غاصب صہیونیوں کی جانب سے روا رکھے گئے بدترین مظالم اور وحشت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور محسوس کیا ہے۔ احد تمیمی فلسطین کے باقی ان تمام بچوں جیسی نہیں رہی۔ اس نے بچپن سے ہی مزاحمت کا راستہ اپنایا اور یہ راستہ اسے وراثت میں اس کے والدین کی جانب سے ملا۔ آج بھی اگر انٹرنیٹ کی دنیا پر احد تمیمی کی والد ہ ناریمان تمیمی اور والد باسم تمیمی کا نام لکھ کر سرچ کیا جائے تو ایسے درجنوں واقعات سامنے آئیں گے کہ جن میں اس خاندان کی جانب سے نہ صرف صہیونیوں کے مقابلے میں اپنے گھر کا دفاع کیا گیا ہے بلکہ علاقے میں بسنے والے دیگر فلسطینیوں کو بھی حوصلہ دینے اور غاصب صہیونی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے میں اسی خاندان اور بالخصوص عہد تمیمی کی والدہ اور والد کا بڑا کردار رہا ہے۔
واضح رہے کہ احد تمیمی کی والدہ اور والد کو غاصب صہیونی ریاست اسرائیل پہلے بھی قید و بند کی سزائیں دے چکی ہے۔
گزشتہ دنوں 29 جولائی بروز اتوار کو احد تمیمی اور اس کی والدہ ناریمان تمیمی کو اسرائیلی جیل سے آٹھ ماہ بعد رہا کیا گیا ہے۔ احد تمیمی کا جرم کیا تھا؟ احد تمیمی نے بہادری اور شجاعت کی ایک ایسی مثال قائم کی تھی کہ جسے رہتی دنیا تک ہمیشہ تاریخ فلسطین اور آزادی فلسطین کی جدوجہد میں سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ احد تمیمی نے فلسطینی عوام کے ساتھ جبر و ستم کے ساتھ پیش آنے والے ایک غاصب صہیونی فوجی کے منہ پر تھپڑ رسید کیا تھا۔ اس جرم میں اسے گرفتار کیا گیا اور پھر مختلف اوقات میں سنگین سزائیں اور نفسیاتی تشدد کیا جاتا رہا۔ تاہم 29 جولائی 2018 کو غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی قید سے وہ اپنی والدہ کے ہمراہ آزادی پا کر ایک مرتبہ پھر فلسطینی عوام سمیت دنیا بھر کے حریت پسندوں اور متوالوں کےلیے رول ماڈل بن گئی ہے۔
ایک سولہ سالہ فلسطینی نوجوان بہادر لڑکی کا غاصب صہیونی فوجی کو تھپڑ رسید کرنا یقیناً ایک قابل جرأت اور شجاعت مندانہ عمل ہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ فلسطین کی نئی نسل بھی پرانی نسلوں کی طرح جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کو ترجیح دے رہی ہے اور یہ نسل نو کسی بھی طرح سے غاصب اسرائیل یا اس کے مددگار امریکا و مغربی ممالک کی طرف سے کی جانے والی صہیونیوں کی مسلح مدد سے مرعوب نہیں بلکہ یہ نسل اپنے حقوق کے دفاع کی خاطر نہتے ہی برسرپیکار رہنے کو عزت و شرف کا راستہ سمجھ کر فلسطین و القدس کے دفاع کےلیے سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے۔
احد تمیمی اور ان جیسی سیکڑوں فلسطینی نوجوان بچیاں اور بچے گزشتہ کئی ہفتوں سے غزہ اور مغربی کنارے کے ناجائز قائم کردہ بارڈر پر حق واپسی مارچ کا حصہ ہیں اور اس پاداش میں صہیونی غاصب افواج کی جانب سے مسلسل فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ بھی جاری ہے جو تاحال اس نسل نو کا حوصلہ پست کرنے میں بری طرح سے ناکام ہے، بلکہ فلسطین کی نسل نو کے حوصلہ مزید بلند سے بلند تر ہورہے ہیں اور وہ مزاحمت کاری کے عمل کو ہی اپنی بقاء اور فلسطین کی آزادی کا راستہ قرار دے رہے ہیں۔ یہی کچھ دراصل فلسطین کی اس بہادر بیٹی احد تمیمی نے بھی انجام دیا۔
فلسطین کی نئی نسل میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے مظالم اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے خلاف جنم لینے والا جذبہ حریت اور مزاحمت دراصل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسرائیل مسلسل زوال کی طرف ہے۔ جہاں ایک طرف صہیونی جعلی ریاست اسرائیل اپنے دفاع کی خاطر اب مختلف دیواریں بنا کر سہارا لے رہی ہے وہاں غزہ اور مغربی کنارے کے راستے کو جدا کر کے ناجائز سرحد کی تعمیر کے ذریعہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل نے اپنے لیے شکست کا ایک اور باب کھول لیا ہے اور خود کو مزید محدود کر لیا ہے۔ یہی اسرائیل 1948 سے پہلے اور بعد میں عظیم تر اسرائیل (گریٹر اسرائیل) کی بات کرتا تھا لیکن آج احد تمیمی جیسی بہادر نوجوان نسل کے سامنے تسلیم خم ہورہا ہے اور خود کو محدود سے محدود کرنے میں مصروف ہے۔
یہ غاصب صہیونی ملک اسرائیل کہ جو چھ مسلمان ممالک کے ساتھ ہونے والی جنگ میں چند گھنٹوں میں نتائج حاصل کرلیتا تھا اور فتح یاب رہتا تھا، آج ایک سولہ سالہ نوجوان لڑکی کے ہاتھوں اس غاصب ریاست کے درندہ صفت فوجی تھپڑ کھا رہے ہیں اور اس پر شکست تو یہ ہے کہ آٹھ ماہ قید رکھنے کے بعد بالآخر فتح کس کی ہوئی ہے؟ اسرائیل پھر بھی شکست سے دوچار ہو اہے، جعلی ریاست اسرائیل کو بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑے اور فلسطینی نوجوانوں کی جدوجہد رنگ لائی ہے اور احد تمیمی کو اس کی والدہ کے ہمراہ آزاد کرنا پڑا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف امریکا اور دنیا کی بڑی مغربی طاقتیں غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ امداد کے نام پر دے کر اسے مزید طاقتور دیکھنا چاہتی ہیں جبکہ دوسری طرف اب اس جعلی ریاست اسرائیل کی حالت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ایک سولہ سال کی نوجوان لڑکی اسرائیلی غاصب فوجیوں سے نہتے ہی نبرد آزما ہے اور اپنے آہنی ہاتھوں کے تھپڑ ان صہیونی درندوں کو رسید کررہی ہے۔ یقیناً اسرائیل تاریخ میں اس سے زیادہ زوال کا شکار نہیں ہوا تھا کہ ایک پوری نسل جو فلسطین میں مقبوضہ حالات میں جنم لے کر نوجوانی کی منزل گزار رہی ہے آج غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کےلیے درد سر بن چکی ہے اور اسرائیل کو کسی بھی محاذ پر چین و سکون میسر نہیں آرہا۔ عرب دنیا اور خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں کی رائے میں بھی فلسطین کی اس بہادر اور شجاع نوجوان لڑکی احد تمیمی کی رہائی فلسطینی مزاحمت کے حامیوں اور فلسطین کی نئی نسل کی ناقابل تسخیر کامیابی ہے جس پر اسرائیل کے حصے میں فقط ذلت و رسوائی کے سوا کچھ اور نہیں رہا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی احد تمیمی کی رہائی پر پوری پاکستانی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور فلسطین کاز کےلیے سرگرم عمل تنظیم فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے احد تمیمی کی صہیونی قید سے رہائی کو فلسطینی عوام کی عظیم کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے فلسطین کے عوام کو مبارکباد پیش کی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔